پب جی گیم اور گمراہی
پب جی گیم ایک ایسا کھیل ہے جس کے ذریعے بے شمار گھرانے برباد ہو چکے ہیں
پب جی گیم ایک ایسا کھیل ہے جس کے ذریعے بے شمار گھرانے برباد ہو چکے ہیں، علما کے نزدیک بھی پب جی گیم شرعاً ناجائز، اس وقت ہے جب کھیلنے والا ہندوؤں اور مشرکوں کی طرح ہاتھ باندھ کر بتوں کی پوجا کرے اور یہ اس کا گمان ہو کہ اسے ایسا کرنے سے طاقت حاصل ہوگی اور وہ اپنے حریف کو ہرا دے گا لیکن اگر ایسا نہیں کرتا تب وہ مسلمان تو رہتا ہے لیکن مخلوق خدا خصوصاً اپنے گھر والوں کو بربادی کے دہانے پر پہنچانے کا ذمے دار ہوتا ہے اور اس کی اپنی زندگی، تعلیم، مستقبل، ملازمت سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔
اس کھیل میں ایسا نشہ ہے کہ کھلاڑی کی فہم و فراست اور شعور پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ ان حالات میں کھیل اور جیت کے سوا اسے کچھ اور نہیں سوجھتا ہے، گویا یہ ایک عذاب ہے اور ان گھرانوں میں زیادہ نازل ہوتا ہے جو دین سے دور اور نماز، روزے، زکوٰۃ، خیرات سے ناواقف ہیں ایسے ماحول میں بچوں کے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کھیل کی ابتدا کے حوالے سے مختلف آراء ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پب جی ایک شوٹنگ گیم ہے جس میں کھلاڑیوں کا مقصد ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار کر آخری دم تک زندہ رہنا ہوتا ہے، اس کھیل کا دورانیہ تیس منٹ تک کا ہوتا ہے۔ اس کا بنانے والا پروفیشنل پروگرامر نہیں تھا بلکہ وہ فوٹوگرافی ویب ڈیزائننگ اور گرافک ڈیزائننگ سے منسلک تھا، اس کا نام برینڈن اور اس کی جائے پیدائش آئرلینڈ تھی، 2013 میں اسے گھریلو پریشانی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
برینڈن نے وقت پاس کرنے کے لیے بہت سے کھیل کھیلے آخرکار سخت محنت اور کمپنیوں کے تعاون سے وہ پب جی گیم بنانے میں کامیاب ہو گیا جسے پوری دنیا میں شہرت حاصل ہے، یہ بدنام زمانہ کھیل ہے جو صرف نوجوانوں کو ایسی دلدل میں دھکیلتا ہے جہاں سے واپسی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خونی کہانیوں کا تخلیق کار بن جاتا ہے لیکن یہ نکتہ قابل غور ہے برینڈن جوکہ نہایت غریب تھا آج وہ اس کھیل کی بدولت ارب پتی بن چکا ہے اور کئی لوگ اس کھیل کے ذریعے دولت حاصل کرچکے ہیں بس مسئلہ ہار جیت کا ہے۔
پاکستان میں پب جی کھیلنے والوں کی کمی نہیں،2022 کا واقعہ پب جی گیم کے حوالے سے سامنے آیا جب بارہویں جماعت کے ایک طالب علم علی زین جس کی عمر اٹھارہ سال اور میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک داخلہ لے چکا تھا، وہ نوجوان اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے رات کو اٹھا اپنے والد کا پستول نکالا، والدہ اور دو بہنوں کو قتل کردیا، بڑا بھائی فائر کی آواز سن کر اوپر آیا تو اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود سکون کے ساتھ نیچے والی منزل پر جا کر سوگیا۔
لاہور ہائیکورٹ میں درخواست گزار نے لکھا تھا کہ پاکستان میں اس کھیل کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔ پنجاب پولیس نے بھی اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے صوبائی و وفاقی حکومتوں سے درخواست کی تھی کہ اس کھیل کو قانونی طور پر کالعدم قرار دیا جائے۔ ہندوستان میں بھی ایک لڑکے نے اپنی ماں کو قتل کرکے لاش چھپا دی تھی یہ واقعہ پب جی کھیلتے ہوئے رونما ہوا، ہندوستان اس کھیل پر پابندی لگا چکا ہے۔
اس واقعے کو کئی سال گزر گئے، لیکن حالات جوں کے توں ہیں، حکومتوں کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس کی رو سے وہ چین کی زندگی بسر کرسکیں اور ان کی اولادوں کو تحفظ حاصل ہو۔اگر پب جی گیم پر پابندی لگ چکی ہوتی اور والدین اپنی ذمے داریوں پر توجہ دیتے تو آج سیما اور اقرا جیوانی اپنے ملک اور مذہب کی بدنامی کا باعث ہرگز نہ ہوتیں۔ اتفاق سے دونوں خواتین کا تعلق سندھ سے ہے۔
سیما حیدر خیرپورکی ہے۔ دونوں محبت کے جال میں ایسے پھنسیں کہ آزادی کی قیمت ادا کرنا مشکل ترین ثابت ہوا، اقرا جیوانی کے ساتھ اچھا زیادہ اور برا کم ہوا، ان کی کہانی نے اس وقت ایسا موڑ کاٹا کہ اقرا کو واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان بھیج دیا گیا اس طرح نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، اب وہ نہ جانے زندہ ہے یا سندھ کی روایت کے مطابق کاری کردیا گیا ہے لیکن اس طرح وہ ایک ہندو کے ساتھ زندگی گزارنے سے بچ گئیں۔
یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب مسلسل لڈو کھیلتے ہوئے اس بات کا احساس ہوا کہ محبت کا بیج پھوٹ چکا ہے اور ننھا پودا تناور درخت بننے جا رہا ہے، اقرا کا محبوب اتر پردیش کے شہر الٰہ آباد سے تعلق رکھتا تھا اس کا نام ملائم سنگھ یادیو تھا، محبت نے ایسا رنگ جمایا کہ سندھ کی بیٹی تن تنہا نیپال پہنچی، نیپال وہ جگہ ہے جہاں پاسپورٹ، ویزا اور دوسرے اہم کاغذات کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے اس مقام پر دونوں نے شادی کر لی، لیکن محبت کا انجام جدائی پر منتج ہوا۔
دعا زہرہ بھی پب جی کھیلتے ہوئے کسی ظالم کے ورغلانے میں آگئیں اور اب حالات کچھ بہتر ہیں، دعا کے والدین نے بھی بہت مشکلات اٹھائیں، عدالت اور کورٹ کے چکر دونوں کاٹتے رہے۔آج کل جو واقعہ سامنے آیا ہے وہ ہے سیما حیدر کا، عبرت ناک اور دردناک واقعہ ہے، مسلمان شاذ و نادر ہی دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں اور اگرکبھی ایسا سانحہ سننے میں آتا ہے تو جبر کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔
سیما مسلمان اور شادی شدہ ہیں، 4 بچوں کی ماں ہیں، نیپال کے راستے ہندوستان کے شہر دہلی جوکہ دارالحکومت بھی ہے وہاں پہنچیں، کرائے کا گھر لیا اور رہنے لگیں، اس سے قبل وہ ایک بار نیپال کے دار الحکومت کھٹمنڈو گئیں تاکہ معلومات حاصل کرسکیں یہ کووڈ19 کا زمانہ تھا جب چار بچوں کی ماں سیما کی محبت ایک ہندو لڑکے سچن کے ساتھ پروان چڑھ رہی تھی، یہ واقعہ بھی پب جی گیم کے مرہون منت ہے، وہیں سچن نے آ کر سیما سے شادی کرلی اور اب سیما اپنے ہندو بننے کا اعلان فخر کے ساتھ کر رہی ہیں ہندوانہ لباس، سنگھار، ماتھے پر بندیا سجائے، گلے میں منگل سوتر پہننے ہوا میں اڑ رہی ہیں اور پیار کی پینگیں بڑھا رہی ہیں افسوس صد افسوس نہ اس نے اپنے شوہر کا خیال کیا اور نہ چار بچوں کا، اس کا شوہر بے چارہ سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا ہے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے وطن سے دور ہے اور ان محترمہ نے یہ گل کھلائے اور اس کی محنت کا بنایا ہوا گھر بھی 8 لاکھ میں بیچ دیا۔ سیما اور سچن کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ حالات کیا رخ اختیار کرتے اور اصل معاملہ کیا ہے یہ وقت بتائے گا۔
حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ پب جی گیم پر پابندی لگائے اور قوانین بنائے اس معاملے میں سنجیدگی دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس کھیل میں ایسا نشہ ہے کہ کھلاڑی کی فہم و فراست اور شعور پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ ان حالات میں کھیل اور جیت کے سوا اسے کچھ اور نہیں سوجھتا ہے، گویا یہ ایک عذاب ہے اور ان گھرانوں میں زیادہ نازل ہوتا ہے جو دین سے دور اور نماز، روزے، زکوٰۃ، خیرات سے ناواقف ہیں ایسے ماحول میں بچوں کے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کھیل کی ابتدا کے حوالے سے مختلف آراء ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پب جی ایک شوٹنگ گیم ہے جس میں کھلاڑیوں کا مقصد ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار کر آخری دم تک زندہ رہنا ہوتا ہے، اس کھیل کا دورانیہ تیس منٹ تک کا ہوتا ہے۔ اس کا بنانے والا پروفیشنل پروگرامر نہیں تھا بلکہ وہ فوٹوگرافی ویب ڈیزائننگ اور گرافک ڈیزائننگ سے منسلک تھا، اس کا نام برینڈن اور اس کی جائے پیدائش آئرلینڈ تھی، 2013 میں اسے گھریلو پریشانی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
برینڈن نے وقت پاس کرنے کے لیے بہت سے کھیل کھیلے آخرکار سخت محنت اور کمپنیوں کے تعاون سے وہ پب جی گیم بنانے میں کامیاب ہو گیا جسے پوری دنیا میں شہرت حاصل ہے، یہ بدنام زمانہ کھیل ہے جو صرف نوجوانوں کو ایسی دلدل میں دھکیلتا ہے جہاں سے واپسی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خونی کہانیوں کا تخلیق کار بن جاتا ہے لیکن یہ نکتہ قابل غور ہے برینڈن جوکہ نہایت غریب تھا آج وہ اس کھیل کی بدولت ارب پتی بن چکا ہے اور کئی لوگ اس کھیل کے ذریعے دولت حاصل کرچکے ہیں بس مسئلہ ہار جیت کا ہے۔
پاکستان میں پب جی کھیلنے والوں کی کمی نہیں،2022 کا واقعہ پب جی گیم کے حوالے سے سامنے آیا جب بارہویں جماعت کے ایک طالب علم علی زین جس کی عمر اٹھارہ سال اور میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک داخلہ لے چکا تھا، وہ نوجوان اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے رات کو اٹھا اپنے والد کا پستول نکالا، والدہ اور دو بہنوں کو قتل کردیا، بڑا بھائی فائر کی آواز سن کر اوپر آیا تو اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود سکون کے ساتھ نیچے والی منزل پر جا کر سوگیا۔
لاہور ہائیکورٹ میں درخواست گزار نے لکھا تھا کہ پاکستان میں اس کھیل کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔ پنجاب پولیس نے بھی اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے صوبائی و وفاقی حکومتوں سے درخواست کی تھی کہ اس کھیل کو قانونی طور پر کالعدم قرار دیا جائے۔ ہندوستان میں بھی ایک لڑکے نے اپنی ماں کو قتل کرکے لاش چھپا دی تھی یہ واقعہ پب جی کھیلتے ہوئے رونما ہوا، ہندوستان اس کھیل پر پابندی لگا چکا ہے۔
اس واقعے کو کئی سال گزر گئے، لیکن حالات جوں کے توں ہیں، حکومتوں کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس کی رو سے وہ چین کی زندگی بسر کرسکیں اور ان کی اولادوں کو تحفظ حاصل ہو۔اگر پب جی گیم پر پابندی لگ چکی ہوتی اور والدین اپنی ذمے داریوں پر توجہ دیتے تو آج سیما اور اقرا جیوانی اپنے ملک اور مذہب کی بدنامی کا باعث ہرگز نہ ہوتیں۔ اتفاق سے دونوں خواتین کا تعلق سندھ سے ہے۔
سیما حیدر خیرپورکی ہے۔ دونوں محبت کے جال میں ایسے پھنسیں کہ آزادی کی قیمت ادا کرنا مشکل ترین ثابت ہوا، اقرا جیوانی کے ساتھ اچھا زیادہ اور برا کم ہوا، ان کی کہانی نے اس وقت ایسا موڑ کاٹا کہ اقرا کو واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان بھیج دیا گیا اس طرح نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، اب وہ نہ جانے زندہ ہے یا سندھ کی روایت کے مطابق کاری کردیا گیا ہے لیکن اس طرح وہ ایک ہندو کے ساتھ زندگی گزارنے سے بچ گئیں۔
یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب مسلسل لڈو کھیلتے ہوئے اس بات کا احساس ہوا کہ محبت کا بیج پھوٹ چکا ہے اور ننھا پودا تناور درخت بننے جا رہا ہے، اقرا کا محبوب اتر پردیش کے شہر الٰہ آباد سے تعلق رکھتا تھا اس کا نام ملائم سنگھ یادیو تھا، محبت نے ایسا رنگ جمایا کہ سندھ کی بیٹی تن تنہا نیپال پہنچی، نیپال وہ جگہ ہے جہاں پاسپورٹ، ویزا اور دوسرے اہم کاغذات کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے اس مقام پر دونوں نے شادی کر لی، لیکن محبت کا انجام جدائی پر منتج ہوا۔
دعا زہرہ بھی پب جی کھیلتے ہوئے کسی ظالم کے ورغلانے میں آگئیں اور اب حالات کچھ بہتر ہیں، دعا کے والدین نے بھی بہت مشکلات اٹھائیں، عدالت اور کورٹ کے چکر دونوں کاٹتے رہے۔آج کل جو واقعہ سامنے آیا ہے وہ ہے سیما حیدر کا، عبرت ناک اور دردناک واقعہ ہے، مسلمان شاذ و نادر ہی دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں اور اگرکبھی ایسا سانحہ سننے میں آتا ہے تو جبر کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔
سیما مسلمان اور شادی شدہ ہیں، 4 بچوں کی ماں ہیں، نیپال کے راستے ہندوستان کے شہر دہلی جوکہ دارالحکومت بھی ہے وہاں پہنچیں، کرائے کا گھر لیا اور رہنے لگیں، اس سے قبل وہ ایک بار نیپال کے دار الحکومت کھٹمنڈو گئیں تاکہ معلومات حاصل کرسکیں یہ کووڈ19 کا زمانہ تھا جب چار بچوں کی ماں سیما کی محبت ایک ہندو لڑکے سچن کے ساتھ پروان چڑھ رہی تھی، یہ واقعہ بھی پب جی گیم کے مرہون منت ہے، وہیں سچن نے آ کر سیما سے شادی کرلی اور اب سیما اپنے ہندو بننے کا اعلان فخر کے ساتھ کر رہی ہیں ہندوانہ لباس، سنگھار، ماتھے پر بندیا سجائے، گلے میں منگل سوتر پہننے ہوا میں اڑ رہی ہیں اور پیار کی پینگیں بڑھا رہی ہیں افسوس صد افسوس نہ اس نے اپنے شوہر کا خیال کیا اور نہ چار بچوں کا، اس کا شوہر بے چارہ سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا ہے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے وطن سے دور ہے اور ان محترمہ نے یہ گل کھلائے اور اس کی محنت کا بنایا ہوا گھر بھی 8 لاکھ میں بیچ دیا۔ سیما اور سچن کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ حالات کیا رخ اختیار کرتے اور اصل معاملہ کیا ہے یہ وقت بتائے گا۔
حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ پب جی گیم پر پابندی لگائے اور قوانین بنائے اس معاملے میں سنجیدگی دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔