تین ارب ڈالر کے قرضے کھا گئے

طاقتور حلقوں ٹیکسٹائلز مل کے مالکان اور دیگربینکوں سے ایک خاموش معاہدہ کرکے تین ارب ڈالر ہڑپ کرلیے اور ڈکاربھی نہ ماری

ہمارا ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے ایوب خان کے دور سے آج تک امریکا اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل میں ایسے پھنسے ہیں کہ ہماری جان ہی نہیں چھوٹتی، تو دوسری طرف آئی ایم ایف سے 9 ماہ کا معاہدہ کرنے کے لیے اور ایک ارب ڈالر قسط ادا کرنے کی خاطر کبھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی طرف سے امداد اور قرضے کی درخواستیں کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت بار بار موجودہ حکومت کے بارے میں کہتی رہی ہے کہ ملک دیوالیہ اور (ڈیفالٹ) ہو جائے گا۔ ہمارے حکمران کہتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف اپنی شرائط کے مطابق ہماری ناک رگڑوا رہا ہے مگر ہم اپنے دوست ممالک کی مدد سے اپنے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیں گے اور آخر کار دیوالیہ ہونے سے بچ گئے، مگر ہمارا سوال سابقہ حکومت سے اور اب موجودہ حکومت سے ہے کہ پچھلے سالوں میں جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی 2020 تا 2022 تک تو اسٹیٹ بینک سے مل مالکان، سرمایہ دار سمیت دیگر اداروں جن میں ہماری اشرافیہ بھی شامل ہے نے بینکوں سے تین ارب ڈالر کی رقم کیوں اور کیسے حاصل کی اور اب تک ان کے نام بھی نہیں بتائے جا رہے ہیں۔

کیا عجیب تماشا ہے وہ تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ نور عالم خان نے اسٹیٹ بینک سے پوچھا ہے کہ '' بتایا جائے تین ارب ڈالر کے قرضے کس نے لیے اور اب تک کیوں واپس نہیں کیے گئے ہیں آپ آ کر قوم کو جواب دیں؟ '' مگر طاقتور حلقوں ٹیکسٹائلز مل کے مالکان اور دیگر بینکوں سے ایک خاموش معاہدہ کر کے تین ارب ڈالر ہڑپ کر لیے اور ڈکار بھی نہ ماری اگر یہ تین ارب ڈالر واپس کردیتے تو شاید آئی ایم ایف کے پاس ایک ارب ڈالر کی رقم ہمیں شاید نہ لینی پڑتی، مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔

دوسری جانب حالیہ بجٹ میں ججز حضرات کے ساتھ ساتھ چیئرمین اور ڈپٹی سینیٹ کے علاوہ اپنے منسٹروں، وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج، صوبائی وزیر اعلیٰ کے علاوہ گورنر اور دیگر عملے اور ان پر اٹھنے والے روزانہ کے اخراجات غیر ملکی دوروں اور مفت حج کی سہولیات سمیت پرائیویٹ ہوائی جہاز میں سفرکرنا اور پھر فائیو اسٹار ہوٹلز میں رہائش کھانے پینے کے اخراجات بھی قومی خزانے سے حاصل کرنا جب کہ قومی خزانہ خالی ہے، ساتھ ساتھ گریڈ 17 تا 22 گریڈ کے افسران کی تنخواہوں سمیت تمام اسپیشل الاؤنسز کو ضم کر کے تنخواہوں میں تیس فیصد اضافہ کرنا اور ہر ادارے کے سربراہ کے لیے خصوصی الاؤنس اور ٹرانسپورٹ کی سپورٹ کرنا کہاں کی غربت؟ دوسری طرف اسکیل ایک تا 16 نمبر تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور پنشن اور بیوہ کی پنشن میں 17.5فیصد اضافہ ہی کافی ہے۔

یہ سوال بڑا اہم ہے کہ غریب آدمی کہاں جائے۔ عام ہوٹلز میں چائے کا ایک کپ 75 روپے میں روٹی نان اور 25 تا 30 روپے میں کھانے اور پانی کی بوتل تو شاید غریب آدمی خرچ بھی نہیں کرسکتا۔ یہ کیسا غریب ملک ہے کہ جس کے حکمران عیش کریں اور ہم سڑک اور ٹریفک سگنل پر کھڑے ہوئے بھکاریوں کو ہاتھ ہلا کر دور بھگا دیں، بڑا مشکل گزارا ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کچھ تو انصاف کریں۔

ہماری عدالتیں ہی کم ازکم شہید بھٹو کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل نمبر 3 تا 35 کو پڑھ کر جوکہ ترقی پسند دانشوروں اور سوشلسٹ خیالات رکھنے والے ہمارے پی پی پی کے سینئر رہنماؤں جن میں بابائے سوشل ازم شیخ محمد رشید احمد، جے اے رحیم، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج خالد، مختیار رانا سمیت وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مل کر ذوالفقار علی بھٹو کی ہدایت پر بنایا تھا جس کا پہلا نعرہ تھا روٹی کپڑا اور مکان۔ اسلامی سوشل ازم، اسلام ہمارا دین اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہوں گے۔ توکیا اس میں تھوڑی بہت تبدیلی آئی۔

لیبر پالیسی 1969 کے بعد اصلاحات کرکے نئی بنائی گئی۔ لیبر کورٹ اور عدالتیں بنائی گئیں۔ مرکز اور صوبوں میں لیبر کورٹ کے ساتھ ساتھ نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن کے علاوہ سوشل سیکیورٹی اسکیم اور جہاں گیارہ ملازمین کام کرتے تھے وہاں یونین سازی کا حق دیا۔

مزدوروں کو کارخانوں کے منافع میں حصہ دینا سمیت زرعی اصلاحات کا اعلان کیا گیا، مگر اس پر مکمل کام نہ ہو سکا اور پھر 1977 میں نو جماعتی اتحاد کے رہنماؤں سے الیکشن کے حوالے سے معاہدہ بھی ہو گیا مگر اگلے ہی دن یعنی 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر انصاف کا قتل کردیا گیا اور پھر 11 سال تک آئین معطل رہا۔

آج پھر نئی حکومت گیارہ اگست 2023 کو ختم ہو کر 60 دن یا 90 دن میں الیکشن کمیشن کے حوالے سے عبوری حکومت کے تحت نئے الیکشن کا اعلان کرے گی۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

اس موقع پر ہم تمام سیاسی جماعتوں خاص کر پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی، نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالمالک بلوچ سمیت تمام لیفٹ کی پارٹیوں سے مطالبہ یا اپیل کریںگے کہ وہ اپنے اپنے نئے منشور میں پاکستان کے محنت کشوں، کسان اور ہاری تنظیم کے رہنماؤں کے لیے سینیٹ سمیت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں کم از کم دس دس سیٹیں تو مخصوص کر دیں تاکہ اسمبلی میں محنت کشوں کی آواز تو اٹھ سکے، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن بھی سیاسی جماعتوں کو ہدایت جاری کرے، اس طرح کل آبادی کے نصف کم ازکم 12 کروڑ عوام کو بھی قانون اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے کا موقع مل سکے۔

اسی طرح جج صاحبان سے بھی اپیل ہے کہ وہ آئین کی شق نمبر 3 تا 35 پر کوئی حکم جاری کر کے ان کے حقوق کی ضمانت دے سکے۔ تمام ٹریڈ یونین اور طلبا تنظیموں پر پابندی ختم کرے۔ ملک سے جاگیرداری اور زمین کی حق ملکیت کی کوئی حد مقرر کرے۔


کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں اور سرکاری اداروں میں ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کیا جائے قومی اداروں کو غیر ملکی سرمایہ داری کے تحت نج کاری کے عمل کو روکا جائے، ریلوے، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل، واپڈا اور سوئی گیس تمام قومی اداروں کو بہتر بنایا جائے اور ان اداروں کے ملازمین کے حوالے کرکے ملک اور اداروں کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ہم بھی دیگر پڑوسی ملکوں کی طرح ترقی کی کچھ منزلیں طے کرسکیں۔

کاش! اس ملک میں الیکشن جلد ہو سکیں، تاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی ختم ہو سکے اور عوام اپنے منتخب شدہ ممبران کو اسمبلی میں بھیج سکیں۔

خالد علیگ کے شعر یاد آگئے:

محنت کشوں کے نام

تمہیں کیا خبر کہ میں کون ہوں

میرے قاتلوں ہی سے پوچھ لو

جنھیں حکم قتل ملا مگر

جنھیں اجر قتل ملا نہیں

میں صلیب وقت پہ کب سے ہوں

مجھے اب تو اس سے اتار دو

کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں، میرا فیصلہ بھی ہوا نہیں
Load Next Story