گلوبل وارمنگ کے کرشمے

بڑھتا ہوا درجہ حرارت اپنے ساتھ ماحولیاتی آلودگی بھی لایا ہے جس نے پاکستانی شہریوں کی عمر میں کئی سال کی کمی کر دی ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

گلوبل وارمنگ نے زمین کے باسیوں پر تباہ کُن اثر ڈالا ہے۔ یہ ابھی گذشتہ سال کی بات ہی ہے کہ جب اس آفت نے پاکستان کے سوا تین کروڑ باشندوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا کہ اُن کے گھر بارشوں اور سیلاب نے اس طرح ملیامیٹ کیے کہ سر چھُپانے کے لیے سورج تلے انھیں دریائی بَندوں پر پناہ لینی پڑی ۔ مال مویشی ، فصلیں سب کچھ سیلاب بہا لے گیا۔

اس سے پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہوا۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وڈیروں اور جاگیرداروں نے اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے رہائشی اسکیمیں اور پکی رُکاوٹیں کھڑی کردیں ، اس طرح سارا کا سارا نقصان غریبوں کو پہنچا کر طاقتور لوگوں نے اپنی زمینوں اور املاک کو نقصان سے بچا لیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ گذشتہ سال کے سیلاب نے پاکستانی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی جس کے نقصان دہ اثرات سے نکلنے کے لیے ابھی کئی برس چاہئیں۔ فصلوںکی تباہی سے گندم، چاول ، دالوں ، گوشت اور دیگر کھانے کی اشیاء کی قیمتیں تین سے چار گنا تک بڑھ گئیں۔ ایک طرف معیشت تباہ و برباد ہوئی تو دوسری طرف مہنگائی نے غریبوں کی کمر توڑ دی۔ دوسری طرف مڈل کلاس والوں کا بھی روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو گیا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی معیشت کو اس تباہ کن سیلاب نے بیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچا دیا جب کہ کرونا پہلے ہی پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکا تھا۔ پاکستان جیسا غریب ملک اس پر دوہری آفات اور یوکرین جنگ نے گذشتہ دہائیوں کی ترقی پر پانی پھیر دیا اور ان پر لگا سرمایہ ، محنت اور وقت سب ضایع ہو گیا۔

آنے والا وقت پاکستانی عوام کے لیے کسی طرح کی آسانی نہیں لارہا ۔ گیس ، پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں ابھی مزید اضافہ ہو گا ، سوچ کر ہی ذہن پریشان ہو جاتا ہے ۔ ان حالات نے پاکستانیوں کی اکثریت کو نفسیاتی ، اعصابی اور ذہنی امراض کا شکار کر دیا ہے ۔

بہر حال بات گلوبل وارمنگ کی ہو رہی تھی جس نے انسانوں کی بقاء کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ نہ صرف انسانی حیات بلکہ کرۂ ارض پر پائی جانے والی ہر طرح کی حیات کے نیست و نابود ہونے کا یقینی خطرہ نظر آرہا ہے ۔ گلوبل وارمنگ کے کرشمے دیکھیں ، مئی جون میں ژالہ باری اور جولائی میں پہاڑوں پر برف باری ہوئی ہے ۔


صحرائے عرب میں برف باری ہوئی جہاں بارش نہیں ہوتی تھی۔ حال ہی میں لاہور میں 8گھنٹوں میں 292 ملی میٹر بارش ہوئی لگتا تھا کہ بارش رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ بے موسمی بارشیں پچھلے کئی برسوں سے عام ہو گئی ہیں ۔ جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہو تو بارش ناپید لیکن جب فصلیں پک جاتی ہیں تو بے تحاشہ مسلسل بارشیں ان کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں ۔ نتیجہ خوراک کی قلت ، نایابی اور مہنگائی کی شکل میں نکلتا ہے جس کے تلخ تجربے سے گذشتہ مہینوں میں پاکستانی عوام گزر چکے ہیں۔

زمینی درجہ حرارت بڑھنے کا آغاز 1760 میں یورپ کے صنعتی انقلاب سے شروع ہوتا ہے ۔ سیکڑوں کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے نہ صرف زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کیا بلکہ زمین کے گرد حفاظتی حصار کو بھی کمزور کرنا شروع کر دیا لیکن زمینی درجہ حرارت میں واضح اضافہ 1975 سے شروع ہوا لیکن اس شرح میں اب جا کر دوگنا اضافہ ہو گیا ہے ۔

گذشتہ سال یعنی 2022 کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ کا گرم ترین سال تھا جس کے سنگین ترین نتائج کرۂ ارض پر آباد انسانوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں ۔ زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ماحولیاتی آلودگی کا بھی باعث بن رہا ہے اس حوالے سے لاہور اور کراچی دنیا کے بدترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں ۔

ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال دنیا میں ستر لاکھ افراد مر جاتے ہیں جب کہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ننانوے فیصد لوگ ایسی فضا ء میں سانس لیتے ہیں جو عالمی معیار سے کم تر ہوتی ہے ۔حال ہی میں برطانیہ کی 140سال کی تاریخ میں گذشتہ ماہ جون گرم ترین مہینہ تھا ۔

یورپ خاص طور پر لندن میں گرمی کے نتیجے میں پہلی مرتبہ وسیع پیمانے پر پنکھوں کی خریداری عمل میں آئی اس سے مجھے ماضی کی وہ بات یاد آتی ہے کہ آج سے چالیس برس پیشتر جب میرا یورپ میں بسلسلہ تعلیم طویل عرصے کے لیے قیام تھا گورے ہم پر طنز کرتے تھے کہ ان ایشین کی وجہ سے یورپ بھی گرم ہو گیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یورپ سمیت تمام بڑے ملکوں کی صنعتی ترقی نے ہمارے کرۂ ارض کو زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار کر دیا ہے ۔

اس آلودگی میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے اور اس سے ہونے والی ہولناک تباہی میں پاکستان ابتدائی ملکوں میں شامل ہے۔ یعنی کرے کوئی بھرے کوئی ۔

بڑھتا ہوا درجہ حرارت اپنے ساتھ ماحولیاتی آلودگی بھی لایا ہے جس نے پاکستانی شہریوں کی عمر میں کئی سال کی کمی کر دی ہے۔ ایک شہری کے پھیپھڑوں پر سموگ کا دھواں اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا روزانہ بیس سگریٹ پینے والا۔ ماضی میں کرونا سے متاثرہ افراد کے لیے سموگ جان لیوا ہو سکتی ہے ۔
Load Next Story