پی سی بی پر غیر متعلقہ افراد کی اجارہ داری
پاکستان کی سیاست میں یہ روایت بن چکی ہے کہ جو بھی حکومت میں آتا ہے وہ اداروں میں اپنی مرضی کی تعیناتیاں کرتا ہے، چاہے وہ سرکاری محکمے ہوں یا خودمختار ادارے۔ اب پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہی دیکھ لیجیے، حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی بدل جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت گئی تو اس وقت کے چیئرمین رمیز راجہ کو چلتا کردیا گیا اور وزیراعظم شہباز شریف کے قریبی ساتھی نجم سیٹھی کو ایک بار پھر پی سی بی کا چیئرمین بنادیا گیا لیکن نگران سیٹ اپ سے قبل نجم سیٹھی کو تبدیل کرکے اب پیپلزپارٹی کی خواہش پر ذکاء اشرف کو چوتھی بار پی سی بی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ 1999، 2011 اور 2014 میں چیئرمین پی سی بی رہ چکے ہیں۔
کسی بھی ادارے کو چلانے کےلیے اس سے متعلق ماہر کی ضرورت ہوتی ہے جو ادارے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے سکتا ہے، جو سمجھ سکتا ہو کہ ادارے کو کیسے لے کر چلنا ہے، اس کی بہتری کےلیے کیسے کام کرنا ہے۔ لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس پر غیر متعلقہ افراد غالب رہے، جن میں سیاستدان، ریٹائرڈ فوجی افسران اور بیوروکریٹ شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایک جیسا کرکٹ کا ںظام نہیں رہا۔ جو بھی نیا چیئرمین آتا ہے وہ اپنی پالیسی کے مطابق یا حکومتی ہدایات کے مطابق پالیسی بناتا ہے۔ ملک میں کبھی ریجن سسٹم بحال کردیا جاتا ہے، کبھی ایسوسی ایشنز کے ذریعے کرکٹ کے معاملات چلائے جاتے ہیں اور تحریک انصاف کے دور حکومت میں تو ڈپارٹمنٹل کرکٹ ہی ختم کردی گئی تھی اور اب حکومت نے دوبارہ محکمانہ کرکٹ بحال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کے معاملات کو چلانے کےلیے 1949 میں بورڈ آف کرکٹ کنٹرول فار پاکستان کے نام سے ادارہ بنایا گیا تھا۔ ملک میں کرکٹ کے معاملات یہی ادارہ چلاتا رہا۔ 1952 میں آئی سی سی کی رکنیت ملی تو پاکستان نے 1952 میں پہلا ٹیسٹ میچ بھارت کے خلاف کھیلا۔ کرکٹ کے معاملات پاکستان کرکٹ بورڈ چلاتا رہا، لیکن حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی بدلتے رہے۔
1949 میں جب کرکٹ معاملات کو چلانے کےلیے ادارہ بنایا گیا تو سربراہی سیاسی شخصیت کو دی گئی۔ افتخار حسین خان سیاسی شخصیت تھے اور وہ 1950 تک پی سی بی کے سربراہ رہے۔ 1950 سے 1951 تک چوہدری نذیر احمد پی سی بی کے صدر رہے، وہ بھی سیاسی شخصیت تھے۔ اسی طرح سیاسی شخصیت چوہدری نذیر احمد 1953 تک بورڈ کے سربراہ رہے۔ 1953 میں کسی بیوروکریٹ کو بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا۔ میاں امین الدین 1954 تک پی سی بی چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے۔ محمد علی بوگرا بھی سیاسی شخصیت تھے، وہ چار ماہ کےلیے بورڈ کے چیئرمین رہے۔ اس کے بعد سابق عسکری شخصیت میجر جنرل اسکندر مرزا کو بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا۔ وہ 1958 تین سال کے عرصے تک چیئرمین رہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بھی دو سال تک پی سی بی کے سربراہ رہے۔ جسٹس ریٹائرڈ اے آر کورنیلئس 1960 سے 1963، بیوروکریٹ سید فدا حسین 1963 سے 1969، بیوروکریٹ اکرام احمد خان 1969 سے 1972 بورڈ کے چیئرمین رہے۔
1972 میں پہلی مرتبہ پروفیشنل کرکٹر کو بورڈ کا سربراہ بنایا گیا، عبدالحفیظ کاردار پانچ سال تک بورڈ کے سربراہ رہے۔ وہ 1977 تک بورڈ کے سربراہ رہے۔ صنعت کار چوہدری محمد حسین 1977 سے 1978، عسکری شخصیت لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ خواجہ محمد اظہر 1978 سے 1980، عسکری شخصیت ایئر مارشل ملک نور خان 1980 سے 1984، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام صفدر بٹ 1984 سے 1988، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ زاہد علی اکبر خان 1988 سے 1992، جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ 1992 سے 1994، کرکٹر جاوید برکی 1994 سے 1995، سیاسی شخصیت سید ذوالفقار بخاری سیاستدان 1995 سے 1998، بیوروکریٹ خالد محمود 1998 سے 1999، کرکٹر مجیب الرحمان دو ماہ کےلیے پی سی بی کے چیئرمین رہے۔ 1999 میں ٹیکنوکریٹ ذکاء اشرف کو پہلی بارپی سی بی کا چیئرمین بنایا گیا اور وہ صرف دو ماہ تک ذمے داریاں نبھا سکے۔ فوجی شخصیت لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیاء کو کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی ذمے داریاں دی گئیں، وہ تین سال تک چیئرمین رہے۔ ٹیکنوکریٹ شہریار خان 2003 سے 2006، ڈاکٹر نسیم اشرف 2006 سے 2008، کرکٹر اعجاز بٹ 2008 سے 2011، ذکاء اشرف 2011 سے 2013، صحافی نجم سیھٹی 2013 سے 2014، ذکاء اشرف تیسری بار دو ماہ کےلیے جنوری سے فروری 2014 تک چیئرمین پی سی بی رہے۔ نجم سیٹھی کو تین ماہ کےلیے فروری 2014 سے مئی تک مختصر مدت کےلیے چیئرمین بنایا گیا۔ جسٹس ریٹائرڈ جشمید علی شاہ قائم مقام چیئرمین پی سی بی رہے۔
تحریک انصاف کی حکومت سے قبل نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی تھے لیکن عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد انھیں عہدے سے ہٹادیا گیا۔ سابق کپتان قومی کرکٹ کے وزیراعظم بننے پر یہ امید کی جارہی تھی کہ جس طرح ماضی کی حکومتوں نے پی سی بی کی باگ ڈور غیر پیشہ ور لوگوں کے ہاتھوں پر دی، کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو پی سی بی کی ذمے داریاں دی جائیں گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور ٹیکنوکریٹ احسان مانی پی ٹی آئی کے دور میں 2018 سے 2021 تک پی سی بی کے سربراہ رہے۔ اگرچہ احسان مانی آئی سی سی کی ذمے داریاں نبھا چکے تھے لیکن ان کے دور میں بھی پی سی بی کو راہ راست پر نہیں لایا جاسکا۔
احسان مانی کے بعد قرعہ فال رمیز راجہ کے نام نکلا۔ انھیں 2021 میں پی سی بی کا چیئرمین بنادیا گیا اور امید کی جانے لگی کہ رمیز راجہ ملک میں کرکٹ کی بہتری کےلیے خود کو وقف کریں گے۔ لیکن ان کے دور میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ میں اصلاحات نہیں لائی جاسکیں، اور وہ دو سال کی مدت گزار کر پی ٹی آئی کی حکومت رخصت ہونے کے بعد وہ بھی پی سی بی سے رخصت ہوگئے اور ایک بار پھر کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور نجم سیھٹی کے حوالے کردی گئی، لیکن وہ چھ ماہ کی مدت گزار سکے۔
جیسا ماضی میں ہوتا رہا کہ کرکٹ بورڈ کو سیاسی حکومتیں اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتی رہیں، اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی قریبی ساتھی نجم سیھٹی کو چیئرمین پی سی بی بنایا لیکن شریک اقتدار پیپلزپارٹی کی خواہش رہی کہ پی سی بی کی باگ ڈور ان کی نامزد شخصیت کو دی جائے۔ اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے ذکاء اشرف کا نام پیش کیا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف چیئرمین پی سی بی تبدیل کرنے کےلیے تیار نہیں تھے لیکن آصف علی زرداری کی خواہش کے سامنے شہبازشریف کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے کچھ عرصہ قبل ہی چیئرمین پی سی بی کو تبدیل کردیا گیا اور اب ذکاء اشرف کو ایک بار پھر چیئرمین پی سی بی کی ذمے داریاں سونپ دی گئی ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اگرچہ خودمختار اور ایسا ادارہ ہے جسے چلانے کےلیے اس کی سمجھ بوجھ رکھنے والے سربراہ کی ضرورت ہے، جیسا کہ اب تک پی سی بی کی سربراہی کرنے والوں کی فہرست آپ کے سامنے سے گزری، اس میں صرف چند کرکٹرز کے سوا بیوروکریٹ، ریٹائرڈ جج اور فوجی افسران ہی نظر آئیں گے۔ اب اگر ڈاکٹر وکیل اور وکیل ڈاکٹر نہیں بن سکتا، اسی لیے بغیر کسی منصوبہ بندی کے اور سفارشات پر کھلاڑیوں کےلیے انتخاب کےلیے سلیکشن کمیٹیاں بھی بن جاتی ہیں اور پھر قومی کرکٹ ٹیم میں کھلاڑیوں کے انتخاب کے بعد سلیکشن کمیٹی پر انگلیاں بھی اٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔
پی سی بی کے معاملات کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے ہاتھ میں دیئے جائیں تو بہتر ہوگا۔ حکومت کے کردار کو اس میں ختم کرنا ہوگا اور ایسا تب ممکن ہے جب پی سی بی کے آئین پر عمل درآمد کیا جاتا۔ ایک چیئرمین پی سی بی کو تبدیل کرنے کےلیے پورے آئین کو معطل کردیا جاتا ہے۔ کرکٹ کی بہتری کےلیے ضروری ہے کہ غیر متعلقہ افراد کے عمل دخل کو ختم کرنے کےلیے آئین کو بحال کرنا ہوگا۔ آئینی طریقہ کار کے مطابق کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔