پاکستان کا عالمی سیاست میں کردار اور مستقبل
نریندر مودی کی حکومت میں جس طرح بھارت میں جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹا گیا یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
اس وقت عالمی سیاست کی بساط پر دلچسپ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کئی ممالک کی دشمنی، دوستی میں بدل رہی ہے اور بعض ممالک کے درمیان نئی دشمنی کی بنیادیں استوار ہو رہی ہیں۔
ماضی کے برعکس طاقت اور معیشت کی اس لڑائی کا میدانِ جنگ جنوبی ایشیا بننے جا رہا ہے جو پہلے ہی غربت اور افلاس کا شکار ہے۔ چین کی معاشی اور سیاسی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ایک تو طرف کثیر الملکی اتحاد تشکیل دیے جا رہے ہیں دوسری طرف چین کے سامنے بھارت کو ایک بڑی طاقت کے طور پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب نریندر مودی کو گجرات فسادات کی وجہ سے امریکی ویزہ دینے سے انکار کیا گیا تھا لیکن آج حالات بدل چکے ہیں۔ اب نہ صرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکا کا ریاستی دورہ کیا ہے بلکہ نریندر مودی امریکی کانگریس سے دو مرتبہ خطاب کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بن چکے ہیں۔
امریکا میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پذیرائی سے ایک طرف چین کو پیغام دیا گیا ہے، جب کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے دورہ چین میں امریکا نے غیر معمولی طور پر ون چائنا پالیسی کی حمایت کر کے بھارت کو بھی پیغام دیا ہے کہ اگر وہ امریکا کی امیدوں پر پورا نہ اترا تو ہمارے پاس چین سے تعلقات بہتر کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ اس دورے کو امریکا چین تعلقات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں امریکا کو ایک ہی حریف کا سامنا ہے اور وہ چین ہے۔
خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے امریکا کو مضبوط پارٹنر کی ضرورت ہے اور بھارت بظاہر لگ رہا ہے کہ اس پارٹنر شپ میں شامل ہونا چاہتا ہے کیونکہ اس سے بہت زیادہ اقتصادی فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران چین نے عالمی سیاست خصوصا مشرقی وسطیٰ میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس نے امریکی قیادت کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
عالمی سیاست میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور امریکا کے کم ہوتے کردار کو دیکھ کر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکا خطے میں چین کے مقابلے بھارت کو متبادل طاقت کے طور پر لانا چاہتا ہے۔ دوسری جانب بھارت بھی امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا خواہاں تو ہے لیکن بھارت کسی ایک اتحاد کا حصہ بن کر خود کو محدود نہیں کرنا چاہتا۔
چین کے ساتھ سرحدی تنازعات اور تنائو کے باوجود دونوں ممالک کی دوطرفہ تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر سے زائد ہوچکا ہے۔ مودی کے دورہ امریکا میں مسلح ڈرون بھارت کو فروخت کرنے، جنرل الیکٹرک کے انجن بھارت میں تیار کرنے، انٹیلیجنس شیئرنگ جیسے عسکری معاہدوں کے باوجود بھارت امریکا کی قیمت پر روس کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قربان کرنے پر تیار نہیں۔
روس اور یوکرین جنگ کے بعد بھی بھارت پر روس کی مذمت کرنے کے لیے امریکا اور مغربی اتحادیوں کا شدید دبائو تھا لیکن نہ صرف بھارت نے روس کی مذمت کرنے سے گریز کیا بلکہ پابندیوں کے باوجود روس سے سستا تیل خریدتا رہا۔
مودی کے دورہ امریکا میں سب سے دلچسپ نکتہ دورے کے بعد مشترکہ بیا ن میں چین یا روس کا واضح طور پر تذکرہ نہیں کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی کانگریس سے خطاب کے دوران چین کا ذکر نہیں کیا، لیکن امریکا اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے میں جن الفاظ میں پاکستان کا ذکر کیا گیا وہ نہ صرف پاکستان کے لیے قابل تشویش ہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا سب سے قریبی اتحادی رہا ہے اور اس جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اس کے باوجود صرف بھارت سے تعلقات کی قیمت پر دوطرفہ اعلامیے میں پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگانا اور بھارتی زبان بولنا بدقسمتی اور قابل افسوس ہے۔ ایک طرف امریکا خطے میں بھارت کو ٹیکنالوجی شیئرنگ اور دفاعی معاہدوں کی بدولت طاقت کا توازن بدلنے میں مصروف ہے دوسری طرف پاکستان سے ڈو مور کا تقاضہ؟
بھارت میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے خلاف ریاستی مظالم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت میں جس طرح بھارت میں جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹا گیا یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نریندر مودی کے دورہ امریکا سے پہلے امریکی کانگریس اور سینیٹ کے 57 ارکان نے بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال، اقلیتوں کے خلاف مظالم اور اظہار رائے پر پابندیوں کے خلاف اپنی حکومت کو خط لکھا۔
امریکی اراکین کانگریس اور سینیٹ کے خط میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بھارت سے متعلق 2022 کی کنٹری رپورٹ برائے انسانی حقوق کا ذکر بھی شامل کیا گیا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپئن کی طرف سے انسانی حقوق کی آڑ میں چین کے خلاف عالمی سطح پر منظم پروپیگنڈہ دوسری طرف بھارت میں اقلیتوں کے خلاف مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنے ہی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سینیٹرزکے خط کو نظر اندازکرنا امریکی حکومت کے دہرے معیار کو عیاں کرتا ہے۔
اگر امریکا نے خطے میں پاکستان کو نظر انداز کر کے اپنا وزن مکمل طور پر بھارت میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ فیصلہ امریکا کی خارجہ پالیسی کا بڑا بلنڈر ثابت ہوگا۔ پاکستان 25 کروڑ آبادی رکھنے والا ایک ایٹمی ملک ہے اور اگر امریکا نے خطے میں بھارت کو زبردستی مسلط کر کے پاکستان کے لیے سفارتی آپشنز محدود کرنے کی کوشش کی تو مجبورا پاکستان کو بھی اپنی سلامتی اور بقا کے لیے چین اور روس کے بلا ک کی طرف جانا پڑے گا۔
بجائے پاکستان کو مجبور کر کے خطے میں دوبارہ بلاکس کی سیاست شروع کرنے کے بہتر حل یہی ہے کہ امریکا پاکستان کو انگیج کرے۔ عالمی سیاست کے نتیجے میں پاکستان میں پیدا ہونے والی بے چینی اور ردعمل کی وجہ سے اگر پاکستان میں دوبارہ امریکا مخالف شدت پسندی کی لہر پیدا ہوتی ہے تو اس مرتبہ اس کو روکنا ناممکن ہوجائے گا۔