ہم نظریاتی ریاست نہیں
ہم وہ قوم تھے جن کے پاس کانگریس کی طرح کوئی منظم اور مضبوط پارٹی بھی نہ تھی
ہمارا یہ ملک بھلے ہی زرعی طاقت بھی ہے، معدنیات سے مالا مال ہے، آبادی کے اعتبار سے بڑا ملک بھی ہے مگر جو خامیاں اورکمزوریاں ہم میں ہیں، ہم بہ حیثیت ایک جمہوری ملک اور وفاق، اپنے بیانیے میں، تاریخ کو مسخ کرنے میں، وسائل کی منصفانہ تقسیم میں، انصاف کی فراہمی میں بہت پیچھے ہیں۔ یہ جوآج ہماری تصویر بنی ہے وہ ایک رات کی کہانی تو نہیں، اس کے پیچھے تاریخی حقائق ہیں۔
وینزویلا بھی تیل میں خود کفیل بلکہ ایکسپورٹر تھا مگر آج وہ خانہ جنگی کا شکار ہے۔ پاکستان آج کل جن مسائل کا شکار ہے یہاں پر لوگ بسنے کی بجائے ہجرت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تو ان کے پاس کوئی وسائل نہ تھے، نہ ان کے پاس معدنیات کا ذخیرہ تھا اور نہ زرعی وسائل۔
سابقہ مشرقی پاکستان دھاگہ اور سوت بھی ہندوستان سے لیتا ہے، مگر آج ان کے پاس افرادی قوت ہے، ہنر مند لوگ ہیں، انسانی وسائل ہیں۔ انھوں نے اپنی تاریخ کو مسخ نہیں کیا، نہ اپنے اداروں کو تباہ کیا اور نہ ہی ان کے بارڈرز پر جنگ ہو رہی ہے جس طرح ہم افغانستان کے ساتھ تنازعوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے بھی شمال مغربی سرحد پر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی ۔ افغانستان کے ساتھ جنگیں اسی حکمت عملی کا حصہ تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ شمالی ہندوستان کا GHQ راولپنڈی میں بنایا گیا ، انگریز سے قبل راجہ رنجیت سنگھ حکومت نے بھی شمال مغرب میں جارحانہ حکمت عملی اختیار کررکھی تھی ۔ انگریز اگرکابل کو فتح کرلیتا تو اسے بھی متحدہ ہندوستان کا حصہ بنا دیتا۔ انگریزوں نے کشمیر کو بھی متنازعہ بنایا اور اس کو ادھورا ہی چھوڑ کر ہندوستان سے چلے گئے۔
افغانستان کے داخلی مسائل، ہماری ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے لگے، ایک نیا بیانیہ بننے لگا، اسی طرح سے کشمیرکے حالات بھی ہمارے اوپر اثرات رکھتے تھے اور پھر ہم تو مجاہدین بنانے کی فیکٹری بن گئے۔ ہم وہ قوم تھے جن کے پاس کانگریس کی طرح کوئی منظم اور مضبوط پارٹی بھی نہ تھی۔
قرارداد مقاصد کا پیش ہونا پہلا وار تھا، ہمارے فطری ارتقائی عمل پر۔ قرارداد مقاصدکا پیش کیا جانا دراصل اس ملک کو آئین نہ دینے کا بہانہ تھا اور اس سے ہم نے جان تب چھڑوائی جب پاکستان دو ٹکڑے ہوا، ایک بہت بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد۔ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور اس ملک کے ہر فیصلے پر امریکا کی اجارہ داری تھی، جنرل ایوب اس ملک پر مسلط کیے گئے امریکا کے آشیر واد سے، پھر جنرل یحییٰ کو لایا گیا، پھر بھٹو کو راستے سے ہٹایا گیا، ضیاء الحق کو امریکا کی ایما پر لایا گیا اور سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کے بعد بلآخر ان کو بھی روانہ کر دیا۔ ہاں، مگر اس جنگ سے پاکستان میں انتہاپسند طبقہ بہت مضبوط ہوگیا۔
اپنی تاریخ کو ہم نے مسخ کردیا جو اس سرزمین پر حملہ آور ہوا، اس کو ہمارا ہیرو بنایا گیا۔ یہ تمام چیزیں ایک منظم ایجنڈے کے تحت کی گئیں۔ آگے چل کر ہماری ہی مرتب کی ہوئی افغان پالیسی ہمارے اور امریکا کے تعلقات میں رکاوٹ بنی۔ ہمیں جو اثاثے اس جنگ میں مجاہدین کی شکل میں ملے، آگے جا کر وہ طالبان بنے، ان کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ برقرار رہے۔ ان کے کچھ دھڑوں سے ہندوستان نے اپنے روابط بڑھا لیے۔
اس طرح سے پھر کلاشنکوف، ہیروئن، چرس اور دیگر منشیات کی اسمگلنگ شروع ہوگئی۔ ایسے کاروبار خود اپنا ایک بیانیہ بناتے ہیں، سیاسی لوگوں کے گروپس بنائے جاتے ہیں، اب تو بہت سے کھلاڑی اس میدان میں آ چکے ہیں۔ اس میدان میں کل تک جو بائیس خاندان تھے، جن کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نیشنلائزیشن لے کر آئے تھے، آج وہ اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ اگر وہ متحد ہو کر حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں بلکہ اگر فوج کے خلاف بھی کھڑے ہوجائیں تو نو مئی جیسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔
یوں یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ بیانیہ ملک دوست نہیں تھا۔ ہماری تاریخ بھی اصل اور حقیقی تاریخ نہیں ہے۔ ہم نے اپنی عدالتوں کو بھی استعمال کیا، نظریہ ضرورت کے تحت اپنی عدالتوں سے اپنے مرضی کے فیصلے کرائے۔ ہمارے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار انصاف دینے کی بجائے ڈیم بنانے میں لگ گئے۔
ہم نے اس سیاست میں چوہدری پرویز الٰہی جیسے سیاستدانوں کو جنم دیا۔ پیدا تو ذوالفقار علی بھٹو بھی یہیں ہوئے تھے اور نواز شریف بھی جنھوں نے عوام میں جڑیں بنائیں، وہ ہمارے دشمن ٹھہرے۔ ہمیں اپنی عدالتوں میں ایسے ججز چاہیے تھے کہ اقامہ کا فیصلہ لکھ دیا جائے اور وہ اس کوکورٹ کا فیصلہ بنا کر صادرکریں۔
ہمارے پاس اس وقت بھی معدنیات تھیں۔ ہم اس وقت بھی زرعی طاقت تھے پھر ہم آگے کیوں نہ بڑھ سکے؟کیونکہ ہم آمروں کے زیر تسلط تھے۔ ایک آمر نے مذہب کا کھلا استعمال کیا اور دوسرے آمر نے امریکا کو ہوائی اڈے دیے۔ دراصل ہمیں ہی جنگوں کا کاروبار اچھا لگتا تھا۔ ہمارے ایک سابق جنرل نے ایک تھیوری دی تھی Strategic depth کے نام سے وہ اب بھی اس پر قائم ہیں۔ ایسی سوچ نے بھی ہماری معیشت کو تباہ کیا۔ اسرائیل کا آنا اچانک نہیں ہوا،اس کا تعارف جنرل مشرف کے دورمیں ہوچکا تھا۔
امریکا میں Neocon فلسفے کے حامی لوگ ہیں، جن کا تعلق زیادہ تر ریپبلیکن پارٹی سے ہے، یہاں پر جب بھی آمریت کا دور آیا، وہ امریکا میں ریپبلیکن پارٹی کے دور حکومت میں آیا۔ وہ امریکا میں ان سرمایہ داروں کے ترجمان ہیں، جو جنگی سامان بیچتے ہیں۔
امریکا کے سابق صدر ٹرمپ اور زلمے خلیل زاد بھی اسی لابی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے پاس یہ ایجنڈا ہے کہ کسی طرح پاکستان کی ایٹمی طاقت کو مفلوج کیا جا سکے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خان صاحب بھی اسی پراجیکٹ کا حصہ تھے لیکن ان کو پاکستان میں عوام نے متعارف نہیں کرایا تھا بلکہ ان کو لانچ کرنے والے تھے جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام ، جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ۔
وہ جاتے جاتے پاکستان کو ایک بہت بڑے بھنور میں پھنسا گئے۔ ففتھ جنریشن وارکے ذریعے پروپیگنڈا کی لامتناعی، فراڈیوں اور اینکروں کی ایک لمبی فہرست چھوڑ گئے۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ اس ملک میں حکمرانی لوگوں تک منتقل نہ ہو، تو پھر سوچیے کہ پاکستان جو ایٹمی طاقت بھی ہے، زرعی طاقت بھی ہے، معدنیات سے بھی مالامال ہے، اب کہاں پہنچا؟
آئین کی رو سے پاکستان ریپبلک ریاست یعنی ایک فلاحی ریاست ہے۔ ہم ایٹمی، زرعی یا معدنی طاقت ضرور ہوں مگر سسٹم میں بگاڑ ہمیں اندر سے کھو کھلا کردے گا۔
آؤکہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے
ورنہ یہ رات آج کے سنگین دورکی
ڈس لے گی جان و دل کوکچھ ایسے کہ جان و دل
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
(ساحر لدھیانوی)
وینزویلا بھی تیل میں خود کفیل بلکہ ایکسپورٹر تھا مگر آج وہ خانہ جنگی کا شکار ہے۔ پاکستان آج کل جن مسائل کا شکار ہے یہاں پر لوگ بسنے کی بجائے ہجرت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تو ان کے پاس کوئی وسائل نہ تھے، نہ ان کے پاس معدنیات کا ذخیرہ تھا اور نہ زرعی وسائل۔
سابقہ مشرقی پاکستان دھاگہ اور سوت بھی ہندوستان سے لیتا ہے، مگر آج ان کے پاس افرادی قوت ہے، ہنر مند لوگ ہیں، انسانی وسائل ہیں۔ انھوں نے اپنی تاریخ کو مسخ نہیں کیا، نہ اپنے اداروں کو تباہ کیا اور نہ ہی ان کے بارڈرز پر جنگ ہو رہی ہے جس طرح ہم افغانستان کے ساتھ تنازعوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں انگریز حکومت نے بھی شمال مغربی سرحد پر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی ۔ افغانستان کے ساتھ جنگیں اسی حکمت عملی کا حصہ تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ شمالی ہندوستان کا GHQ راولپنڈی میں بنایا گیا ، انگریز سے قبل راجہ رنجیت سنگھ حکومت نے بھی شمال مغرب میں جارحانہ حکمت عملی اختیار کررکھی تھی ۔ انگریز اگرکابل کو فتح کرلیتا تو اسے بھی متحدہ ہندوستان کا حصہ بنا دیتا۔ انگریزوں نے کشمیر کو بھی متنازعہ بنایا اور اس کو ادھورا ہی چھوڑ کر ہندوستان سے چلے گئے۔
افغانستان کے داخلی مسائل، ہماری ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے لگے، ایک نیا بیانیہ بننے لگا، اسی طرح سے کشمیرکے حالات بھی ہمارے اوپر اثرات رکھتے تھے اور پھر ہم تو مجاہدین بنانے کی فیکٹری بن گئے۔ ہم وہ قوم تھے جن کے پاس کانگریس کی طرح کوئی منظم اور مضبوط پارٹی بھی نہ تھی۔
قرارداد مقاصد کا پیش ہونا پہلا وار تھا، ہمارے فطری ارتقائی عمل پر۔ قرارداد مقاصدکا پیش کیا جانا دراصل اس ملک کو آئین نہ دینے کا بہانہ تھا اور اس سے ہم نے جان تب چھڑوائی جب پاکستان دو ٹکڑے ہوا، ایک بہت بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد۔ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور اس ملک کے ہر فیصلے پر امریکا کی اجارہ داری تھی، جنرل ایوب اس ملک پر مسلط کیے گئے امریکا کے آشیر واد سے، پھر جنرل یحییٰ کو لایا گیا، پھر بھٹو کو راستے سے ہٹایا گیا، ضیاء الحق کو امریکا کی ایما پر لایا گیا اور سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کے بعد بلآخر ان کو بھی روانہ کر دیا۔ ہاں، مگر اس جنگ سے پاکستان میں انتہاپسند طبقہ بہت مضبوط ہوگیا۔
اپنی تاریخ کو ہم نے مسخ کردیا جو اس سرزمین پر حملہ آور ہوا، اس کو ہمارا ہیرو بنایا گیا۔ یہ تمام چیزیں ایک منظم ایجنڈے کے تحت کی گئیں۔ آگے چل کر ہماری ہی مرتب کی ہوئی افغان پالیسی ہمارے اور امریکا کے تعلقات میں رکاوٹ بنی۔ ہمیں جو اثاثے اس جنگ میں مجاہدین کی شکل میں ملے، آگے جا کر وہ طالبان بنے، ان کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ برقرار رہے۔ ان کے کچھ دھڑوں سے ہندوستان نے اپنے روابط بڑھا لیے۔
اس طرح سے پھر کلاشنکوف، ہیروئن، چرس اور دیگر منشیات کی اسمگلنگ شروع ہوگئی۔ ایسے کاروبار خود اپنا ایک بیانیہ بناتے ہیں، سیاسی لوگوں کے گروپس بنائے جاتے ہیں، اب تو بہت سے کھلاڑی اس میدان میں آ چکے ہیں۔ اس میدان میں کل تک جو بائیس خاندان تھے، جن کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نیشنلائزیشن لے کر آئے تھے، آج وہ اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ اگر وہ متحد ہو کر حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں بلکہ اگر فوج کے خلاف بھی کھڑے ہوجائیں تو نو مئی جیسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔
یوں یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ بیانیہ ملک دوست نہیں تھا۔ ہماری تاریخ بھی اصل اور حقیقی تاریخ نہیں ہے۔ ہم نے اپنی عدالتوں کو بھی استعمال کیا، نظریہ ضرورت کے تحت اپنی عدالتوں سے اپنے مرضی کے فیصلے کرائے۔ ہمارے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار انصاف دینے کی بجائے ڈیم بنانے میں لگ گئے۔
ہم نے اس سیاست میں چوہدری پرویز الٰہی جیسے سیاستدانوں کو جنم دیا۔ پیدا تو ذوالفقار علی بھٹو بھی یہیں ہوئے تھے اور نواز شریف بھی جنھوں نے عوام میں جڑیں بنائیں، وہ ہمارے دشمن ٹھہرے۔ ہمیں اپنی عدالتوں میں ایسے ججز چاہیے تھے کہ اقامہ کا فیصلہ لکھ دیا جائے اور وہ اس کوکورٹ کا فیصلہ بنا کر صادرکریں۔
ہمارے پاس اس وقت بھی معدنیات تھیں۔ ہم اس وقت بھی زرعی طاقت تھے پھر ہم آگے کیوں نہ بڑھ سکے؟کیونکہ ہم آمروں کے زیر تسلط تھے۔ ایک آمر نے مذہب کا کھلا استعمال کیا اور دوسرے آمر نے امریکا کو ہوائی اڈے دیے۔ دراصل ہمیں ہی جنگوں کا کاروبار اچھا لگتا تھا۔ ہمارے ایک سابق جنرل نے ایک تھیوری دی تھی Strategic depth کے نام سے وہ اب بھی اس پر قائم ہیں۔ ایسی سوچ نے بھی ہماری معیشت کو تباہ کیا۔ اسرائیل کا آنا اچانک نہیں ہوا،اس کا تعارف جنرل مشرف کے دورمیں ہوچکا تھا۔
امریکا میں Neocon فلسفے کے حامی لوگ ہیں، جن کا تعلق زیادہ تر ریپبلیکن پارٹی سے ہے، یہاں پر جب بھی آمریت کا دور آیا، وہ امریکا میں ریپبلیکن پارٹی کے دور حکومت میں آیا۔ وہ امریکا میں ان سرمایہ داروں کے ترجمان ہیں، جو جنگی سامان بیچتے ہیں۔
امریکا کے سابق صدر ٹرمپ اور زلمے خلیل زاد بھی اسی لابی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے پاس یہ ایجنڈا ہے کہ کسی طرح پاکستان کی ایٹمی طاقت کو مفلوج کیا جا سکے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خان صاحب بھی اسی پراجیکٹ کا حصہ تھے لیکن ان کو پاکستان میں عوام نے متعارف نہیں کرایا تھا بلکہ ان کو لانچ کرنے والے تھے جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام ، جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ۔
وہ جاتے جاتے پاکستان کو ایک بہت بڑے بھنور میں پھنسا گئے۔ ففتھ جنریشن وارکے ذریعے پروپیگنڈا کی لامتناعی، فراڈیوں اور اینکروں کی ایک لمبی فہرست چھوڑ گئے۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ اس ملک میں حکمرانی لوگوں تک منتقل نہ ہو، تو پھر سوچیے کہ پاکستان جو ایٹمی طاقت بھی ہے، زرعی طاقت بھی ہے، معدنیات سے بھی مالامال ہے، اب کہاں پہنچا؟
آئین کی رو سے پاکستان ریپبلک ریاست یعنی ایک فلاحی ریاست ہے۔ ہم ایٹمی، زرعی یا معدنی طاقت ضرور ہوں مگر سسٹم میں بگاڑ ہمیں اندر سے کھو کھلا کردے گا۔
آؤکہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے
ورنہ یہ رات آج کے سنگین دورکی
ڈس لے گی جان و دل کوکچھ ایسے کہ جان و دل
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
(ساحر لدھیانوی)