منافقت کا جنازہ نکال دیا گیا ہے
’’کرپشن‘‘ کا جو حشر نشر کل ہوا تھا منافقت کا بھی آج ہو گیا تھا،
ISLAMABAD:
اس عظیم الشان خبر کی خبر تو آپ کو لگ ہی چکی ہے کہ پچھلے دنوں مملکت ناپرسان کے صوبہ خیر پہ خیر میں تاریخ کی سب سے بڑی ''فوتیدگی'' ہوئی اور جہاں فوتیدگی ہوتی ہے وہاں ''جنازہ'' بھی اٹھتا ہے چنانچہ تاریخ کے سب سے عظیم الشان جنازے کا شرف بھی مملکت ناپرسان اور خاص طور پر صوبہ ''خیر پہ خیر'' کو حاصل ہو گیا ہے۔ جنازے کے ساتھ مختلف ''بینڈ'' بھی نغمہ سرا تھے اور اکیس اطراف سے اکتیس توپوں کی سلامی بھی ہو رہی تھی
جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
لیڈر کا یہ پیارا ہے اسے توپ سے کھینچو
لیکن یہ جنازہ ''جھینگر'' کا نہیں تھا صرف مونچھیں اس کی جھینگر جیسی تھیں، ورنہ نام اس کا ''منافقت'' تھا ''منافقت'' کو کون نہیں جانتا ایک زمانے سے سیاست کا دولہا راجہ تھا اور ریاست کا گھر جمائی تھا ویسے تو سارا زمانہ اس پر تھو تو کرتا تھا۔ لیکن خدا لگتی کہئے کیا آپ اس کے پرستار نہیں تھے لیکن من ہی من اس کی موت کی دعائیں بھی مانگتے تھے لیکن کسی میں جرأت نہیں تھی کہ اس کے آڑے آتا
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا
خدا تھے اتنے مگر کوئی آڑے آ نہ گیا
لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ دنیا بہادروں جی داروں اور جانثاروں سے خالی ہو گئی ہو، آخر کار صوبہ خیر پہ خیر کی جانباز حکومت نے سر سے کفن باندھ لیا اور بیج میدان منافقت کو للکار دیا...اور گویا موت ہی اسے کھینچ کر لے گئی کہ ایک ہی وار میں چاروں خانے چت ہو گیا... چنانچہ
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
اور یہ تو نہ مرد تھا نہ عورت نہ ہیوں میں تھا نہ شیؤں میں... اچانک اعلان ہو گیا کہ ''منافقت'' کا جنازہ نکال دیا گیا ہے اور اعلان بھی کسی ایسی ویسی جگہ سے نہیں بلکہ حکومت خیر پہ خیر کی طرف سے کیا گیا تھا، گویا متفقہ اور باوثوق جنازہ تھا ایک دنیا امڈ پڑی، کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ کبھی منافقت کا جنازہ بھی نکل سکتا ہے... لیکن آج... ؟ سچ کہا ہے کسی نے
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج تم کل ہماری باری ہے
اور آج اسی منافقت کا جنازہ بھی اسی راہ سے اسی انداز میں اسی قبرستان کی طرف نکل رہا تھا، رحمان بابا نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر کوئی ''زندہ'' کسی مردے کی قبر سے گزرے یا اس کا جنازہ گزرتا ہوا دیکھے تو اس سے بڑی نصیحت دنیا میں اور کوئی نہیں ہے یعنی جیسا کہ تم آج ہو ویسا ہی کل میں بھی تھا اور جیسا میں آج ہوں ویسا ہی تم بھی کل ہو جاؤ گے کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ برا انجام صرف دوسروں کے لیے ہوتا ہے،
کل اس کے قتل پہ میں چپ تھا میری باری اب آئی
میرے قتل پہ تم چپ ہو اگلی باری تیری ہے
چنانچہ ''کرپشن'' کا جو حشر نشر کل ہوا تھا منافقت کا بھی آج ہو گیا تھا، آگے جنازہ جا رہا تھا اور اس کے پیچھے خلقت کا ایک اژدہام تھا، بڑی نامناسب سی بات ہے کہ کسی کے جنازے پر کسی کو ہنسی آ جائے لیکن کیا کیا جا سکتا ہے نہ کسی آنے والے کو کوئی روک سکا ہے اور نہ ہی کسی جانے والے کو روکا جا سکے گا، یہی معاملہ ہنسی کا بھی ہے آگے آگے منافقت کا جنازہ جا رہا تھا جو صوبہ خیر پہ خیر کی حکومت نے نکال دیا تھا اور جس کا اعلان صوبہ خیر پہ خیر کے والی صاحب نے خود کیا تھا اور پیچھے ہماری ہنسی چھوٹ رہی تھی کھل کر ہنس تو سکتے نہیں تھے حالانکہ دل ہی دل میں سب کے لڈو پھوٹ رہے تھے چنانچہ ہم نے بھی منہ چادر کے اندر کر لیا اور ہنسی کو کھانسی کے پردے میں چھپا دیا، ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے کہ حکومت نے اتنی بڑی ''منافقت'' کا اتنا بڑا جنازہ نکال دیا اور یہ ہنس رہا ہے...
لیکن شکر ہے چاروں طرف جتنے بھی لوگ چل رہے تھے وہ اپنی اپنی چادروں تلے منہ چھپائے رونے کے پردے میں اپنی ہنسی چھپا رہے تھے، دراصل ہمیں ایک بہت ہی پرانا واقعہ یاد آ رہا تھا۔ ہمارے گاؤں کا ایک بڑا نوسر باز تھا۔ کاشت کاروں سے لے کر زمینداروں تک، خریداروں سے لے کردکانداروں تک، تاجروں سے لے کر فاجروں تک اور رہنماؤں سے لے کر رہزنوں تک اس کی نوسر بازیاں مشہور تھیں۔ ایک دن بازار میں ملا بات چل نکلی تو ہم نے پوچھا یار تم یہ کیسے کر لیتے ہو اس نے کہا فن ہے میرا... لیکن ہم نے اس سے کہا کہ اب تک تم صرف احمقوں کے ساتھ کرتے رہے ہو کسی دن کسی ماں کے لال سے پالا پڑے گا تو چھٹی کا دودھ یاد دلا دے گا۔
اس نے کہا ہے ٹھیک ہے چلو کسی کو شکار بناؤں، اس وقت ہم شہر میں چل رہے تھے سامنے گلی میں کچھ لوگ بیٹھے تھے جیسے کسی کا فاتحہ پڑھا جا رہا ہو اس نے فوراً گلی کے ایک دکاندار کو تاکا اور اس کے پاس جا کر سامنے پڑھے جانے والے فاتحہ کی تفصیل معلوم کی، دکاندار نے بتایا کہ مرنے والا ایک ترکھان تھا جو تانگے بنانے کا کام کرتا تھا اور اس کے بنائے ہوئے تانگے انتہائی مشہور تھے، فلاں جگہ اس کی دکان تھی اور فلاں فلاں ان کے بیٹوں کے نام ہیں، نوسر باز کے لیے اتنا ہی کافی تھا بولا آؤ میرے ساتھ، اس کے ساتھ چلتے ہوئے ہم فاتحہ خوانی کی محفل میں جا بیٹھے اس نے فاتحہ پڑھی اور پھر اچانک اٹھ کر مرحوم کے بیٹے سے لپٹ لیا اور بے تحاشا رونے لگا۔
مرحوم کے بیٹوں نے اس کے گرد جمع ہو کر ڈھارس بندھائی اور یہ اچانک میرا بھائی جان کہہ کر اس سے لپٹ پڑتا، کافی کوشش کے بعد اس کی ڈھارس بندھی، مرحوم کے بیٹے اس کے قریب بیٹھ گئے اور تعارف حاصل کرنے لگے اس نے اپنا صحیح نام و پتہ بتایا اور مرحوم کو اپنا باپ سمان چچا بتایا، تھوڑی دیر بعد وہ خاندان کے فرد جیسا ہو گیا تو اچانک ہمیں کہنی مارتے ہوئے بولا... خبردار جو ایسی بات منہ سے نکالی اور ہمارے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا... چپ چپ خبردار حالانکہ ہم نے کچھ بھی نہیں تھا لیکن وہ بدستور ہمیں ''چپ'' رہنے کی تلقین کرتا رہا، آخر مرحوم کے بیٹوں کے بے حد اصرار پر بولا... کوئی خاص بات نہیں وہ میرا چچا تھا دس بیس ہزار کی بات کیا ہے، ٹھیک ہے میں نے تانگہ بنانے کے لیے ''ساہی'' دی تھی لیکن چھوڑو دفع کرو... میں بھول چکا ہوں تم بھی بھول جاؤ۔
ظاہر ہے کہ بیٹے اپنے باپ کا قرضہ کیسے ادا نہ کرتے، یہ کہانی تو محض اس کی فن کاری کا ایک نمونہ تھا اصل کمال اس نے اپنے ''جنازے'' پر دکھایا تھا ہوا یوں کہ اس نے مردان میں کسی کو چونا لگایا تھا ان لوگوں نے تھانے میں رپٹ لکھائی اور مردان پولیس اس کے پتے پر پہنچی اور اتفاق سے اسی سے اس کا پتہ پوچھنے لگی، وہ سمجھ گیا فوراً اپنے اوپر سوگواری طاری کر کے بولا... وہ تو بے چارا مر گیا دیکھو وہ جنازہ اسی کا ہے، اتفاق سے اس وقت جنارہ جا رہا تھا میں بھی جنازے کے پیچھے جا رہا ہوں، اگر آپ آنا چاہیں تو...؟ بے چارے پولیس والے الٹے پاؤں چلے گئے، بھلا جنازے کو کیسے گرفتار کرتے... منافقت کے جنازے میں چلتے ہوئے نہ جانے کیوں ''حقیقہ'' ہمیں یاد آیا۔