اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں

تمام پارٹیاں اور دھڑے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کہ اس ملک کا نوجوان اور خصوصا کراچی کا نوجوان کیوں مایوس ہے

'' یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ اس ملک میں ہمارے بچوں کا اب کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح اس ملک سے باہر بجھوا دیں۔''

یہ وہ باتیں ہیں جو پچھلے کئی برسوں سے میں بے شمار لوگوں کے منہ سے سن رہا ہوں، جو اس قوم کی موجودہ ذہنی حالت اور مایوسی کی نشاندہی کرتا ہے، لیکن یاد رہے کہ ا ن میں وہ مافیا شامل نہیں ہیں جنہوں نے ہر طرح کے ناجائز اور غیر قانونی کام کر کے جس میں سرکاری زمینوں اور بڑی بڑی سوسائٹیوں کی زمینوں پر قبضے، منشیات ( جس میں اب سب سے زیادہ منافع بخش کام گٹکا، ماوا کی خریدوفروخت بھی شامل ہے)،کھیپ کے ذریعے ناجائز اشیاء کی ترسیل، حوالہ ہنڈی کے کام، غرض کے ہر طرح کا غیر قانونی کام کر کے بے پناہ دولت اکٹھی کی اور جس کا حصہ بقدر جثہ تمام متعلقہ سرکاری محکموں کو بھی پہنچایا گیا جن میں پولیس، ریوینیو،کسٹمز، انکم ٹیکس وغیرہ سر فہرست ہیں،کیونکہ کرپشن کے ذریعے کمائی جانے والی کمائی آسان ہوتی ہے جس کے لیے ایک جرائم پیشہ شخص کو صرف اپنے ضمیر کو مارنا ہوتا ہے اور سرکاری اداروں کے افسران کے ضمیر کو خریدنا ہوتا ہے، جو اب سب سے آسان کام ہے۔

اس ملک کا وہ اکثریتی طبقہ جو اس '' بد بخت سسٹم '' سے تقریبا مایوس ہوچکا ہے ،ان کے پاس مایوسی کی ایک دو نہیں بے شمار وجوہات ہیں۔ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا کام عوام کو تحفظ، انصاف، روزگار، آزادی رائے کا اظہار اور ہر شخص کو خالصتا اس کی قابلیت کی بنیاد پر اس کا حق دینا ہے۔ ذرا ایمانداری سے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر گواہی دیں کہ کیا ان میں سے کسی ایک پر بھی اس ملک میں عمل کیا جا رہا ہے؟

آج تک کوئی بھی حکومت ایسی نہیں آئی جس نے اس ملک کو اسلامی ریاست کے اصولوں کے مطابق چلانے کی کوشش بھی کی ہو۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ مختلف ادوار میں اسلام کا نام استعمال کر کے عوام کو بے وقوف بنایا گیا ہے، اسلامی اقدارکی حفاظت کے جھوٹے دعوے کر کے عوام کے جذبات کو ابھارا گیا اور اس کی آڑ میں اپنے مفادات کی حفاظت کی گئی، لیکن کسی نے بھی چاہے وہ سیاستدان ہو، بیوروکریسی ہو یا اسٹیبلشمنٹ، اس ملک کو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلانے کے نعرے تو ضرور بلند کیے لیکن وہ اس اسلامی جمہوریہ کو ایک اسلامی ریاست کے قریب تر بھی نا لا سکے جس کی سب سے بڑی وجہ اس معاشرے کی نس نس میں بس جانے والی کرپشن ہے جس نے ہمیں من حیث القوم بے حس بنا دیا ہے۔

ہم اس ملک کو ایک اسلامی ریاست کیوں نہیں بنا سکتے، اس کی سب سے بڑی وجہ اس ملک کے سیاستدان، بیورو کریٹس اور طاقتور اشرافیہ کے دل میں پیدا ہونے والا خوف ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر وہ اپنی من مانیاں، زیادتیاں اور اقربا پروری نہیں کر پائیں گے کیونکہ ان کی اکثریت کرپشن کی دلدل میں گلے تک دھنس چکی ہے اور کرپشن بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ اس ملک میں صرف ایک طبقہ جسے عموما ہمارے دانشور اور صحافی حضرات 2 فیصد قرار دیتے ہیں ہر طرح کے مزے لوٹ رہا ہے اور جس کی اکثریت کے پاس ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے جمع کی جانے والی ''بلیک منی'' ہے۔

باقی کے اٹھانوے فیصد عوام جس کرب اور اذیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا اندازہ ان کرپٹ بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور مقتدر اداروں کوکیسے ہو سکتا ہے کہ جو اپنی طاقت اور اثرورسوخ کے بل پر اسی غریب ملک میں نوابوں والی زندگی گذار رہے ہیں اور جن کی تمام تر جستجو اپنے اس شاہانہ لائف اسٹائل کو بچانے میں ہی لگی رہتی ہے پھر اس کے لیے چاہے یہ ظلم کریں، زیادتی کریں، نا انصافی کریں ، اقربا پروری کریں، ان کی نظروں میں سب جائز ہے۔

اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کبھی بھی ووٹ کے ذریعے لائی جانی والی حکومت زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چل پائی اور جتنا چل پائی اس میں بھی '' اختیارات'' ان کے پاس نہیں تھے ۔ پاکستان میں کوئی بھی حکومت رہی یہاں سرکاری نوکریاں بیچی گئیں یا صرف بر سر اقتدار سیاستدانوں کے بچوں اور عزیز و اقارب میں تقسیم کی جاتی رہی ہیں۔ اس ملک میں قابلیت کا معیار صرف یہ ہے کہ کوئی کتنا پیسہ دے سکتا ہے یا کوئی کتنا با اثر اور طاقتور ہے۔

دوسری جانب خالصتا اپنی قابلیت کی بنیاد پر ڈگریاں حاصل کرنے والے نوجوان یا تو پتھارے لگانے پر مجبور ہیں یا پھر بائیکیا، کریم، اوبر اور فوڈ پانڈا میں رائیڈرکا کام کر کے اپنا گذر بسر کر رہے ہیں۔

میں چونکہ کراچی کا رہائشی ہوں اور میں نے بتیس سال اس شہر میں ایک اہم سرکاری محکمے میں رہ کر اس کرپٹ ''سسٹم'' کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے اس لیے اس شہر کے ٹھیکیداروں اور باسیوں کے متعلق زیادہ بہتر بات کر سکتا ہوں۔ کراچی میں گزشتہ چند سالوں سے بہت منظم طریقے سے کراچی کے ڈومیسائل کے حامل نوجوانوں پر سرکاری نوکریوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔


میں کسی سیاسی یا لسانی تنظیم کا سپورٹر نہیں ہوں لیکن میری اس بات کی تصدیق کے لیے پچھلے کئی سالوں کے دوران سندھ کے سرکاری محکموں میں ہونے والی بھرتیوں کی لسٹ اٹھا لیں، چاہے وہ براہ راست کی گئی ہوں یا سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تو میری بات کی سچائی یا جھوٹ کا خود اندازہ ہو جائے گا کہ اس میں کراچی کے ڈومیسائل کے حامل کتنے لوگوں کو سرکاری نوکریاں دی گئیں۔

سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی گئی بھرتیاں بھی اب مشکوک ہو چکی ہیں جس کی وجہ سب سے پہلے تو ایک سابقہ با اصول اور ایماندار ریٹائرڈ جسٹس کا کمیشن کے چیئرمین کے عہدے سے مستعفی ہونا کیونکہ انھوں نے سندھ حکومت کے من پسند افراد کو پاس کرنے سے انکار کر دیا تھا، اور بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی پٹیشن نمبر D-8033/2019 پر دیا جانے والا وہ حکم جس کے تحت CCE-2020 کے منعقد کیے گئے امتحان کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو ماہ کی مدت میں سندھ ہائی کورٹ کے آفیشل اسائنی اور ایڈیشنل رجسٹرار کی نگرانی میں دوبارہ منعقد کروانے کا حکم جاری کیا گیا۔

اس ملک کا المیہ یہی ہے کہ ہم نے کبھی بھی اکثریت کے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور اسے دھاندلی، جبر اور تشدد سے دبانے کی کوشش کی۔ پی ڈی ایم کو پی ٹی آئی کے ساتھ اور ایم کیو ایم (پاکستان) کو لندن کے ساتھ لڑا کر پیپلز پارٹی سندھ میں خاموشی سے اپنا ''کام '' جاری رکھے ہوئے ہے۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام پارٹیاں اور دھڑے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کہ اس ملک کا نوجوان اور خصوصا کراچی کا نوجوان کیوں مایوس ہے بلکہ ان کی خواہش صرف ایک ہی ہے کہ کسی طرح الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ جائے اور ایک بار پھر سے '' پروٹوکول '' اور '' جھنڈے والی گاڑیوں'' کے مزے لوٹیں۔

دراصل یہ سب ایک دوسرے کی کرپشن کے معاملات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات دیکھ کر میں خود بھی اس سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ خود میرے بچوں کا اس ملک میں کیا مستقبل ہوگا؟ اسی لیے دیگر لوگوں کی طرح میں بھی اسی تگ و دو میں ہوں کہ کسی طرح اپنے بچوں کو اس ملک سے باہر بھیج دوں۔

اے میرے ہم نشیں چل کہیں اور چل

اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں

بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم

اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
Load Next Story