شاہی حکمرانوں اور امیروں کا غریب ملک
وزیراعظم شہباز شریف نے تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض مٹھائی نہیں ہے
آئی ایم ایف سے بڑی مشکل سے قرض ملنے کے بعد مقروض ملک کے شاہی حکمرانوں کی خوشی ابھی جاری ہی تھی کہ کچھ کم ہونے والا ڈالر پھر اڑان پر آگیا جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف معاہدے کے اثرات ضایع ہونے سے ڈالر اور سونا پھر مہنگا ہوگیا اور اسٹاک مارکیٹ کی مندی برقرار رہی اور مہنگائی میں کمی آنے کے حکومت اور عوام کے خوابوں کو تعبیر نہ مل سکی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض مٹھائی نہیں ہے جس سے ہم نے اپنی حکومت میں جان چھڑا لی تھی، جس کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دور میں جتنا قرض لیا وہ ستر برسوں میں نہیں لیاگیا۔
ہماری حکومت نے عالمی قرضوں سے ملک میں موٹرویز، میٹروز اور شاہراہیں بنائی تھیں اور پھر اقتدار میں آکر پاکستان کو اس قابل بنادیں گے کہ پاکستان قرضے لینے کی بجائے دوسروں کو قرضے دینے کے قابل ہوجائے گا۔
وزیراعظم کا یہ بیان پی ٹی آئی کے سابق وزیراعظم کے دعوؤں جیسا ہی ہے جس میں کہاگیا تھا کہ وہ عوام کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بناکردیں گے اور ان کے دور میں بیرونی دنیا سے لوگ ملازمتوں کے لیے پاکستان آیا کریں گے۔
سابق حکومت میں ملک کے نوجوانوں کو تو ملازمتیں نہیں ملی تھیں مگر سابق وزیراعظم نے باہر سے اپنے دوستوں کو اعلیٰ ملازمتیں اور اہم عہدے ضرور دیے تھے اور پاکستان میں ہر حکمران نے اپنے دوستوں ، عزیزوں اور وفاداروں کو اہم عہدوں سے نوازا، کیونکہ ہر حکومت اپنوں کو نوازنے میں مشہور رہی ہے کیونکہ ہر حکمران اپنے اختیارات کا شاہانہ طور پر استعمال کرنے میں بااختیار رہا ہے اور اس پر سابق ہونے کے بعد اختیارات کے غلط استعمال پر مقدمات بھی بنائے جاتے رہے جن کو ہر سابق حکمران نے سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیا حالانکہ وہ سب انتقامی نہیں تھے ان میں حقیقت بھی تھی۔
پاکستان میں وزرائے اعظم ہی نہیں ہر ادارے کے سربراہوں نے بھی اپنے سرکاری اختیارات کا بے دریغ شاہانہ طور پر استعمال کیا۔ سرکاری خزانہ لٹایا ، نااہلوں کو عہدے اور قابلیت نہ رکھنے والوں کو ملازمتیں دیں، غیر ملکی دورے کرائے اپنے خاندان، عزیزوں اور دوستوں کو نواز۔ بڑے شہروں میں بڑے بڑے بنگلے مہنگے اور پوش علاقوں میں ان ہی ریٹائرڈ افسران، سیاستدانوں اور امراء کے ہیں اور ملک کے غریبوں کی اکثریت معمولی گھروں سے محروم یا کرائے کے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رہ رہی ہے اور ہزاروں افراد فٹ پاتھوں، پارکوں یا میدانوں میں کھلے آسمان تلے وقت گزار رہے ہیں۔
حکمران، سیاستدان اور بڑے لوگ جہازوں سے سفر کرنے کے عادی ہیں اور بہت سوں کے اپنے جہاز بھی ہیں انھوں نے کبھی ٹرینوں اور بذریعہ سڑک طویل سفر نہیں کیے۔ یہ نامور لوگ اگر ریلوں اور بسوں میں سفر کریں تو شاید انھیں ریلوے پٹڑیوں اور سڑکوں کے اطراف بنے کچے گھر اور پھٹی پرانی بوسیدہ جھونپڑیاں نظر آجائیں جہاں لاکھوں بے گھر افراد اپنے شب و روز گرمی سردی، بارشیں اور تیز دھوپ تلے گزارتے ہیں۔
جنھیں بجلی تو دور کی بات پینے کا پانی بھی میسر نہیں ۔ ان غریبوں کے نہ ووٹ ہیں، نہ کسی کو ان کے ووٹوں کی ضرورت کیونکہ ووٹ رکھنے والوں کو ہی بنیادی سہولیات کے حصول کا حصہ ہے باقی کیڑے مکوڑوں کا اس ملک پر کوئی حق نہیں اس کے حکمران شاہانہ زندگی گزارتے اور سرکاری خزانے سے وہ ہر قسم کی سہولیات حاصل کیے ہوئے ہیں۔
حکمرانوں کے بعد یہ ملک ریٹائرڈ افسران، رشوت خور، سرکاری ملازمین، عوام کو لوٹنے والے امیروں اور مختلف مافیاز سے تعلق رکھنے والوں کا ہے جن کے دم سے بڑے بڑے ریسٹورنٹس آباد ہیں یا جو روزانہ کھانے کے ہوٹلوں میں کرسیاں خالی ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔
آؤٹنگ کے لیے تفریحی مقامات یا شہر سے باہر پرسکون مقامات پر کھانے پینے جاتے ہیں جب کہ غریبوں کو فلاحی اداروں یا مزاروں سے مفت کا کھانا مل جاتا ہے اور وہ بھوکا نہیں سوتے بلکہ اصل مسئلہ ان سفید پوشوں کو درپیش ہیں جنھیں مہنگائی اور بجلی و گیس کے بھاری بھاری بلوں نے عاجز کر رکھا ہے۔
بڑے ہوٹلوں میں رش دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ان کا ملک غریب ہے اور ہزاروں روپے کا کھانا کھانے والے غریب ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ شاہانہ زندگی گزارنے والے امیروں کا یہ ملک غریب ہی نہیں بلکہ غیر ملکی قرضوں تلے دبا ہوا ہے جس کی آنے والی نسلیں بھی مقروض پیدا ہورہی ہیں جب کہ قرضے شاہانہ زندگی گزارنے والوں نے لے رکھے ہیں۔
اس غریب ملک کی اکثریت اپنے ملک کے مخیر حضرات سے مفت کے راشن اور سرکاری آٹے کے حصول کے لیے لائنوں میں لگ کر جانیں گنواتی ہے۔ مفت کی خوراک کے لیے آپس میں لڑتی ہے جن کی ہلاکتیں اگر زیادہ ہوجائے تو ہمارے شاہی حکمران اظہار تعزیت کر کے جان چھڑالیتے ہیں اور مرنے والوں کی وجوہات جاننے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ ان شاہانہ زندگی گزارنے والوں کا کام حکمرانی کرنا اور ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھانا رہ گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض مٹھائی نہیں ہے جس سے ہم نے اپنی حکومت میں جان چھڑا لی تھی، جس کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دور میں جتنا قرض لیا وہ ستر برسوں میں نہیں لیاگیا۔
ہماری حکومت نے عالمی قرضوں سے ملک میں موٹرویز، میٹروز اور شاہراہیں بنائی تھیں اور پھر اقتدار میں آکر پاکستان کو اس قابل بنادیں گے کہ پاکستان قرضے لینے کی بجائے دوسروں کو قرضے دینے کے قابل ہوجائے گا۔
وزیراعظم کا یہ بیان پی ٹی آئی کے سابق وزیراعظم کے دعوؤں جیسا ہی ہے جس میں کہاگیا تھا کہ وہ عوام کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بناکردیں گے اور ان کے دور میں بیرونی دنیا سے لوگ ملازمتوں کے لیے پاکستان آیا کریں گے۔
سابق حکومت میں ملک کے نوجوانوں کو تو ملازمتیں نہیں ملی تھیں مگر سابق وزیراعظم نے باہر سے اپنے دوستوں کو اعلیٰ ملازمتیں اور اہم عہدے ضرور دیے تھے اور پاکستان میں ہر حکمران نے اپنے دوستوں ، عزیزوں اور وفاداروں کو اہم عہدوں سے نوازا، کیونکہ ہر حکومت اپنوں کو نوازنے میں مشہور رہی ہے کیونکہ ہر حکمران اپنے اختیارات کا شاہانہ طور پر استعمال کرنے میں بااختیار رہا ہے اور اس پر سابق ہونے کے بعد اختیارات کے غلط استعمال پر مقدمات بھی بنائے جاتے رہے جن کو ہر سابق حکمران نے سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیا حالانکہ وہ سب انتقامی نہیں تھے ان میں حقیقت بھی تھی۔
پاکستان میں وزرائے اعظم ہی نہیں ہر ادارے کے سربراہوں نے بھی اپنے سرکاری اختیارات کا بے دریغ شاہانہ طور پر استعمال کیا۔ سرکاری خزانہ لٹایا ، نااہلوں کو عہدے اور قابلیت نہ رکھنے والوں کو ملازمتیں دیں، غیر ملکی دورے کرائے اپنے خاندان، عزیزوں اور دوستوں کو نواز۔ بڑے شہروں میں بڑے بڑے بنگلے مہنگے اور پوش علاقوں میں ان ہی ریٹائرڈ افسران، سیاستدانوں اور امراء کے ہیں اور ملک کے غریبوں کی اکثریت معمولی گھروں سے محروم یا کرائے کے چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رہ رہی ہے اور ہزاروں افراد فٹ پاتھوں، پارکوں یا میدانوں میں کھلے آسمان تلے وقت گزار رہے ہیں۔
حکمران، سیاستدان اور بڑے لوگ جہازوں سے سفر کرنے کے عادی ہیں اور بہت سوں کے اپنے جہاز بھی ہیں انھوں نے کبھی ٹرینوں اور بذریعہ سڑک طویل سفر نہیں کیے۔ یہ نامور لوگ اگر ریلوں اور بسوں میں سفر کریں تو شاید انھیں ریلوے پٹڑیوں اور سڑکوں کے اطراف بنے کچے گھر اور پھٹی پرانی بوسیدہ جھونپڑیاں نظر آجائیں جہاں لاکھوں بے گھر افراد اپنے شب و روز گرمی سردی، بارشیں اور تیز دھوپ تلے گزارتے ہیں۔
جنھیں بجلی تو دور کی بات پینے کا پانی بھی میسر نہیں ۔ ان غریبوں کے نہ ووٹ ہیں، نہ کسی کو ان کے ووٹوں کی ضرورت کیونکہ ووٹ رکھنے والوں کو ہی بنیادی سہولیات کے حصول کا حصہ ہے باقی کیڑے مکوڑوں کا اس ملک پر کوئی حق نہیں اس کے حکمران شاہانہ زندگی گزارتے اور سرکاری خزانے سے وہ ہر قسم کی سہولیات حاصل کیے ہوئے ہیں۔
حکمرانوں کے بعد یہ ملک ریٹائرڈ افسران، رشوت خور، سرکاری ملازمین، عوام کو لوٹنے والے امیروں اور مختلف مافیاز سے تعلق رکھنے والوں کا ہے جن کے دم سے بڑے بڑے ریسٹورنٹس آباد ہیں یا جو روزانہ کھانے کے ہوٹلوں میں کرسیاں خالی ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔
آؤٹنگ کے لیے تفریحی مقامات یا شہر سے باہر پرسکون مقامات پر کھانے پینے جاتے ہیں جب کہ غریبوں کو فلاحی اداروں یا مزاروں سے مفت کا کھانا مل جاتا ہے اور وہ بھوکا نہیں سوتے بلکہ اصل مسئلہ ان سفید پوشوں کو درپیش ہیں جنھیں مہنگائی اور بجلی و گیس کے بھاری بھاری بلوں نے عاجز کر رکھا ہے۔
بڑے ہوٹلوں میں رش دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ان کا ملک غریب ہے اور ہزاروں روپے کا کھانا کھانے والے غریب ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ شاہانہ زندگی گزارنے والے امیروں کا یہ ملک غریب ہی نہیں بلکہ غیر ملکی قرضوں تلے دبا ہوا ہے جس کی آنے والی نسلیں بھی مقروض پیدا ہورہی ہیں جب کہ قرضے شاہانہ زندگی گزارنے والوں نے لے رکھے ہیں۔
اس غریب ملک کی اکثریت اپنے ملک کے مخیر حضرات سے مفت کے راشن اور سرکاری آٹے کے حصول کے لیے لائنوں میں لگ کر جانیں گنواتی ہے۔ مفت کی خوراک کے لیے آپس میں لڑتی ہے جن کی ہلاکتیں اگر زیادہ ہوجائے تو ہمارے شاہی حکمران اظہار تعزیت کر کے جان چھڑالیتے ہیں اور مرنے والوں کی وجوہات جاننے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ ان شاہانہ زندگی گزارنے والوں کا کام حکمرانی کرنا اور ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھانا رہ گیا ہے۔