مضحکہ خیز گمان

گمان صرف برے نہیں ہوتے اس صورت میں بہت اچھے بن جاتے ہیں اگر اپنی ذات کی برتری کے احساس کی بنیاد پر قائم نہ کیے جائیں


Moosa Raza Afandi May 04, 2014
[email protected]

گمان ہر آدمی کو ہوتے ہیں۔ گمان اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی ہوتے ہیں۔ گمان خلوص نیت سے بھی ہوتے ہیں خوش فہمی سے بھی ہوتے ہیں اور حسد عداوت اور بدنیتی سے بھی ہوتے ہیں۔ جس جس جگہ اور مقام پر فرد کی ذات متعلق ہوتی ہے وہاں وہاں گمانوں کا جنم لینا لازمی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گمانوں کا ہونا کوئی غیرفطری بات نہیں ہے۔ گمان لوگوں کو ہی ہوتے ہیں جانوروں کو نہیں کیونکہ جانور اپنے آپ کو وہی سمجھتے ہیں جو وہ ہوتے ہیں۔ یہ طرّہ صرف انسان کو حاصل ہے کہ بعض اوقات ابلیس کا راستہ اختیار کرنے کے باوجود اپنے کو فرشتہ سمجھتا ہے۔

گمانوں کا ذکر قرآن پاک میں بھی لوگوں سے متعلق ہوا ہے خاص کر کفار کے گمانوں کے بارے میں ۔ کیا صرف افراد ہی انفرادی سطح پر گمانوں کی گرفت میں رہتے ہیں یا گروہ، معاشرے اور قومیں اور ملک بھی گمانوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ گمان صرف ایک انفرادی کیفیت نہیں ہے بلکہ یہ لاحقہ اجتماعی سطح پر بھی وہی نتائج پیدا کرتا ہے جو انفرادی سطح پر پیدا کرتا ہے ۔ کیا دوسری جنگ عظیم جرمنوں نے اپنی نسلی برتری کے گمان کی بنیاد پر نہیں لڑی۔ کیا ہندوستان اپنے گمانوں سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوجائے تو برصغیر پاک وہند اور سارک کے سارے ممالک امن اور معاشی ترقی کا گہوارہ بن جائیں۔

آئیے ان ساری باتوں کے بعد غور کریں کہ گمان آخر ہوتا کیا ہے۔ گمان صرف اور صرف اپنی ذات کے برتر اور ہر سطح اور ہر مقام پر صحیح ہونے کے احساس کا نام ہے، اسی کیفیت یا صورت حالات کو اگر معاشرے،قوموں یا ملکوں تک پھیلا کر دیکھا جائے توگمان اپنی اجتماعی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔ معاشرے کا ہر گروہ کسی گمان کا شکار رہ کر ہی اپنی علیحدہ شناخت کراتا رہتا ہے۔

گمان صرف برے نہیں ہوتے ۔ گمان اس صورت میں بہت اچھے بن جاتے ہیں اگر اپنی ذات کی برتری کے احساس کی بنیاد پر قائم نہ کیے جائیں حسن ظن ایک اچھے گمان کا دوسرا نام ہے۔ لوگوں کے بارے میں اِسی صورت میں اچھے گمان رکھے جا سکتے ہیں اگر دلوں کے اندر کینہ، میل، حسد اور دھوکہ بازی کے جراثیم مفقود ہوں۔ شریر آدمی ہمیشہ بد گمان ہی رہے گا۔

اس وقت ہم لوگ جس صورت حالات کا شکار ہیں وہ ہمارے گمانوں کی پیدا کردہ ہے۔ چاہے وہ انفرادی سطح پر ہوں ادارتی سطح پر یا قومی سطح پر۔ ہم اس وقت بحیثیت قوم ایک بظاہر نا ختم ہونے والے انتشار کا شکار ہیں۔ یہ صورت حال دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ آخر بنے گا کیا؟ کیا ہماری بدگمانیاں ختم ہوسکتی ہیں کیا انھیں کسی اور نے ختم کرنا ہے یا ہم نے خود ہی ختم کرنا ہے کیا ہم خود اس قابل ہیں کہ اپنی بد گمانیوں سے نجات حاصل کرلیں۔

اگر ہم اپنے حالات پر غور کریں تو ہمیں ہمارے چھوٹے چھوٹے گمانوں نے بڑے بڑے عذابوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایک تو اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ لیڈروں کی تعداد ہمیشہ پارٹی ورکروں سے زیادہ اپنی ہے ۔ جب ہمارا ہر سیاسی بندہ لیڈر ہوگا تو ورکر کون ہوگا۔ جو لوگ سیاست کے اندر باقاعدہ شامل نہیں ہیں وہ یہ جان کر حیرت زدہ ہوں گے کہ پارٹی ورکر جسے جیالا یا کوئی بھی نام دے دیا جائے اپنے محدود اور مقامی دائرے کے اندر لیڈر ہی ہوتا ہے جسے بڑے دائروں کے لیڈر حضرات دوربین لگا کر ورکر کا نام دیتے ہیں۔

یہی حال ہماری مذہبی جماعتوں کا ہے پہلے مذہبی فرقے ہوتے تھے اب جماعتی فرقے ہوگئے ہیں۔ پہلے ہر مسجد کا ایک امام ہوتا تھا جس کے پیچھے مسلمان چاہے وہ کوئی بھی ہو نماز پڑھتا تھا۔ مسجد کو خدا کا گھر کہا جاتا تھا۔ لیکن اب مسجد خدا کا گھر نہیں رہی اب مسجد ملا کا گھر بن گئی ہے۔ پہلے مسجد میں خدا اور رسول کے دین کا پرچار ہوتا تھا جس کے نیتجے میں بھائی چارہ اور اخوت کے جذبات پیدا ہوتے تھے اب مسجد کا لاوڈسپیکر ملا کے دین کا پرچار کرتا ہے جس کے باعث مسلمان مسلمان سے دور ہوگیا ہے۔

یہ ہمارا گمان ہی تو ہے جو ہمیں اپنے آپے سے باہر کر دیتا ہے جب ہم خود کو وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں جو ہم نہیں ہوتے تو پھر صرف اور صرف حالات کا جبر ہی ہمیں اپنی اوقات پہچاننے کے قابل بناتا ہے جس کے آگے ہم بے بس ہو جاتے ہیں، اپنے ہی دعوؤں اور بڑکوں کو پھینکی ہوئی تھوک چاٹنے کی طرح نگلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گاؤں کے سارے ماحول، حقائق، رسم ورواج اور روایات کے اٹل ہوتے ہوئے اگر گاؤں کا میراثی چوہدری کی بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیے مانگے گا تو اسے باقاعدہ طور پر باور کرا دیا جائے گاکہ وہ اگر زندہ رہنا چاہتا ہے تو اپنے گمانوں کو خیرباد کہہ دے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ اپنی اوقات سے جب کوئی بڑھ جاتا ہے تو مُنہ کے بل گرتا ہے۔ اپنی اوقات کو بھول جانا دوسرے کے دالان میں قدم رکھنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اپنے اندر سو سوراخ رکھ کر ایک سوراخ والے کو نصحیت کرنے سے پہلے اپنے سو سوراخ بند کرلینے کی صلاحیت پیدا کرلینی چاہیے وگرنہ جگہ جگہ رسوائی کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ ؎

جو آج اوج پے ہے تو تو بدگمان نہ ہو

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں