آئی ایم ایف سے قرض اور برآمدات و تجارتی خسارہ

تجارت خارجہ کے ضمن میں برآمدی مالیت کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے

آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر قرض پروگرام بالآخر منظور کر لیا گیا ہے، تین قسطوں میں سے پہلی قسط ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز فوری طور پر پاکستان کو مل جائیں گے۔ دریں اثنا گزشتہ چند دنوں میں سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر اور یو اے ای سے ایک ارب ڈالر پاکستان کو مل چکے ہیں، لیکن ترسیلات زر میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ تجارت خارجہ کے ضمن میں برآمدی مالیت کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران 30 جون تک ختم ہونے والے مالی سال کے دوران ملکی ایکسپورٹ کی مالیت اس سے بھی گزشتہ سخت ترین مالی سال کے مقابلے میں 12.71 فی صد کمی ریکارڈ کرتے ہوئے 27 ارب 74 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کی رہیں جب کہ مالی سال 2020-21 کے دوران 31 ارب 78 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی رہیں۔ تقریباً 4 ارب ڈالر کی کمی کا ہونا معیشت کے لیے انتہائی مشکلات کا سبب بن رہی ہیں۔

اس کی مختلف وجوہات ہیں لیکن حکومتی پالیسی کے باعث درآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے، جس نے تجارتی خسارے کو اچھا خاصی لگام ڈال دی ہے جس کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہیں کہ مالی سال 2022-23 کے دوران ملکی تجارتی خسارہ 27 ارب 54 کروڑ70 لاکھ ڈالر کا رہا، جب کہ اس کے مدمقابل گزشتہ مالی سال 2020-21 کے دوران 48 ارب 35 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کے تجارتی خسارے کے باعث اس خسارے میں 43 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

اس طرح48 ارب ڈالرز سے زائد کے تجارتی خسارے نے پاکستانی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے خوف کے باعث جب یکم جولائی 2023 کا آغاز ہوا تو حکومت اس بات کے لیے پرعزم تھی کہ کسی نہ کسی طرح تجارتی خسارے کو کم سے کم کیا جائے کیونکہ کئی باتیں ایسی ہونا شروع ہوگئی تھیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازوں نے درآمدات میں کمی کی خاطر کئی درآمدات پر پابندی عائد کردی۔

اگرچہ کئی غیر ضروری مہنگی درآمدات میں کمی ہوئی لیکن ساتھ ہی یہ سارا معاملہ ایک منجھے ہوئے کاروباری اور عمر رسیدہ تجربہ کار شخص کی طرح معیشت کو ڈیل کی جاتی تو معاملات حل ہو جاتے اور اتنی زیادہ معاشی پریشانی لاحق نہ ہوتی۔ ایک عمر رسیدہ تجربہ کار تاجر اس وقت کیا کرتا ہے؟ جب اسے کیش کی زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کی سیل میں روز بہ روز کمی واقع ہونا شروع ہوتی ہے اور ادھار مانگنے والے سر پر کھڑے ہوں اور کاروبار چلانے منافع کمانے کے لیے مال کی ضرورت میٹریل کی ضرورت درآمدات کی ضرورت ہوتی ہے۔


پاکستان نے ایسے مشکل معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے جبر والی پالیسی اختیار کی۔ زیادہ تر درآمدات پر پابندی اور بیشتر کنٹینرز روک دیے گئے تھے۔ حالانکہ دوسرا رویہ اختیار کرتے ان کنٹینرز کو ریلیز کیا جاتا جس سے برآمدی سامان تیار کیا جاتا ہے پھر کھانے پینے کی اشیا میں سے ایسی اشیا جن کو بعد میں ریلیز کیا گیا ان کا متبادل پاکستان میں تیار کیا جاتا اور اشتہاروں کے ذریعے ان کی زیادہ سے زیادہ سیل کی جاتی ملک میں ایسے اقدامات سے گریز کیا جاتا جس سے لوگوں کو معیشت کی کمزوری کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتیں۔ گزشتہ برس سے ہی ملک بھر میں خوراک کی درآمدات میں کمی لانے کی مہم چلائی جاتی۔

زیادہ سے زیادہ فصل اگاؤ مہم اور کم سے کم خوراک کی درآمدات کا عزم فوڈ گروپ کی درآمدات میں کمی کا سبب بن سکتا تھا۔ ملک میں ایسا تاثر قائم کردیا گیا کہ بس اب روپے کے دن گنے جا چکے، ڈالر، پاؤنڈز، یورو، درہم، ریال کا اب ہوگا راج، ان تمام باتوں نے مل کر روپے کی قدر کو گھسیٹا اور روپے کی قدر تیزی سے گرنا شروع ہوئی۔

جب حکومت نے اپنے حکومتی دور کا آغاز کیا تو 190 روپے کا ایک ڈالر تھا جو 13 ماہ میں گرتے گرتے 130 روپے گر چکا تھا۔ پھر بیک وقت 230 روپے کا ہوا اب مزید بہتر ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف دور کے اعلامیے سے روپے کو کچھ ڈھارس بندھی اسے قرار آنا شروع ہوا۔ اس دوران پٹرول کی قیمت میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ اسٹاک ایکسچینج میں تیزی آنے لگی۔ سونا جو کہ ڈھائی لاکھ روپے کے قریب فی تولہ ہو چکا تھا اس میں گراوٹ آنے لگی۔

پاکستانی معیشت اس تمام صورتحال سے باہر نکل کر آچکی ہے لیکن خطرات ابھی ٹلے بالکل نہیں ہیں بلکہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو آیندہ 9 ماہ کے بعد ملک مزید مشکلات کا شکار ہونے والا ہے۔ البتہ کچھ کارگزاری ایکسپورٹ کے بارے میں عائد کی جاسکتی ہے۔

اعداد و شمار کا بغور مطالعہ کیا جائے تو کچھ ایسا ہے کہ مالی سال 2020-21 کے دوران پونے بتیس ارب ڈالر کی برآمدات تھی جس میں صرف معمول کے مطابق 15 سے 16 ارب ڈالر مزید برآمدات کی توقع تھی،کیونکہ دنیا کے کئی ملکوں کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات میں تیزی سے کمی ہوئی ہے حالانکہ ایک جائزے کے مطابق دنیا بھر میں برآمدات میں جوکہ کئی ملکوں کی درآمدات بھی ہوتی ہیں اس میں کافی اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو اپنا حصہ بہ قدر جثہ حاصل کرنا چاہیے تھا۔ حصہ بہ قدر جثہ اس لیے کہیں گے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔

لہٰذا زیادہ لمبے چوڑے امکانات کا تذکرہ کیے بغیر کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم 40 ارب ڈالر کی برآمدات ہونا چاہیئیں تھیں۔ وہ کیوں نہ ہو سکا کیونکہ روپے کی قدر گھٹتی رہی۔ افراط زر کی شرح بڑھتی رہی۔ ڈالر جیسے آزاد ہوا میں اڑتا رہا۔ پھر روپے کی بے قدری نے درآمدی اشیا کو مہنگا کردیا کم درآمد اور دیگر باتوں نے دراصل برآمدی مالیت کم کردی۔

اب جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آ رہی ہے لہٰذا حکومت بہت سوچ سمجھ کر برآمدات بڑھانے والی درآمدات کے ذریعے برآمدات کو بڑھاوا دے اور ترسیلات زر میں اضافے کی تدبیر کو بھی مدنظر رکھے تاکہ مالیات کی مینجمنٹ اس طرح کی جاسکے جس طرح گرتا ہوا تاجر اپنی تجربے کاری، ہوشیاری، مہارت، قابلیت اور قوت فیصلہ کے ساتھ کرتا ہے اپنی ان درآمدات کو زیادہ فوقیت دے جن کا استعمال برآمدی میٹریلز میں ہو رہا ہے یا جس سے تاجر کا کوئی نہ کوئی مفاد عزیز ہو اور ملکی برآمدات میں شدید اضافہ والی درآمدات انتہائی ضروری ہیں اور ترسیلات زر کو بڑھانے کی خاطر اقدامات، روپے کی قدر میں مضبوطی کا سلسلہ ڈالر کی بے قدری کا سلسلہ افراط زر کی شرح کو گرانے اور گرنے لگے تو گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینا ایسے بہت سے امور ہیں جن پر توجہ دے کر معیشت کو قدرے بہتری کی جانب گامزن کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ قرض اگلے 9 ماہ کے بعد ایسا رنگ دکھائے گا کہ معیشت مزید زوال کا شکار ہو کر رہے گی۔
Load Next Story