لمحہ گزر گیا تو سمجھیے صدی گئی

بیشک آسائش و آسودگی کی تمنا کس کو نہیں ہوتی


ندیم صدیقی July 16, 2023

وقت گزر جاتا ہے مگر اس کا تاثر ذہنوں پر کبھی کچھ دیر اور کبھی بہت دیر تک رہتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ کام کوئی بھی اور کسی بھی طرح کا ہو اس میں تاثرو تاثیر کا ہونا شرط ہے وہ مختصر ہو یا طویل اس کی اہمیت ثانوی ہوگی، دیکھا یہ جائے گا کہ اس نے ذہنوں پر کوئی اثر مرتب کیا، کوئی نقش چھوڑا بھی یا نہیں۔

ایک بزرگ نے کسی سے سوال کیا کہ '' میاں! دیہاتی اور شہری میں کیا فرق ہے؟'' جواب ملا '' دیہات میں رہنے والا 'دیہاتی' اور شہر میں رہنے والا '' شہری...! ''

بزرگ ہنس پڑے کہ '' میاں ! آپ شہر میں پیدا ہوئے، اسکول بھیجے گئے اور اب کچھ دنوں میں ڈگری یافتہ کہلائو گے مگر حقیقتاً آپ ابھی تک جیسے تھے ویسے ہی ہیں البتہ یہ ضرور ہوا کہ کل آپ کو بوتل میں دودھ پلایا جاتا تھا اب آپ اپنے ہاتھ سے اور اپنی پسند سے جتنا چا ہیں، کھاتے ہیں، لیکن قدرت نے آپ کو شکم کے ساتھ دماغ اور ذہن بھی دیا ہے لیکن آپ نے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا جائے توکیا غلط ہے کہ آپ کے والدین یا سرپرستوں نے بھی آپ کو اس (دماغ و ذہن) کی طرف متوجہ ہی نہیں کیا، اب جو کچھ پڑھ لکھ رہے ہیں، اس کے بارے میں یہی سوچ کار فرما ہے کہ کل ڈگری وِگری مل جائے گی تو کہیں کسی ایسی جگہ نوکری حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ ملے اور پھر نو کو ننانوے اور نناوے کی دائیں طرف صفر لگتا جائے کہ یہی حاصلِ زندگی ہوگا اور اسی حاصل حصول میں قدرت کی طرف سے ملنے والی انمول زندگی اپنے انجام کو پہنچ جائے گی اور پھر آپ ہی کی طرح کچھ اور بچے پیدا ہوچکے ہونگے اور ان کی عمر یا زندگی بھی اسی طرح تمام ہوتی رہے گی۔

میاں ! یہ سلسلہ نسلوں سے چلا آرہا ہے اور چلتا رہے گا مگر انھی میں کچھ ایسے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہونگے جو شکم کی آگ بجھانے سے زیادہ ذہن و دماغ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کے جتن کرتے ہیں اور وہی لوگ آدمی سے انسان بننے کی طرف سفر کرتے ہیں۔ بیشک اس میں سبھی کامیاب ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے مگر یہ بھی اہم بات ہے کہ لوگوں نے راستہ تو اختیار کیا۔''

بزرگ کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کسی نے اسرار منصوری کا یہ شعر بھی سنایا:

منزل ملے ملے نہ ملے اس کا غم نہیں

منزل کی جستجو میں مِرا کارواں تو ہے

بزرگ نے تبسم فرما کر داد دِی یا بیداد کی ! یہ پڑھنے والے سمجھتے رہیں۔ حضرت نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا '' صاحب زادے ! جس کو منزل ملی وہی کامیاب و کامران سمجھا جائے گا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ بیس لڑکے (ریس میں) دوڑ رہے ہیں اور بہت سے افراد ان کے اس عمل کے تماشائی ہیں۔

اس دوڑ میں جو اوّل دوم یا تیسرے نمبر پر آتا ہے اس کی طرف تو لوگ ستائش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حسبِ توفیق اکرام و انعام بھی دیا جاتا ہے مگر وہ جو سترہ (17) لڑکے اوّل، دوم یا تیسرے نمبر تک بھی نہیں پہنچے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی یہی ریس ( دوڑ) چل رہی ہے اور تب سے چل رہی ہے جب سے یہ دنیا قائم ہے۔

ہم سوچتے تھے کہ ہم نے دنیا کا سب سے اچھا اور بر حق دِین اختیار کیا، جو واقعی عبادت کے لائق ہے اور ہم عبادت پر مائل بھی ہیں مگر ترقی دوسرے کر رہے ہیں ٹوکا گیا '' میاں ! دنیا کی ترقی پر نہ جائو اصل ترقی تو عاقبت کی ترقی ہے۔'' اِدھر سے جواب میں کہا گیا کہ '' ہم سے تو کہا گیا ہے کہ دنیا کی یہ نعمتیں آپ ہی کے لیے ہیں سعی کیجیے اور ان سے لطف ا ٹھائیے، البتہ ان کے '' لطف '' ہی میں نہ کھو جائیے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ دنیا کے اس طرف کے لوگ کس کس طرح سے نعمتوں پر نعمتیں حاصل کر کے ایک دنیا پر راج کر رہے ہیں۔

بقول شخصے: بیشک دنیا کی بڑی بڑی ایجادیں وغیرہ آپ ہی کے اجداد نے کیں جن پر ہمیں ناز و افتخار ہے مگر کیا ایسا ممکن ہے کہ خزانے میں کچھ ڈالا ہی نہ جائے بس نکال نکال کر خرچ کرتے رہیں تو ایِک ایسا دن آہی جائے گا جب خزانہ خالی اور خزانے کے استعمال کرنے والے بے شمار پیدا ہو چکے ہوں گے۔ تب ہم کیا کریں گے؟

میاں خواہش پر دانش کو غالب رکھیے، مشرقی دنیا اور مغربی دنیا میں آج جو فرق ہے وہ اسی سبب ہے کہ ہم نے اپنی خواہشات کو پوری کرنے کے تو تمام جتن کیے مگر جسے دماغ یا ذہن کہتے ہیں، اس کی بھوک کی طرف دیکھنے یا سوچنا بھی گوارا نہیں کیا اور پھر دماغ کی بھوک کا احساس ہی جاتا رہا۔

اسی کیفیت کو شاعر نے '' احساسِ زیاں جاتا رہا '' کہا ہے۔

ہم امریکا جیسے ملک کی برائی کرتے تھکتے نہیں مگر موقع ملے تو چاہتے یہی ہیں کہ اللہ اگر توفیق دے تو اپنی اولادوں کو مکہ مکرمہ میں عمرہ اور زیارت ِمدینہ منورہ کرا کر سیدھے امریکا پہنچا دیں اور ہماری آیندہ نسلیں وہیں پیدا ہوں اور وہیں پروان چڑھیں۔

بیشک آسائش و آسودگی کی تمنا کس کو نہیں ہوتی مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ اسی آسائش اور آسودگی کے پس ِپشت کچھ ایسی مرحلے بھی ہیں جن میں ہم گم ہوسکتے ہیں؟ میلے کی بھیڑ میں بزرگ اپنے بچوں کی انگلی پکڑ کر چلتے ہیں کہ کہیں یہ گم نہ ہو جائیں، کیونکہ میلے میں بعض مقامات ایسے بھی آتے ہیں کہ بچہ تو بچہ بڑا بھی اس کی رعنائی میں کچھ ہی دیر کے لیے سہی، گم ہوجاتا ہے اور اس '' کچھ ہی دیر '' میں اس کا بچہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کی تلاش میں جو اذیت اور تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔

اس کا الفاظ میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔( ممبئی کا ) ایک سانحہ یاد کرتے ہیں کہ ذرا سی بے احتیاطی ہوئی اور چار سال کی بچی پڑوس میں قتل کر دی گئی، گھر والے اِدھر ادھر تلاش کرتے رہ گئے۔ لمحہ، لمحہ ہی ہوتا ہے جو اپنے اندر کیا لے کر آرہا ہے، کسی کو خبر نہیں۔ بقول تسنیم فاروقی۔

لمحے کے اختصار کو کچھ کم نہ جانیے

لمحہ گزر گیا تو سمجھیے صدی گئی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں