یورپی یونین جی ایس پی پلس
یورپی یونین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت رد عمل کا اظہار کرتی ہے
کیا ملک میں Civil Space ( شہری آزادی ) کم ہو رہی ہے؟ کیا ریاست کا اقتدارِ اعلیٰ محدود ہورہا ہے؟ پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر ڈاکٹر رینا کیونگا کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو اپنے GSP پلس اسٹیٹس کی تجدید کرانی ہے تو آزادی رائے سمیت کئی شعبوں میں بہتری لانا ہوگی۔
یورپی یونین کے سفیرکا بیانیہ ہے کہ اقلیتوں کی صورتحال، خواتین کے حقوق، صنفی مساوات اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرنے ہونگے۔
ڈاکٹر رینا کیونگا نے اپنے بیانیہ کو ایک وڈیو پیغام کی صورت میں سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے ساتھ مذہب اور عقیدہ کی آزادی کی بھی امید رکھتی ہے۔
یورپی یونین کی ایلچی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر بھی تشویش ہے۔ ایکسپریس ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی سفیر کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں (N.G.O's) اور ماہرین ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔
ان کا بیانیہ ہے کہ پاکستان شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدہ (I.C.C.P.R) کا ایک ریاستی فریق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہر فرد کو ایک ایسی عدالت میں منصفانہ اور عدالتی مقدمہ سماعت کا حق ہے جو آزاد، غیر جانبدار اور مؤثر قانونی نمایندگی کا حق بھی رکھتی ہو۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ سال کے آخر میں اس صورتحال سے بچنے کا ہے۔
منفی صورتحال سے پاکستانی برآمدات متاثر ہونگی اور اس کا مطلب تجارتی ترجیحات کو تبدیل کرنا ہوگا جس کے نتیجہ میں پاکستانی برآمدات تیار کرنے والے کارخانوں اور ان میں کام کرنے والے مزدور اور ان کے خاندان والے متاثر ہونگے۔
یورپی یونین کے 27 ممالک کی ایک منفرد پارٹنر شپ ہے۔ یورپی یونین میں شامل ممالک دنیا کی 447 ملین آبادی پر مشتمل ہیں، یوں یورپی یونین دنیا کی 6 فیصد آبادی کی نمایندگی کرتی ہے۔ یورپی یونین کے مقاصد میں شہریوں کو آزادانہ نقل و حرکت، یورپی ممالک کی مارکیٹ کے لیے سامان، سروس اور سرمایہ کی فراہمی شامل ہے۔
یورپی یونین کے ممالک تجارت، زراعت، ماہی گیری اور علاقائی ترقی کے بارے میں یکساں پالیسیاں اختیار کرتے اور دیگر ممالک کے تعلقات کو انسانی حقوق کی پاسداری کو دیگر ممالک سے تعلقات میں انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔
یورپی یونین سزائے موت، تشدد کے کسی قسم کے امتیاز ، انسانوں کی اسمگلنگ اور مذہبی آزادیوں پر قدغن کے خلاف ہے۔ یورپی یونین ترقی پذیر ممالک کو اچھی طرز حکومت اور Sustainable Development قیام کی بناء پر GSP+ کا اسٹیٹس دیتی ہے۔
اس GSP+ کی بناء پر ترقی پذیر ممالک سے درآمد ہونے والی اشیاء پر درآمدی ڈیوٹی ختم کروا دیتی ہے، یوں ترقی پزیر ممالک کی اشیاء یورپی ممالک کی منڈیوں میں سستی ہونے کی بناء پر زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے والوں میں پاکستان کا پہلا نمبر ہے۔ پاکستان کو 2014ء میں جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دیا گیا تھا۔
پاکستان میں شہری آزادیوں پر قدغن کا معاملہ تاریخ کا حصہ ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں میڈیا پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد رہیں۔ مختلف طریقوں سے میڈیا کے بیانیہ کوکنٹرول کرتے رہے۔ سابقہ دور میں کئی صحافی لاپتہ ہوئے، کچھ پر قاتلانہ حملے ہوئے۔
میڈیا کی معیشت کو ایک خاص سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کمزور کیا گیا، یوں گزشتہ دورِ حکومت میں میڈیا شدید بحران کا شکار رہا۔ سیاسی مخالفین کو احتساب ادارہ نیب کے ذریعہ ہراساں کرنے، مخالفین کو قید کرانے کی روایت میں فرق نہیں آیا۔ گزشتہ دور میں شیخ رشید جیسے جید وزراء مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی گرفتاری کی پیشگوئی کرتے تھے اور یہ نیب چند دن بعد گرفتار کرلیتا تھا۔
سابقہ حکومت لاپتہ افراد کے مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہی۔ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے جرم کو فوجداری جرم قرار دینے کا قانون سینیٹ سے لاپتہ ہوا تھا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما سابقہ دور میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف پر زور بیانیہ اختیار کرتے تھے، یوں امید ہوچکی تھی کہ دور تبدیل ہوگا تو انسانی حقوق کا تحفظ یقینی ہوجائے گا، مگر مخلوط حکومت کے قیام کے بعد صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ ہر مہینہ نامعلوم افراد صحافیوں کو اغواء کرلیتے ، وہ صحافی چند دنوں بعد اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے تھے۔
کراچی میں گزشتہ 15 دن کے دوران دو صحافی ایسی ہی صورتحال کا شکار ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں کچھ صحافیوں کی بازیابی کی درخواستیں زیرِ التواء ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔
کمیشن کے سربراہ پر الزامات تھے۔ یورپی یونین نے اپنی رپورٹوں میں بار بار اس نکتہ پر زور دیا ہے۔ اقلیتی فرقوں کے افراد کی آزادیوں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں ہیں جو ختم نہیں ہو پا رہی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال ہے۔
ہندو برادری اس سے براہِ راست متاثر ہے۔ ڈاکو خاص طور پر ہندو برادری کے مردوں کو ہی نہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی تاوان کے لیے اغواء کرتے ہیں۔ ڈاکو اتنے دلیر ہیں کہ مغویوں کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کی پولیس گزشتہ 6 ماہ سے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کررہی ہے مگر جرائم میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ گزشتہ ہفتہ 10 سے زیادہ ہندو خاندان اپنے آباؤ اجداد کی دھرتی کو چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ ہندوؤں کی لڑکیوں خاص طور پر کم عمر لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب کی شکایات ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ اقلیتوں سے متعلق اپنے فیصلے میں واضح طور پر تحریر کر چکے ہیں کہ کسی فرقہ کی عبادت میں مداخلت پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور فوجداری جرم ہے۔
یورپی یونین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت رد عمل کا اظہار کرتی ہے، اگر یورپی یونین اس صورتحال سے مایوس ہوگی تو GSP+ کا اسٹیٹس واپس لیا جائے گا، خاص طور پر گارمنٹس کی صنعت اس سے ختم ہوجائے گی۔
یوں بے روزگاری کا نیا دور شروع ہوگا مگر یورپی یونین یا کوئی اور ادارہ انسانی حقوق کی صورتحال کو منفی قرار دے یا کوئی بین الاقوامی ادارہ اس صورتحال کو بہتر قرار دے حکومت کی ذمے داری ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے، یوں ہر فرد کے حقوق کا تحفظ ہوگا تو ملک ترقی کرے گا۔
یورپی یونین کے سفیرکا بیانیہ ہے کہ اقلیتوں کی صورتحال، خواتین کے حقوق، صنفی مساوات اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرنے ہونگے۔
ڈاکٹر رینا کیونگا نے اپنے بیانیہ کو ایک وڈیو پیغام کی صورت میں سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے ساتھ مذہب اور عقیدہ کی آزادی کی بھی امید رکھتی ہے۔
یورپی یونین کی ایلچی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر بھی تشویش ہے۔ ایکسپریس ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی سفیر کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں (N.G.O's) اور ماہرین ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔
ان کا بیانیہ ہے کہ پاکستان شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدہ (I.C.C.P.R) کا ایک ریاستی فریق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہر فرد کو ایک ایسی عدالت میں منصفانہ اور عدالتی مقدمہ سماعت کا حق ہے جو آزاد، غیر جانبدار اور مؤثر قانونی نمایندگی کا حق بھی رکھتی ہو۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ سال کے آخر میں اس صورتحال سے بچنے کا ہے۔
منفی صورتحال سے پاکستانی برآمدات متاثر ہونگی اور اس کا مطلب تجارتی ترجیحات کو تبدیل کرنا ہوگا جس کے نتیجہ میں پاکستانی برآمدات تیار کرنے والے کارخانوں اور ان میں کام کرنے والے مزدور اور ان کے خاندان والے متاثر ہونگے۔
یورپی یونین کے 27 ممالک کی ایک منفرد پارٹنر شپ ہے۔ یورپی یونین میں شامل ممالک دنیا کی 447 ملین آبادی پر مشتمل ہیں، یوں یورپی یونین دنیا کی 6 فیصد آبادی کی نمایندگی کرتی ہے۔ یورپی یونین کے مقاصد میں شہریوں کو آزادانہ نقل و حرکت، یورپی ممالک کی مارکیٹ کے لیے سامان، سروس اور سرمایہ کی فراہمی شامل ہے۔
یورپی یونین کے ممالک تجارت، زراعت، ماہی گیری اور علاقائی ترقی کے بارے میں یکساں پالیسیاں اختیار کرتے اور دیگر ممالک کے تعلقات کو انسانی حقوق کی پاسداری کو دیگر ممالک سے تعلقات میں انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔
یورپی یونین سزائے موت، تشدد کے کسی قسم کے امتیاز ، انسانوں کی اسمگلنگ اور مذہبی آزادیوں پر قدغن کے خلاف ہے۔ یورپی یونین ترقی پذیر ممالک کو اچھی طرز حکومت اور Sustainable Development قیام کی بناء پر GSP+ کا اسٹیٹس دیتی ہے۔
اس GSP+ کی بناء پر ترقی پذیر ممالک سے درآمد ہونے والی اشیاء پر درآمدی ڈیوٹی ختم کروا دیتی ہے، یوں ترقی پزیر ممالک کی اشیاء یورپی ممالک کی منڈیوں میں سستی ہونے کی بناء پر زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے والوں میں پاکستان کا پہلا نمبر ہے۔ پاکستان کو 2014ء میں جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دیا گیا تھا۔
پاکستان میں شہری آزادیوں پر قدغن کا معاملہ تاریخ کا حصہ ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں میڈیا پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد رہیں۔ مختلف طریقوں سے میڈیا کے بیانیہ کوکنٹرول کرتے رہے۔ سابقہ دور میں کئی صحافی لاپتہ ہوئے، کچھ پر قاتلانہ حملے ہوئے۔
میڈیا کی معیشت کو ایک خاص سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کمزور کیا گیا، یوں گزشتہ دورِ حکومت میں میڈیا شدید بحران کا شکار رہا۔ سیاسی مخالفین کو احتساب ادارہ نیب کے ذریعہ ہراساں کرنے، مخالفین کو قید کرانے کی روایت میں فرق نہیں آیا۔ گزشتہ دور میں شیخ رشید جیسے جید وزراء مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی گرفتاری کی پیشگوئی کرتے تھے اور یہ نیب چند دن بعد گرفتار کرلیتا تھا۔
سابقہ حکومت لاپتہ افراد کے مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہی۔ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے جرم کو فوجداری جرم قرار دینے کا قانون سینیٹ سے لاپتہ ہوا تھا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما سابقہ دور میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف پر زور بیانیہ اختیار کرتے تھے، یوں امید ہوچکی تھی کہ دور تبدیل ہوگا تو انسانی حقوق کا تحفظ یقینی ہوجائے گا، مگر مخلوط حکومت کے قیام کے بعد صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ ہر مہینہ نامعلوم افراد صحافیوں کو اغواء کرلیتے ، وہ صحافی چند دنوں بعد اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے تھے۔
کراچی میں گزشتہ 15 دن کے دوران دو صحافی ایسی ہی صورتحال کا شکار ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں کچھ صحافیوں کی بازیابی کی درخواستیں زیرِ التواء ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔
کمیشن کے سربراہ پر الزامات تھے۔ یورپی یونین نے اپنی رپورٹوں میں بار بار اس نکتہ پر زور دیا ہے۔ اقلیتی فرقوں کے افراد کی آزادیوں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں ہیں جو ختم نہیں ہو پا رہی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال ہے۔
ہندو برادری اس سے براہِ راست متاثر ہے۔ ڈاکو خاص طور پر ہندو برادری کے مردوں کو ہی نہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی تاوان کے لیے اغواء کرتے ہیں۔ ڈاکو اتنے دلیر ہیں کہ مغویوں کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کی پولیس گزشتہ 6 ماہ سے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کررہی ہے مگر جرائم میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ گزشتہ ہفتہ 10 سے زیادہ ہندو خاندان اپنے آباؤ اجداد کی دھرتی کو چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ ہندوؤں کی لڑکیوں خاص طور پر کم عمر لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب کی شکایات ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ اقلیتوں سے متعلق اپنے فیصلے میں واضح طور پر تحریر کر چکے ہیں کہ کسی فرقہ کی عبادت میں مداخلت پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے اور فوجداری جرم ہے۔
یورپی یونین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت رد عمل کا اظہار کرتی ہے، اگر یورپی یونین اس صورتحال سے مایوس ہوگی تو GSP+ کا اسٹیٹس واپس لیا جائے گا، خاص طور پر گارمنٹس کی صنعت اس سے ختم ہوجائے گی۔
یوں بے روزگاری کا نیا دور شروع ہوگا مگر یورپی یونین یا کوئی اور ادارہ انسانی حقوق کی صورتحال کو منفی قرار دے یا کوئی بین الاقوامی ادارہ اس صورتحال کو بہتر قرار دے حکومت کی ذمے داری ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے، یوں ہر فرد کے حقوق کا تحفظ ہوگا تو ملک ترقی کرے گا۔