معاشرتی بے چینی اور بد نظمی کیونکر…
ہمارے معاشرے میں اس وقت جو بے سکونی، بے چینی اور خوف و ہراس نظر آتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ ...
کسی بھی ملک میں بے چینی، بد نظمی اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اس ملک کی غیر مساوی تقسیم دولت سے ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک طویل عرصے سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہاہے۔ اس صورت حال نے نہ صرف یہ کہ معاشرے میں بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا ہے بلکہ مختلف جرائم کو پیشے کی شکل بھی دے دی ہے اور لا قانونیت کے مظاہرے اکثر نظر آتے ہیں۔ اس نے لوگوں کا سکون اور چین ختم کردیا ہے۔
ہمارے ملک میں اجرتوں اور اشیائے صرف کی قیمتوں کے درمیان تناسب بھی عدم توازن کا شکار ہے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جو کم سے کم ماہانہ تنخواہ مقرر ہے، وہ اشیا کی قیمتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگہ لوگوں کی مادی زندگی کی طرف اندھی دوڑ ہے۔ کم تنخواہ والا بھی فریج، ٹیلی ویژن اور موبائل فون کے بغیر زندگی گزارنے پر تیار نہیں اور جن کی تنخواہیں یا آمدنی معقول ہیں ان کی اکثریت بھی ایسی پر تعیش زندگی بسر کرنے کی عادی ہوچکی ہے کہ اپنی جائز آمدنی کے ساتھ ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کیے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ قناعت ختم ہوگئی ہے، اس امر نے معاشرے میں مختلف قسم کے جرائم اور بد نظمی کو جنم دیا ہے۔
ہمارے اکثر ٹی وی ڈرامے جس قسم کی طرز زندگی عالیشان مکانات اور رہن سہن دکھاتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں عام آدمی کو میسر نہیں ہیں۔ ان ڈراموں نے ہمارے نوجوانوں میں خصوصاً احساس محرومی کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے اور ان کی اکثریت شارٹ کٹ سے ایک رات میں امیر بننا چاہتی ہے اور اس کے حصول کے لیے انھوں نے جائز، ناجائز اور اچھائی اور برائی کی پہچان ہی ختم کر ڈالی۔ اگر ہمارے ٹی وی چینلز ایسے پروگرام پیش کریں جن سے لوگوں کی کردار سازی ہو ان میں صبر، استقامت، شکر، ایمانداری اور حب الوطنی کے اوصاف اور جذبات پیدا ہوں تو اس سے معاشرتی بے چینی اور بد نظمی میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے۔
ہمارے وطن عزیز میں اٹھنے والی شورشوں کی بنیاد گروہی اور علاقائی سیاست ہے جس نے ابھی تک اس ملک کے لوگوں کو ایک مضبوط پاکستانی قوم کی حیثیت سے ابھرنے کا موقع نہیں دیا، آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ سارے ملک کے نصاب تعلیم میں ایسے موضوعات اور علمی مباحث کو شامل کیا جائے جس سے پاکستانی طالب علموں میں حب الوطنی، ایثار اور پاکستانی قومیت کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ پیدا کیا جاسکے اور انھیں بلند کردار پاکستانی بنائے تاکہ جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوں تو جرائم اور ملک دشمن سرگرمیوں سے محفوظ رہیں۔
ہمارے لیے اس وقت یہ بات بڑی اہم ہے کہ ملک کے تمام علاقے ایک قومی نکتہ نظر سے ملک کی ترقی کے لیے کام کریں اور پاکستان کے عوام کو ایک مضبوط پاکستانی قوم بنائیں۔ گروہی اور علاقائی سیاست ہمارے مفاد میں نہیں ہے، اس سے صرف بیرونی سازشوں اور مداخلت کو تقویت ملتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بے چینی اور بد نظمی کی ایک بڑی وجہ یہاں میرٹ (Merit) کی ناقدری ہے۔ اوپر سے نیچے تک جب ملازمتوں اور مناصب پر بھرتیوں کی بنیاد تعلقات اور روابط پر ہوجائے تو ملک کے قابل اور اہل افراد زبردست مایوسی اور بے چینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف نا اہل اور غیر موزوں افراد کی مختلف مناصب پر تعیناتی نہ صرف معاشرے میں بد نظمی پیدا کرتی ہے بلکہ مجموعی طور پر ملکی ترقی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس ضمن میں ہمارے ارباب حل و عقد کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس وقت جو بے سکونی، بے چینی اور خوف و ہراس نظر آتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ غیر منطقی طور پر بہت زیادہ سیاست زدہ بنا دیا گیا ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ ہمیں اپنے ملک کی طرح سیاست زدہ نظر نہیں آتا۔ جب ہمارے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں تو عوام اپنے نمایندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کرکے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں اس کے بعد یہ منتخب نمایندوں کا کام ہوتا ہے کہ اسمبلی میں عوام کی نمایندگی کریں اور اپنے سیاسی اور ملکی مسائل کو اسمبلی میں زیر بحث لاکر انھیں حل کریں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندے اسمبلی میں موجود ہیں۔ اس کے بعد ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے سیاسی یا ملکی مسئلے پر سیاسی جماعتوں کا جلوس کی شکل میں سڑکوں پر آنا وہاں تقریریں کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔
سیاسی مسائل کا حل عوام کے پاس کب ہے؟ سڑکوں پر سیاسی جماعتوں کی آئے دن ریلیاں اور جلسے اور جلوسوں نے سارے معاشرے کو سیاست زدہ بنادیا ہے۔ ہڑتالوں کا اعلان کیا جاتا ہے، کاروبار بند رہنے سے ملک کی پیداوار رکتی ہے اور ملک کی مجموعی ترقی متاثر ہوتی ہے، اس طرح کے ماحول نے ایک غیر یقینی صورت حال کو جنم دیا ہے جس نے ہر شہری کو عدم تحفظ سے دو چار کیا ہے جب کہ دوسری طرف ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی کا عمل سست رہتا ہے، ارکان حزب اختلاف کی جانب سے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے مثبت تجاویز پیش کرنے کا سلسلہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
پانچ سال کی مدت میں ہماری اسمبلیوں کے اجلاس بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ بلکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں ایک عام شہری بھی ملکی سیاست پر بڑی بڑی باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ گھر ہو یا دفتر، تعلیمی ادارے ہوں یا کاروباری ادارے، بازار ہوں یا تفریح گاہ الغرض کہ ہر جگہ ملکی سیاست زیر بحث رہتی ہے جن لوگوں کو سیاست کا مفہوم تک نہیں معلوم ہو اپنا کام چھوڑ کر سیاسی مباحث میں الجھے نظر آتے ہیں، سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں جہاں جدید مواصلات کے ذرائع موجود ہیں۔
عملہ اکثر اپنا کام چھوڑ کر خبریں سننے لگتا ہے اور لمحہ بہ لمحہ ملکی حالات کی خبریں اپنے ان ساتھیوں کو بھی سناتا ہے جو کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح دفاتر کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، ملک کے معمولی واقعات کی تشہیر بھی کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ بیرون ملک مقیم ہمارے عزیزوں کے ہمارے پاس ٹیلی فون آنا شروع ہوجاتے ہیں کہ ''ہم نے ٹی وی پر فلاں خبر دیکھی ہے۔ آپ لوگ خیریت سے ہیں، کیا ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ'' اس طرح ملکی سیاست کا موضوع اب رات دن ہر گھر کا موضوع بن گیا ہے اس سے نہ صرف ملک کا ماحول خراب ہوا اور ہر شعبے میں ترقی کی رفتار متاثر ہوئی ہے بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
ہمارے ملک میں عوام بے چینی اور بے اطمینانی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شہریوں کو انصاف یا تو ملتا ہی نہیں ہے اور اگر ملتا بھی ہے تو وہ بروقت نہیں ملتا۔ اس میں اتنا عرصہ لگ جاتاہے کہ اکثر انصاف کا طالب شخص اس دنیا سے ہی گزر جاتا ہے۔ کوئی بھی ان نا انصافی یا جرم خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان پر متاثرین کی داد رسی اگر وقت پر ہو جائے تو شہریوں میں اضطراب اور بے چینی کی صورت بڑی حد تک ختم ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں تعلیم کے تناسب کی بہت زیادہ کمی نے بھی اس ملک کی صورت حال کو خراب کیا ہے۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جس کی بیشتر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جو گزر اوقات سے بھی نچلی سطح پر زندگی گزار رہی ہے اور تعلیم سے بھی بے بہرہ ہے۔ غریب اور ان پڑھ نوجوانوں کو غلط سمت یا برے کاموں کی طرف راغب کرنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں ہونے والے مختلف جرائم میں بیرونی سازشوں کا بڑا دخل ہے جن میں ہمارے ان غریب اور ان پڑھ نوجوانوں کو با آسانی آلہ کار بنالیا جاتاہے، ہمارے ملک میں خواتین کی آبادی تقریباً 51 فیصد بتائی جاتی ہے جب کہ ہمارے دیہاتوں میں لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح خواتین کی اکثریت جن کی گود میں بچہ پل کر جوان ہوتا ہے وہ بالکل ان پڑھ ہوتی ہیں اور اپنے بچوں کی صحیح سمت میں تربیت نہیں کر پاتیں۔
اگر انسان کی بنیادی اور ابتدائی تعلیم درست ہو تو وہ تمام نا مساعد حالات اور غربت میں بھی بھٹکتا نہیں ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے بھی پاکستانی معاشرے میں بے چینی اور بے یقینی کی کیفیات کو جنم دیا ہے۔ برطانیہ اور امریکا کے نشریاتی ادارے پاکستان کے لیے طویل دورانیے کے اردو پروگرام روزانہ نشر کرتے ہیں۔ اپنی ان نشریات کے ذریعے ذرائع ابلاغ اکثر و بیشتر ایسے پروگرام، تجزیے اور سنسنی خیز خبریں نشر کرتے رہتے ہیں جو ایک طرف پاکستانی عوام میں بے چینی، احساس کمتری اور احساس محرومی کو پیدا کرتے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی معاشرے کو تکثیریت کی طرف لے جاتے ہیں۔