اداروں پر بالادستی کی جنگ
جمہوریت میں یقینا اختیارات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ...
پاکستان میں سیاسی قیادت سمیت اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ حکمرانی میں حق اختیارات تو مانگتا ہے ، لیکن حق ذمے داری ادا کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ ایک عمومی رویہ حکمرانی میں یہ غالب ہوگیا ہے کہ کامیابیاں تو ہم سمیٹنا چاہتے ہیں ، لیکن ناکامی کو قبول نہیں کرتے۔ ناکامی پر دلیل دی جاتی ہے کہ اس میں قصور ہمارا کم اور سابقہ حکمرانوں کا زیادہ ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی لوگ حکمرانی کے نظام پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا جواب سابقہ حکمرانوں کو جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ تجزیہ درست ہو، مگر حکومت کو اسی بات کا تو مینڈیٹ ملتا ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں کی درستگی کے عمل کو آگے بڑھائیں،ان کو ووٹ بھی اسی بنیاد پر ملتے ہیں ۔عقلی دلیل یہ ہی ہے کہ اگر سابقہ حکومت بہتر ہوتی تو نئی حکومت کو مینڈیٹ ہی کیوں دیا جاتا ۔
جمہوریت میں یقینا اختیارات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ حق حکمرانی میں حکمرانوں کو ذمے داری بھی لینی پڑتی ہے ، کیونکہ اس کے بغیر نہ تو حکمرانی کا حق ادا ہوسکتا ہے اور نہ ہی جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہاں بدقسمتی سے ساری بحث اختیارات کے حصول تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔اس بحث میں وہ اختیارات بھی ہیں جو ان کے قانونی دائرہ کارمیں آتے ہیں ، وہ اختیارات بھی ہوتے ہیں جو ہم دیگر اداروں کے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا ایک عمومی مزاج رکھتے ہیں ۔جب سب اداروں کے درمیان اختیارات کے حصول کی جنگ چھڑ جائے اور فریقین ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوجائیں تو یہ عمل ٹکراؤ کا سبب پیدا کرتا ہے ۔
وزیر اعظم سے لے کر وزراء کی فوج در فوج اور وزرائے اعلی سمیت کوئی یہ ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں کہ جو غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں اس میں دیگر فریقین کے ساتھ وہ بھی برابر کے ذمے دار ہیں ۔ سیاسی قیادت سمیت سیاسی اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر بضد ہے کہ پس پردہ قوتیں جمہوری قوتوں کی حکمرانی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے ۔ ان کے بقول سیاسی اور قانونی ڈکشنری میں جن اداروں کو سیاسی اداروں یا حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے ، عملاً ایسا نہیں ہے۔
یہ تجزیہ ممکن ہے درست ہو ،لیکن اس بگاڑ کی وجہ میں خود ہمارا طرز عمل بھی تو شامل ہے جو عمومی طور پر '' نظریہ ضرورت'' کا اصول اپنے اوپر بھی لاگو کرکے ان قوتوں کو تقویت دیتے ہیں جو اداروں پر بالادستی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اختیارات کے ساتھ ساتھ جو '' ذمے داری کا عمل '' ہے اس پر ہماری سیاسی کمٹمنٹ کافی کمزور ہے ، یہ کمزوری کسی ایک ادارے نے نہیں بلکہ سب نے دکھائی ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ کیا ایسی وجوہات ہیں کہ جب ادارے کسی نہ کسی حوالے سے کسی بڑے مسئلہ کا شکار ہوجائیں تو دوسرے ادارے اس کی مدد کرنے یا اسے اپنی ذمے داری سمجھنے کی بجائے لاتعلق ہوکر کھیل تماشہ دیکھتے ہیں ۔یقینا اس طرز عمل کے پیچھے ان کی سیاسی سوچ اور مفادات زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔ ایسا کرتے وقت ہم قومی معاملات میں ایک ذمے دارانہ کردارسے بھی محروم نظر آتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں جو مسائل سرفہرست ہیں اس سے موجودہ بحران کو سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔فوجی قیادت کا خیال ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو سیاسی عمل میں مداخلت کے عمل سے بہت دور کرکے جمہوری عمل کو زیادہ تقویت دی ہے ۔ ایسی صورت میں فوج کی خواہش ہے کہ ان کے بارے میں جو تنقید ملک میں یا ملک سے باہر سے آئے تو اس کا جواب بھی سیاسی قیادت کو ایک بھرپور سیاسی کمٹمنٹ کے طور پر دینا چاہیے تاکہ فوج یا اس کے ادارے براہ راست اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب دینے سے گریز کریں۔
حالیہ بحران میں حامد میر پر قاتلانہ حملہ کی صورت میں جو ابتدائی تنقید کا عمل پاک فوج ، اس کی اہم ایجنسی آئی آیس آئی اور اس کے سربراہ پر سامنے آیا ، تو اس کا جواب حکومتی سطح پر وہ نہیں دیا گیا جو ان کا سیاسی و قانونی حق بنتا تھا ۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل بھارت کی فوجی قیادت نے پاکستان کی عسکری قیادت کو یہ باور کروایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی میں ایک بڑی خرابی پاکستان کی آئی ایس آئی کو ہے۔اس موقع پر پاکستان کی عسکری قیادت نے آئی ایس آئی کو تنہا چھوڑنے یا اپنا دامن بچانے کی بجائے جرات مندانہ موقف اختیار کیا ۔ ان کے بقول جوکچھ آئی ایس آئی کر رہی ہے اس میں میری مرضی شامل ہے اور میں ہی اس کا جواب دہ ہوں۔اب اگر آئی ایس آئی جو وزیر اعظم کے ماتحت ہے اس پر غلط یا درست الزامات سامنے آرہے ہیں تو اس پر وزیر اعظم کو خود آگے بڑھ کر ان تحفظات کا جواب دینا چاہیے تھا۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس بحران میں حکومتی ترجمانوں نے جو کمزوری کا پہلو دکھایا وہ ان پر تنقید کا دروازہ کھولتا ہے ۔حکومت کے بہت سے لوگ اب تسلیم کرتے ہیں کہ وزرات اطلاعات یا وزرات دفاع نے فوری طور پر اپنی ذمے داری ادا نہیں کی ، لیکن پھر اس پر ان کی کیا باز پرس کی گئی وہ بھی سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح پیمرا جو حکومتی ادارہ ہے اس نے بھی خاموشی اختیار کی اور آئی ایس آئی کی جانب سے درخواست ملنے کے بعد وزارت دفاع کو باامر مجبوری پیمرا کو ہدایت کرنی پڑی کہ وہ اس درخواست پر نوٹس لے۔اسی طرح حکومت اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں بھی فوج کے کچھ تحفظات ہیں۔
لیکن سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے باوجود حکومت فوج کو مکمل طور پر اعتماد میں لینے کے لیے تیار نہیں، یقینا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے ، لیکن اس فیصلہ کے حوالے سے جو بھی پیش رفت ہے یا جو تحفظات فوج میں ہیں ان کو دور کرنا بھی حکومتی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے ۔دراصل وزیر اعظم نواز شریف کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان کے ادارے پہلے ہی کمزور ہیں ۔ اداروں کی کمزوری حکومت کا اہم امتحان ہوتا ہے ۔ اول وہ جیسے بھی ادارے ہیں اس کے ساتھ کھڑے ہوکر قانون کی حکمرانی کا مقدمہ لڑتی ہے۔
دوئم حکومت خود ایسا تماشہ نہیں لگاتی کہ اس کا طرز عمل ملک کے اندر یا باہر اپنے ہی ماتحت اداروں پر تنقید کا دروازہ کھول دے۔وزیر اعظم جب قانون کی بالادستی اور اداروں کے استحکام کے دعوے دار ہیں اس میں ان کا سیاسی وزن اداروں کے ساتھ ہی وابستہ ہونا چاہیے۔ اگر اداروں میں مسائل ہیں تو اس کا علاج بھی خاموشی نہیں بلکہ ان کی اصلاح ہوتا ہے ۔اصلاح کا یہ عمل بتدریج ہوتا ہے اور اس پر بہت ساری سیاسی ہنگامہ آرائی پیدا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ سیاسی و دیگر اداروں میں مسائل کے خاتمہ میں اصل مسئلہ '' اعتماد سازی ''کا ہوتا ہے اور اس معاملہ پر حکومت سنگین مسائل سے دوچار ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی لوگ حکمرانی کے نظام پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا جواب سابقہ حکمرانوں کو جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ تجزیہ درست ہو، مگر حکومت کو اسی بات کا تو مینڈیٹ ملتا ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں کی درستگی کے عمل کو آگے بڑھائیں،ان کو ووٹ بھی اسی بنیاد پر ملتے ہیں ۔عقلی دلیل یہ ہی ہے کہ اگر سابقہ حکومت بہتر ہوتی تو نئی حکومت کو مینڈیٹ ہی کیوں دیا جاتا ۔
جمہوریت میں یقینا اختیارات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ حق حکمرانی میں حکمرانوں کو ذمے داری بھی لینی پڑتی ہے ، کیونکہ اس کے بغیر نہ تو حکمرانی کا حق ادا ہوسکتا ہے اور نہ ہی جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہاں بدقسمتی سے ساری بحث اختیارات کے حصول تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔اس بحث میں وہ اختیارات بھی ہیں جو ان کے قانونی دائرہ کارمیں آتے ہیں ، وہ اختیارات بھی ہوتے ہیں جو ہم دیگر اداروں کے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا ایک عمومی مزاج رکھتے ہیں ۔جب سب اداروں کے درمیان اختیارات کے حصول کی جنگ چھڑ جائے اور فریقین ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوجائیں تو یہ عمل ٹکراؤ کا سبب پیدا کرتا ہے ۔
وزیر اعظم سے لے کر وزراء کی فوج در فوج اور وزرائے اعلی سمیت کوئی یہ ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں کہ جو غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں اس میں دیگر فریقین کے ساتھ وہ بھی برابر کے ذمے دار ہیں ۔ سیاسی قیادت سمیت سیاسی اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ اس بات پر بضد ہے کہ پس پردہ قوتیں جمہوری قوتوں کی حکمرانی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے ۔ ان کے بقول سیاسی اور قانونی ڈکشنری میں جن اداروں کو سیاسی اداروں یا حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے ، عملاً ایسا نہیں ہے۔
یہ تجزیہ ممکن ہے درست ہو ،لیکن اس بگاڑ کی وجہ میں خود ہمارا طرز عمل بھی تو شامل ہے جو عمومی طور پر '' نظریہ ضرورت'' کا اصول اپنے اوپر بھی لاگو کرکے ان قوتوں کو تقویت دیتے ہیں جو اداروں پر بالادستی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اختیارات کے ساتھ ساتھ جو '' ذمے داری کا عمل '' ہے اس پر ہماری سیاسی کمٹمنٹ کافی کمزور ہے ، یہ کمزوری کسی ایک ادارے نے نہیں بلکہ سب نے دکھائی ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ کیا ایسی وجوہات ہیں کہ جب ادارے کسی نہ کسی حوالے سے کسی بڑے مسئلہ کا شکار ہوجائیں تو دوسرے ادارے اس کی مدد کرنے یا اسے اپنی ذمے داری سمجھنے کی بجائے لاتعلق ہوکر کھیل تماشہ دیکھتے ہیں ۔یقینا اس طرز عمل کے پیچھے ان کی سیاسی سوچ اور مفادات زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔ ایسا کرتے وقت ہم قومی معاملات میں ایک ذمے دارانہ کردارسے بھی محروم نظر آتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں جو مسائل سرفہرست ہیں اس سے موجودہ بحران کو سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے ۔فوجی قیادت کا خیال ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو سیاسی عمل میں مداخلت کے عمل سے بہت دور کرکے جمہوری عمل کو زیادہ تقویت دی ہے ۔ ایسی صورت میں فوج کی خواہش ہے کہ ان کے بارے میں جو تنقید ملک میں یا ملک سے باہر سے آئے تو اس کا جواب بھی سیاسی قیادت کو ایک بھرپور سیاسی کمٹمنٹ کے طور پر دینا چاہیے تاکہ فوج یا اس کے ادارے براہ راست اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب دینے سے گریز کریں۔
حالیہ بحران میں حامد میر پر قاتلانہ حملہ کی صورت میں جو ابتدائی تنقید کا عمل پاک فوج ، اس کی اہم ایجنسی آئی آیس آئی اور اس کے سربراہ پر سامنے آیا ، تو اس کا جواب حکومتی سطح پر وہ نہیں دیا گیا جو ان کا سیاسی و قانونی حق بنتا تھا ۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل بھارت کی فوجی قیادت نے پاکستان کی عسکری قیادت کو یہ باور کروایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی میں ایک بڑی خرابی پاکستان کی آئی ایس آئی کو ہے۔اس موقع پر پاکستان کی عسکری قیادت نے آئی ایس آئی کو تنہا چھوڑنے یا اپنا دامن بچانے کی بجائے جرات مندانہ موقف اختیار کیا ۔ ان کے بقول جوکچھ آئی ایس آئی کر رہی ہے اس میں میری مرضی شامل ہے اور میں ہی اس کا جواب دہ ہوں۔اب اگر آئی ایس آئی جو وزیر اعظم کے ماتحت ہے اس پر غلط یا درست الزامات سامنے آرہے ہیں تو اس پر وزیر اعظم کو خود آگے بڑھ کر ان تحفظات کا جواب دینا چاہیے تھا۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس بحران میں حکومتی ترجمانوں نے جو کمزوری کا پہلو دکھایا وہ ان پر تنقید کا دروازہ کھولتا ہے ۔حکومت کے بہت سے لوگ اب تسلیم کرتے ہیں کہ وزرات اطلاعات یا وزرات دفاع نے فوری طور پر اپنی ذمے داری ادا نہیں کی ، لیکن پھر اس پر ان کی کیا باز پرس کی گئی وہ بھی سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح پیمرا جو حکومتی ادارہ ہے اس نے بھی خاموشی اختیار کی اور آئی ایس آئی کی جانب سے درخواست ملنے کے بعد وزارت دفاع کو باامر مجبوری پیمرا کو ہدایت کرنی پڑی کہ وہ اس درخواست پر نوٹس لے۔اسی طرح حکومت اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں بھی فوج کے کچھ تحفظات ہیں۔
لیکن سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے باوجود حکومت فوج کو مکمل طور پر اعتماد میں لینے کے لیے تیار نہیں، یقینا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے ، لیکن اس فیصلہ کے حوالے سے جو بھی پیش رفت ہے یا جو تحفظات فوج میں ہیں ان کو دور کرنا بھی حکومتی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے ۔دراصل وزیر اعظم نواز شریف کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان کے ادارے پہلے ہی کمزور ہیں ۔ اداروں کی کمزوری حکومت کا اہم امتحان ہوتا ہے ۔ اول وہ جیسے بھی ادارے ہیں اس کے ساتھ کھڑے ہوکر قانون کی حکمرانی کا مقدمہ لڑتی ہے۔
دوئم حکومت خود ایسا تماشہ نہیں لگاتی کہ اس کا طرز عمل ملک کے اندر یا باہر اپنے ہی ماتحت اداروں پر تنقید کا دروازہ کھول دے۔وزیر اعظم جب قانون کی بالادستی اور اداروں کے استحکام کے دعوے دار ہیں اس میں ان کا سیاسی وزن اداروں کے ساتھ ہی وابستہ ہونا چاہیے۔ اگر اداروں میں مسائل ہیں تو اس کا علاج بھی خاموشی نہیں بلکہ ان کی اصلاح ہوتا ہے ۔اصلاح کا یہ عمل بتدریج ہوتا ہے اور اس پر بہت ساری سیاسی ہنگامہ آرائی پیدا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ سیاسی و دیگر اداروں میں مسائل کے خاتمہ میں اصل مسئلہ '' اعتماد سازی ''کا ہوتا ہے اور اس معاملہ پر حکومت سنگین مسائل سے دوچار ہے ۔