آلودگی اور انسانی تعلقات

ہم بحیثیت مسلمان اپنے مالک پر یقین تو رکھتے ہیں لیکن یقین کامل کے معاملے میں لڑکھڑا سے جاتے ہیں

مئی اور جون کے شروع میں بڑھتی ہوئی گرمی کی شدت سے ہر شخص ہلکان نظرآیا، لوگ بارش کے انتظار میں تھے کہ کب مینہ برسے اور گرمی کا زور ٹوٹے۔

یہ آج کی کہانی نہیں ہے پچھلے کچھ برسوں میں گرمی نے جو جلوے دکھائے وہ ہم سب کو خوب یاد ہیں سب نے مل جل کر اس گرمی سے بچاؤ کے طریقے بھی اختیارکیے، سڑکوں پر پانی کی بوتلیں بانٹی گئی، ہیٹ ویوز سے بچنے کے طریقے بار بار فضاؤں میں گونجتے رہے، اسپتالوں میں رش بڑھ گئے اور گھروں میں، دفاتر اور دیگر مقامات پر اس گرمی کی بھینٹ بہت سے لوگ چڑھ گئے۔

یہ سب ایک دن میں اچانک نہیں ہوا کہ پرانی دیو مالائی کہانیوں کی طرح ایک جن آسمان پہ نمودار ہوا اور اس نے زمین پر آگ کا گولہ پھینک دیا جس نے ہماری ہری بھری کھیتیاں جلا ڈالیں، پانی خشک کر ڈالا اور چاروں جانب سے حدت برسنے لگی۔ اس قہر میں حضرت انسان پورے پورے شامل ہیں۔ ہم دنیا بھر کی کیا بات کریں اپنے ملک کا ہی نظر جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ ہم نے اپنے لیے یہ عذاب خود خریدا ہے۔

ہری بھری کھیتیاں اب سوسائٹیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں پہلے یہ مرض صرف کراچی میں ہی لاحق تھا، اب یہ پھیلتے پھیلتے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ کون کہتا ہے کہ نئی بستیاں نہ بساؤ یہ تو ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ کا فرمان تھا جنھوں نے انسان کو زندگی تہذیب سے گزارنے کا سلیقہ و شعور دیا کہ ایک بستی اچھی طرح سے بس جائے تو ایک کے اوپر ایک گھر بنانے کی بجائے نئے شہر آباد کیے جائیں۔

یہاں تک تو بات بالکل عقل و شعور تسلیم کرتی ہے اور نئے شہر ایسے ہی دنیا بھر میں آباد ہوتے ہیں، چین نے تو پورا شہر ہی بنا ڈالا لیکن ہائے رے جھمیلا زندگی کہ لوگ اس بھوت شہر میں اب بسنے کو تیار ہیں اور اب اسے بھوت شہر بھی کہنے لگے ہیں جو برسوں سے اپنے آباد کاروں کا منتظر ہے لیکن حکومت نے اپنا کام کر دکھایا۔

ہمارے یہاں کا نظام سب سے الگ سب سے جدا ہے یہاں شہر بسانے کے لیے ہری بھری کھیتیاں اور درخت کاٹے جا رہے ہیں اور جدید ناموں سے لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ آؤ یہاں بسو، جب کہ پہلے وہاں ہزاروں زندہ اجسام سانس لیتے تھے یہ درخت یہ کھیت بھی تو زندہ ہی کہلائے جاتے ہیں جو فضا میں کھل کر سانس لیتے ہیں تو کھل کر سبز ہو جاتے ہیں۔

انسانی توجہ سے کچھ اور نکھر جاتے ہیں یہ تو ہمارے دوست ہیں، ہمارے ساتھی، ہمارے اپنے، قدرت کا عظیم تحفہ لیکن یہ کیا ہم تو ان نعمتوں کی ناشکری پر بلڈوزر چلاتے جا رہے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیرکہ وہ زندہ لہلہاتے اجسام کی روح کس اذیت سے گزری ہوگی، وہ جو ہمیں غذا فراہم کرتی تھی، جو ہماری صحت کو برقرار رکھنے کے لیے قدرتی تحائف کو ہم تک پہنچانے کے پابند تھے اور ہم نے انھیں ان پابندیوں سے آزاد کردیا۔

سونا اگلتی زمین جیسے اشتہارات بچپن سے سنتے اور دیکھتے آئے تھے پر سمجھ نہ آتا تھا کہ زمین سے سونا کیسے اگ سکتا ہے، یہ تو اب پتا چلا کہ وہ سونا کس قدر اہم ہے جو زمین سے گندم کی سنہری بالیوں کی صورت ہوا میں لہلہاتے زمین اور انسان کی صحت مندی کا پیغام دیتا ہے۔ یہ سبزے، یہ کھیت، یہ کھلیان ہی تو ہیں جو فضا میں اڑتی، دوڑتی بھاگتی کثافتوں کو بھی اپنے دامن میں سمو لیتے ہیں۔


سبحان اللہ، کیا قدرت کی کاریگری ہے کبھی ہم نے اس جانب غور ہی نہ کیا۔ آج ہماری اس دھرتی کا درجہ حرارت بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یہ اپنی سرسبزی سے محروم چٹخ کر گرم ہوتی جا رہی ہے۔ 2011 سے 2020 کے درمیان اس کی گرمی کی حدت (درجہ حرارت) ریکارڈ تھا۔

کہا جا رہا ہے کہ صنعتوں کے انقلاب کے بعد یعنی اٹھارہویں صدی سے جب انسان نے نت نئی صنعتوں سے اپنے لیے قدرتی طریقوں کو چھوڑکر مشینی انداز اور مشینوں سے استفادہ کیا تب سے ہی یہ نعمتیں ہم سے روٹھ کر قدرت کے عذاب میں منتقل ہوتی گئیں اور آج یہ کلائمیٹ چینج کا شور مچا رہی ہیں۔

ہم نے پرانی فلموں میں گھوڑوں اور بیل گاڑیوں کا بڑا شور دیکھا تھا اور مذاق بھی خوب اڑایا تھا جب کہ آج ہماری جدید گاڑیوں اور دھواں چھوڑتی بسوں، ویگنوں اور رکشاؤں کا دھواں موسم کے اس تغیر میں پیش پیش فضائی آلودگی کے ساتھ ان قیمتی برف کے ذخائر کو تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے جو سفید برف کے خزانوں پر سیاہ دھبوں کی مانند جمے انھیں تیزی سے پگھلا رہا ہے۔ یہ سارے ہمارے اپنے اعمالوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کوئی دوسری تیسری مخلوق نہیں، ہم خود اپنے لیے عذاب جمع کرکے اپنے لیے مینار بنا چکے ہیں۔

بات صرف گرمی کی حدت، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت تک ہی محدود رہتی تو شاید اس قدر گمبھیر نہ ہوتی لیکن جناب! اس آلودگی کے جن نے تو اس بستی کو ہر طرح سے زک پہنچانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور اسے ٹھیکے دار بھی حضرت انسان نے بنایا ہے۔ ویسے تو زمین مافیا کے ٹھیکے دار ہمارے ملک میں بڑے عام ہیں جن کے پیچھے خاص ہیں لیکن یہ ٹھیکے دار ذرا مختلف نوعیت کے ہیں، یہ تو حضرت انسان کو اجتماعی طور پر مات دینے کے در پے ہیں۔

قحط سالی، خشک سالی، آگ، سیلاب، سطح سمندر کا بلند ہونا اور طوفان جیسے الارم بجتے رہیں گے۔ یہ کس قدر کی تشویش ناک صورت حال ہے جو ہم اپنے لیے پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ کسی ملک میں یہ حالت بہت بلند تو کہیں درمیانی درجے کی ہے۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ اس بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی تغیرات بھی موسمی تغیرات کی مانند تشویش ناک ہے ہمارے لیے ایک اور خطرے کا الارم کرپشن بھی اپنی حدوں کو چھو چکا ہے۔ اہل پاکستان اب کس کس سے بچیں؟

ہم بحیثیت مسلمان اپنے مالک پر یقین تو رکھتے ہیں لیکن یقین کامل کے معاملے میں لڑکھڑا سے جاتے ہیں، دراصل جب دل کے کسی کونے یا سارے کونے کسی اور رنگ سے رنگے ہوں تو یقین کامل جس کا تعلق انسان کا اپنے رب سے ون ٹو ون ہوتا ہے اس درجے پر کھڑا رہنے یا کھڑا ہونے کی سکت سے ہی گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

یہ درست ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی زمین کی گرین گیسز کی مانند ہیں لیکن کیا ہم اپنے قول و فعل پر کچھ نظر کرسکتے ہیں۔ انفرادی طور پر اپنے آپ کو درست کرنے اور آلودگی کے اس زہر سے نجات پانے کی کوئی تدبیر کرسکتے ہیں، یہ آلودگی سائنسی تحقیق کا ثمر نہیں بلکہ انسان کے اپنے باطن کی گندگی کا بھی ثبوت ہے۔ بہت کمانا، بہت زیادہ کمانا، ازحد کمانا اور اس کے چھتر تلے جو آئے اس چھیل دینے کا فارمولا ہمیشہ زیرو کی جانب سفر کرتا ہے۔
Load Next Story