جنوبی ایشیا ئی کنفیڈریشن کی سازش پردہ اُٹھتا ہے

جاری تنازعے کے حوالے سے غلط فہمیاں کچھ یوں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ آزاد صحافت کی لڑائی ہے یا پھر صحافت پر حملہ ...

budha.goraya@yahoo.com

شعبدہ باز پسپا ہو رہے ہیں، سامری جادوگر کا سحر ٹوٹ رہا ہے، آزادی اظہار، انسانی حقوق اور آزاد صحافت کے پر کشش اور دل فریب نعروں کی آڑ میں غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کرنے والے مداری فرار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ نوجوان دانشور حامد میر پر قاتلانہ حملے کی آڑ میں اپنے گھنائونے کاروبار کو پھیلانے والے سر پیٹ رہے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج کو ہدف بنا کر جنوبی ایشیا میں وسیع تر کنفیڈریشن کے خواب دیکھنے والوں کو حقائق کی کڑی دُھوپ کا سامنا ہے اور اب ساری قوم ان مداریوں کے تعاقب میں ہے۔ جنوبی ایشیائی کنفیڈریشن کے جال میں لاہور کے ایک بزرگ ایڈیٹر کو بلا واسطہ 90ء کی دہائی میں اُلجھانے کی سازش کی گئی تھی جس کو اس مرد دانا نے منصب صدارت قبول کرنے سے انکار کر کے ناکام بنا دیا تھا۔ سازشی گھات لگائے بیٹھے رہے اور اب دوبارہ اپنے طے شدہ اہداف کی تکمیل کے لیے بروئے کار ہیں۔

یہ کالم نگار جاری تنازعے میں غیر جانبدار رہنا چاہتا تھا کہ سماجی اور خاندانی اخلاقیات کا تقاضا یہی تھا کہ کامل ایک دہائی تک جنگجو گروپ کے خصوصی وقائع نگار کی حیثیت سے مختلف بحرانوں میں ہمیشہ صف اول پر داد شجاعت دیتا رہا اور مختلف معرکہ آرائیوں میں بروئے کار رہا۔ دس برس کے دوران بہت سے حساس معاملات کا مشاہد ہ کیا اور بتدریج یہ احساس پختہ ہوتا گیا کہ یہ میڈیا گروپ اپنے قد و قامت سے کہیں بڑے حساس علاقائی اور عالمی معاملات میں ملوث ہے۔ 90ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ہونے والی طویل شبینہ ملاقاتوں میں اس خاکسار پر یہ عیاں ہو چکا تھا کہ یہ میڈیا گروپ پاکستان اور بھارت کی کنفیڈریشن کے عالمی ایجنڈے پر کار بند ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں دنیا کی واحد سپر پاور امریکا اور اس کے حواریوں کی ہر طرح کی ہمہ جہت مدد حاصل ہے۔

امن کی آشا، علاقائی بھائی چارے اور علاقائی سطح پر باہمی انحصار اور تعاون (Regional Interdependence) کے خوبصورت اور خوش رنگ نعروں کی آڑ میں نچلی سطح تک عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ بھارت کی بالادستی کو ذہنی اور نفسیاتی سطح پر راسخ کرانے، ذہنی غلامی اور پسپائی کی تحت الشعور کی گہرائی تک نقش گری کا پیچیدہ کھیل جاری تھا، اس طویل عرصے میں اعلٰی ترین سطح پر مختلف مراحل میں تبادلہ خیال اور بات چیت ہوتی رہی۔

90ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اربوں روپے کی ٹیکس چوری کے معاملات پر جب اس وقت کے احتساب بیورو کے چیئر مین سیف الرحمن نے قانون کا آہنی شکنجہ تنگ کرنا شروع کیا تو ان ابلاغی جنگجوئوں کا واویلا اور چیخ و پکار دیدنی تھا، اس کالم نگار کی کینیا میں چینی کی صنعت (Sugar Industry) میں حکمران خاندان کی سرمایہ کاری کی خبر نے وزیر اعظم نواز شریف کو مداخلت پر مجبور کر دیا جس کے بعد اربوں روپے ٹیکس چوری کے معاملات پر 'مٹی پائو' پالیسی پر عمل کر کے سفید پرچم بلند کر دیا گیا۔ یوں یہ جنگجو گروپ 'آزادی صحافت کی جنگ' جیت گیا۔

یہ کالم نگار جاری تنازعے میں اس لیے غیر جانبدار رہنا چاہتا تھا کہ ماضی کے مجاہد اور غازی کے قویٰ اب مضمحل ہو رہے ہیں، کالے سیاہ بالوں میں تیزی سے چاندی کی جھلک بڑھتی جا رہی۔ مصلحت، مصالحت اور مفاہمانہ جذبات کا غلبہ ہو رہا ہے لیکن زندگی کے ہر نازک موڑ پر مجھے اپنے سادہ لوح دادا جی، حاجی محمد رمضان خاں یاد آتے ہیں جو مجھے کہا کرتے تھے ''کنڈ نا دئیں تے گھبرائیں نا''(مشکل میں کبھی گھبرا کر بزدلی کا مظاہرہ نہ کرنا) عزت ذلت، زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے جب پاکستان کی مسلح افواج پر حملہ ہو رہا ہو تو پھر کیسی غیر جانبداری، کیسی مصلحت اور مفاہمت اس لیے یہ خاکسار حاضر ہے۔

جاری تنازعے کے حوالے سے غلط فہمیاں کچھ یوں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ آزاد صحافت کی لڑائی ہے یا پھر پاکستان کی صحافت پر حملہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زعم باطل اور تکبر کا شکار ایک میڈیا گروپ کا پاکستان کی مسلح افواج پر حملے کا شاخسانہ ہے۔ میر خلیل الرحمن فائونڈیشن کے نام پر برطانوی دفتر خارجہ سے براہ راست امداد لینے کے شواہد تو لارڈ نذیر کے استفسار پر برطانوی حکومت ہائوس آف لارڈز میں پیش کر چکی ہے جب کہ امریکی دفتر خارجہ کو اپنے مقبول عام ٹاک شوز میں موضوعات اور مواد سمیت فروخت کرنے کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں جن کو پاکستان کے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تا کہ ان کے مقدس چہروں پر پڑے خوش رنگ نقاب اتر سکیں۔


اس بارے میں سب سے زیادہ ذمے داری سپہ سالار جنرل راحیل شریف پر عائد ہوتی ہے جنھیں تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر غیر ملکی امداد کے تمام شواہد کو عوام کی عدالت میں پیش کرنا چاہیے تاریخ میں پہلی بار عام لوگ گلی کوچوں سے چوک اور چوراہوں کا رُخ کر رہے ہیں وہ پاکستانی فوج اور بازوئے شمشیرزن آئی ایس آئی کے حق میں نعرہ زن ہیں اور غیرملکی آقائوں کے اشارے پر ناچنے والوںکو ان کی اوقات یاد دلا رہے ہیں۔

نیوز چینل کو چلانے والے برملا پاکستان کی مسلح افواج کو ریت کی گرتی دیوار قرار دے کر تمسخر اُڑاتے رہتے ہیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو احساس ہو رہا ہے کہ عالمی سر پرست طاقتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں ایک حد سے زیادہ مداخلت نہیں کر سکتیں جن کی شہ اور آسرے پر اس گروپ نے سرخ لکیر عبور کر کے پاکستان کی مسلح افواج پر حملہ کیا تھا، اب وہ پسپائی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ مفاہمت کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں، شطرنج کی بساط پر نئے پیادے آگے بڑھا رہے ہیں لیکن انھیں معلوم نہیں کہ جی ایچ کیو کے نفسیاتی جنگ سے متعلقہ ادارے میں ایک فائل میں لکھا ہوا ہے۔

''دُنیا کے میڈیا پر کسی اَن دیکھے ہاتھ کا کنٹرول پھیلتا جا رہا تھا اور ایک سوچی سمجھی تدبیر کے تحت امریکا اور دیگر ممالک کے عوام میں ایسے تاثرات پیدا کیے جاتے جس سے امریکی حکومت کے ناجائز مقاصد پورے ہو سکیں۔ ہر ملک کے لیے اور ہر موقعے کے لیے خصوصی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے مگر یہ تمام ایک بڑی تصویر کا حصہ ہوتے، ایک ہی جال کے تانے بانے نکلتے ہیں جو عوام کے ذہنوں کو گھائل کر دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ، بار بار وہی ایک جیسے ترانے سن سن کر عوام بھی اُن کا یقین کرنے لگتے ہیں اور وہی راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہر نام نہاد جمہوری حکومت پر دبائو رہتا تھا کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کو آزاد کرایا جائے، کاروباری بنایا جائے، تا کہ عالمی مفادات کے سوداگر اسے پیسے سے قابو میں کر سکیں۔ پاکستان کے قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کو اس کا احساس یوں ہوا کہ حکومت ہم سے نالاں رہتی کہ اس کام میں ہم اتنی رکاوٹ کیوں ڈالتے ہیں۔ بار بار یہ مسئلہ اُٹھتا مگر ISI اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیتی تھی۔ جب میڈیا کاروباری ہو گا تو کسی بھی کاروباری ادارے کی طرح ان کی پہلی ترجیح پیسہ بنانا ہو گی۔ بیرونی طاقتیں پیسوں کے زور پر عوام کے ذہنوں پر کھل کر حملہ کرتی ہیں۔ اُن کی فکر اور زاویہ نگاہ کو بدل دیتی ہیں۔

کئی ممالک میں کامیابی سے یہ جال پھیلایا جا چکا تھا۔ آہستہ آہستہ، نہایت چالاکی سے عوام کو اپنے نکتہ نظر پر آمادہ کرتے۔ کچھ خبروں سے، کچھ اُن پر تبصروں سے، کچھ طنز و مزاج میں، کچھ دل فریب باتوں اور کہانیوں سے۔ اس میں فلم انڈسٹری اور انٹرنیٹ کا پورا نظام بھی شامل تھا۔ آج، جب ہمارے ٹی وی چینلز کاروباری ہو چکے ہیں، مہنگے داموں کروڑوں اربوں کا یہ کھیل جاری ہے۔ ایک سے ایک جعلی عالم اور عالمِ دین، ڈھکے چھپے انداز میں امریکا ہی کے گیت گاتے ہیں۔

رہا حامد میر پر قاتلانہ حملہ، کون مہذب صاحب ضمیر اس کی مذمت نہیں کرے گا لیکن اس سانحے کی اطلاع ملنے کے بعد لمحوں میں جس طرح پاکستان کی مسلح افواج اور نیک نام پیشہ ور سپاہی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو ہدف تنقید بنایا گیا اس کی مذمت اب صرف بلند و بالا ایوانوں میں نہیں ہو رہی، ساری قوم اس پر سراپا احتجاج ہے، اس سازش کے تانے بانے ادھیڑنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے جس کے نتائج جلد سامنے آنے والے ہیں، اس نازک مرحلے پر سابق صدر آصف زرداری کی دانش کو ہزار سلام کہ انھوں نے دشمن کی چال کو سمجھتے ہوئے سندھ اسمبلی سے پاک فوج کے حق میں فوری قرار داد منظور کرا کے قوم کی راہنمائی فرمائی ۔آج زرداری سے عمران خان تک ساری قوم پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔

حرف آخر یہ کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی آخری ذمے داری سپہ سالار جنرل راحیل شریف پر عائد ہوتی ہے۔ یہ کالم نگار انھیں ان کے آبائو اجداد کی رسم جوہر یاد دلانا چاہتا ہے، جب اپنی آن پر جان وار دینے کے لیے راجپوت سورما دہکتے الائو میں کود جایا کرتے تھے۔ آج ساری قوم آپ کی پشت پر کھڑی ہے۔ پاکستان دشمنوں کے تمام مکروہ چہرے بے نقاب کر دیں۔ یاد رہے کہ جنگجو گروپ کا بنیادی ہدف بھارت کو پسندیدہ قوم (MFN) کا درجہ دلا کر کابل تک زمینی راستے سے راہداری کی سہولتیں مہیا کرنا ہے، اس کا انجام کیا ہو گا یہ جاننے کے لیے دُور جانے کی ضرورت نہیں، اس کے بارے میں جناب عبدالستار سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ وہی عبدالستار جو برسوں دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔ سیکریٹری خارجہ اور وزیر خارجہ کے طور پر بھی بھارتیوں کا سامنا کرتے رہے۔ برادرم حامد میر پر قاتلانہ حملے کی المناک کہانی پھر کبھی سہی ۔
Load Next Story