قوم پر مسلط عذاب ابھی ٹلا نہیں
یہ عذاب جس کے نازل ہونے کی وجہ ہمارے عوام ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہمارے وہ حکمراں ہیں
گزشتہ چند سالوں سے اس قوم پر نازل ہونے والا مہنگائی اور گرانی کا عذاب ابھی ٹلا نہیں ہے بلکہ اس میں مزید سختی اور شدت آتی جا رہی ہے۔
اپریل 2022 سے ہمیں کوئی اچھی خبر نہیں ملی سوائے اس کے کہ ریاست بچانے کی فکر اورکوشش میں اس قوم کو مزید قربانیاں دینی ہونگی۔ ان قربانیوں کا سلسلہ نجانے کب ختم ہوگا اور قوم دنیا کی دیگر آسودہ قوموں کی طرح کب سکون اور چین سے زندگی گذارنے لگے گی۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک ہمیں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ ملک ایک سنگین بحران سے گزر رہا ہے۔
یہ بحران ہے کہ کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر آنے والا نیا دن قوم کے لیے کوئی نوید لے کر طلوع نہیں ہوتا۔ ہر صبح نیند سے جاگنے کے بعد ہمیں ایک بھی اچھی خبر نہیں ملتی۔
سال بھر سے ہم IMF سے صرف ایک ارب ڈالر کا قرضہ لینے کی جستجو میں مہنگائی اورگرانی کے پہاڑ اپنے سروں پر نازل کرتے رہے،حکمران ہمیں یہی تسلیاں دیتے رہے کہ ملک اب ڈیفالٹ ہونے کے خطروں سے باہر نکل چکا ہے، مگر دوچار مہینوں بعد دیوالیہ ہوجانے کے خطرات پھر سے ہمارے سروں پر منڈلانے لگتے ہیں۔
ہمیں فروری 2023ء سے یہی بتایا جاتا رہا کہ ہم نے IMF کی تمام شرائط من وعن نہ صرف تسلیم کر لی ہیں بلکہ اُن پر عملدرآمد بھی کردیا ہے اور زمینی حقائق بھی یہی بتاتے رہے۔ اشیائے ضروریہ کی تمام چیزیں صرف اس ایک سال میں دگنی مہنگی ہوچکی ہیں۔ ٹیکسوں پر ٹیکس نافذ کر کے ساری معیشت اور کاروبار مشکل اور ناممکن کر کے رکھ دیاگیا ہے۔ اس کے باوجود تھوڑے دنوں بعد پتا چلتا ہے کہ IMF نے مزید کڑی شرائط عائد کردی ہیں۔
حالیہ معاہدے سے پہلے ہمارے وزیر خزانہ ہمیں یہ یقین دلاتے رہے کہ اُنہوں نے اس عالمی مالیاتی ادارے کی تمام کی تمام شرائط پر عمل درآمد کرلیا ہے، لیکن اب معاہدہ سائن ہونے کے بعد بھی بجلی اورگیس کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں اور باور یہ کرایا جا رہا ہے کہ یہ بھی ان کی نئی شرائط میں شامل ہے۔ معاہدہ سائن ہوجانے سے پہلے جب تمام شرائط پر عمل درآمد ہوچکا تھا تو پھر ہم یہ پوچھنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ یہ نئی مہنگائی کیوں کی جا رہی ہے۔
حکومت ایک طرف زراعت اور انڈسٹری کو فروغ دینے کے نئے نئے اور بظاہر سندر منصوبے شروع کر رہی ہے لیکن کیا اسے معلوم ہے کہ بجلی کے اس نرخ پر ہماری کونسی صنعت فروغ پاسکے گی۔ وہ بین الاقومی منڈیوں میں کس طرح اپنا مال ایکسپورٹ کرسکے گی جب اس کی پیداواری لاگت ہی اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ کسی دوسرے ملک کا مقابلہ بھی نہیں کرپائے گی۔
یہی حال زراعت کا ہے، فصلوں کی اچھی اور بہتر کاشت کے لیے سستی بجلی اور سستی کھاد کی فراہمی بہت ضروری ہوتی ہے لیکن کیا ہمارے ملک میں ہمارے کاشت کاروں کو یہ دونوں بنیادی چیزیں اس وقت ارزاں قیمتوں پر دستیاب ہیں۔ آپ کتنے ہی اچھے منصوبے بنا لیں، کتنے ہی سہانے خواب اپنے ذہنوں میں سجا لیں لیکن وہ تب ہی نتیجہ خیز ثابت ہونگے جب ہمارے چیزیں بین الاقوامی منڈیوں میں دیگر ممالک کا مقابلہ کر پائیںگی۔
حکومت آج آئی ایم ایف معاہدہ سائن ہوجانے کا کریڈٹ بڑے فخر سے اپنے نام کر رہی ہے لیکن کیا اسے پتا ہے کہ اس معاہدے کے نتائج اس قوم پر کس عذاب کی شکل میں نازل ہو رہے ہیں۔ کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کے بعد بھی IMF کی شرائط کا سلسلہ بند ہوجائے گا، جس طرح معاہدہ سائن ہوجانے کے بعد بھی قوم کو بجلی کے جھٹکے لگائے جا رہے ہیں، آنے والے دنوں میں اِن جھٹکوں کا سلسلہ کیاختم ہو جائے گا۔
ہمیں خدشات لاحق ہیں کہ اگلی قسط جاری کرنے سے پہلے IMF ہمیں پھر ناک سے لکیریں کھینچنے پر مجبورکرے گا اور آنے والی نگراں یا نئی منتخب حکومت قوم پر مہنگائی اورگرانی کا نیا کھاتہ کھولے گی اور پچھلی تمام ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکمرانوں کے سر تھوپتی دکھائی دے گی۔
پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کے دور میں جب آٹا35 روپے کلو سے بڑھ کر80 روپے ہوگیا اور چینی 53 روپے سے بڑھ کر 90 روپے تک جا پہنچی تو یہی ہم لوگ تھے جنہوں نے بہت شور مچایا تھا کہ سو فیصد مہنگائی ہوچکی ہے لیکن اب صرف ایک سال میں آٹا 160 روپے اور چینی 140 روپے تک جا پہنچی ہے تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔
موجودہ حکمراں جن کی مدتِ حکمرانی اب صرف ایک ماہ باقی رہ گئی ہے وہ کم از کم غریب عوام پر مہنگائی کے نئے بم گرانے سے تو باز آسکتے تھے۔ یہ کام اگلے حکمرانوں کے لیے چھوڑ دیتے تو بھی شاید ہم چپ رہ جاتے مگر ریاست بچانے اور سیاست کی قربانی کا اعزاز اپنے سینے پر سجانے کے شوق میں انھوں نے تو حد ہی کردی ہے ۔
اِن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو IMFسے 1.2ارب ڈالر کی قسط مل جانے کے بعد شکر بجا لاتا اور قوم پر مزید بوجھ نہیں لاد دیتا۔ مگر یہ IMF والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں اگلے حکمرانوں کا بھی کام اپنے ہاتھوں سے کیے جا رہے ہیں۔ انھیں یہ نہیں پتا کہ IMF پھر بھی باز نہیں آئے گا اور وہ اگلی قسط جاری کرنے سے پہلے ایک بار پھر نئی شرائط کا انبار لگا دے گا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کبھی اچھی اور مفید نہیں ہوا کرتی ہے۔
IMF کے بارے میں یہ تاثر بڑی حد تک درست ہے کہ وہ کمزور ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کی خاطر اُنہیں چند ڈالر قرضہ تو ضرور دیتا ہے لیکن انھیں اپنے شکنجے میں ایسا جکڑ لیتا ہے کہ پھر وہ نہ صرف اس سے چھٹکارا حاصل نہیںکر سکتے ہیں بلکہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر خود مختار اور خود انحصار بھی نہیں بن سکتے ہیں۔
ہمیں نہیں پتا ہے کہ ہمارے سروں پر مسلط یہ عذاب کب ختم ہوگا۔ یہ عذاب جس کے نازل ہونے کی وجہ ہمارے عوام ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہمارے وہ حکمراں ہیں جن کے غلط فیصلوں اور شاہ خرچیوں کی وجہ سے ہم آج اس حال میں پہنچے ہیں لیکن اس عذاب کو وقتی طور پر ٹالنے اور کچھ ریلیف حاصل کرنے کے لیے بھی قربانیاں صرف ہمارے غریب عوام ہی کو دینی پڑتی ہیں۔
اپریل 2022 سے ہمیں کوئی اچھی خبر نہیں ملی سوائے اس کے کہ ریاست بچانے کی فکر اورکوشش میں اس قوم کو مزید قربانیاں دینی ہونگی۔ ان قربانیوں کا سلسلہ نجانے کب ختم ہوگا اور قوم دنیا کی دیگر آسودہ قوموں کی طرح کب سکون اور چین سے زندگی گذارنے لگے گی۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لے کر آج تک ہمیں یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ ملک ایک سنگین بحران سے گزر رہا ہے۔
یہ بحران ہے کہ کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر آنے والا نیا دن قوم کے لیے کوئی نوید لے کر طلوع نہیں ہوتا۔ ہر صبح نیند سے جاگنے کے بعد ہمیں ایک بھی اچھی خبر نہیں ملتی۔
سال بھر سے ہم IMF سے صرف ایک ارب ڈالر کا قرضہ لینے کی جستجو میں مہنگائی اورگرانی کے پہاڑ اپنے سروں پر نازل کرتے رہے،حکمران ہمیں یہی تسلیاں دیتے رہے کہ ملک اب ڈیفالٹ ہونے کے خطروں سے باہر نکل چکا ہے، مگر دوچار مہینوں بعد دیوالیہ ہوجانے کے خطرات پھر سے ہمارے سروں پر منڈلانے لگتے ہیں۔
ہمیں فروری 2023ء سے یہی بتایا جاتا رہا کہ ہم نے IMF کی تمام شرائط من وعن نہ صرف تسلیم کر لی ہیں بلکہ اُن پر عملدرآمد بھی کردیا ہے اور زمینی حقائق بھی یہی بتاتے رہے۔ اشیائے ضروریہ کی تمام چیزیں صرف اس ایک سال میں دگنی مہنگی ہوچکی ہیں۔ ٹیکسوں پر ٹیکس نافذ کر کے ساری معیشت اور کاروبار مشکل اور ناممکن کر کے رکھ دیاگیا ہے۔ اس کے باوجود تھوڑے دنوں بعد پتا چلتا ہے کہ IMF نے مزید کڑی شرائط عائد کردی ہیں۔
حالیہ معاہدے سے پہلے ہمارے وزیر خزانہ ہمیں یہ یقین دلاتے رہے کہ اُنہوں نے اس عالمی مالیاتی ادارے کی تمام کی تمام شرائط پر عمل درآمد کرلیا ہے، لیکن اب معاہدہ سائن ہونے کے بعد بھی بجلی اورگیس کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں اور باور یہ کرایا جا رہا ہے کہ یہ بھی ان کی نئی شرائط میں شامل ہے۔ معاہدہ سائن ہوجانے سے پہلے جب تمام شرائط پر عمل درآمد ہوچکا تھا تو پھر ہم یہ پوچھنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ یہ نئی مہنگائی کیوں کی جا رہی ہے۔
حکومت ایک طرف زراعت اور انڈسٹری کو فروغ دینے کے نئے نئے اور بظاہر سندر منصوبے شروع کر رہی ہے لیکن کیا اسے معلوم ہے کہ بجلی کے اس نرخ پر ہماری کونسی صنعت فروغ پاسکے گی۔ وہ بین الاقومی منڈیوں میں کس طرح اپنا مال ایکسپورٹ کرسکے گی جب اس کی پیداواری لاگت ہی اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ کسی دوسرے ملک کا مقابلہ بھی نہیں کرپائے گی۔
یہی حال زراعت کا ہے، فصلوں کی اچھی اور بہتر کاشت کے لیے سستی بجلی اور سستی کھاد کی فراہمی بہت ضروری ہوتی ہے لیکن کیا ہمارے ملک میں ہمارے کاشت کاروں کو یہ دونوں بنیادی چیزیں اس وقت ارزاں قیمتوں پر دستیاب ہیں۔ آپ کتنے ہی اچھے منصوبے بنا لیں، کتنے ہی سہانے خواب اپنے ذہنوں میں سجا لیں لیکن وہ تب ہی نتیجہ خیز ثابت ہونگے جب ہمارے چیزیں بین الاقوامی منڈیوں میں دیگر ممالک کا مقابلہ کر پائیںگی۔
حکومت آج آئی ایم ایف معاہدہ سائن ہوجانے کا کریڈٹ بڑے فخر سے اپنے نام کر رہی ہے لیکن کیا اسے پتا ہے کہ اس معاہدے کے نتائج اس قوم پر کس عذاب کی شکل میں نازل ہو رہے ہیں۔ کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کے بعد بھی IMF کی شرائط کا سلسلہ بند ہوجائے گا، جس طرح معاہدہ سائن ہوجانے کے بعد بھی قوم کو بجلی کے جھٹکے لگائے جا رہے ہیں، آنے والے دنوں میں اِن جھٹکوں کا سلسلہ کیاختم ہو جائے گا۔
ہمیں خدشات لاحق ہیں کہ اگلی قسط جاری کرنے سے پہلے IMF ہمیں پھر ناک سے لکیریں کھینچنے پر مجبورکرے گا اور آنے والی نگراں یا نئی منتخب حکومت قوم پر مہنگائی اورگرانی کا نیا کھاتہ کھولے گی اور پچھلی تمام ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکمرانوں کے سر تھوپتی دکھائی دے گی۔
پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کے دور میں جب آٹا35 روپے کلو سے بڑھ کر80 روپے ہوگیا اور چینی 53 روپے سے بڑھ کر 90 روپے تک جا پہنچی تو یہی ہم لوگ تھے جنہوں نے بہت شور مچایا تھا کہ سو فیصد مہنگائی ہوچکی ہے لیکن اب صرف ایک سال میں آٹا 160 روپے اور چینی 140 روپے تک جا پہنچی ہے تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔
موجودہ حکمراں جن کی مدتِ حکمرانی اب صرف ایک ماہ باقی رہ گئی ہے وہ کم از کم غریب عوام پر مہنگائی کے نئے بم گرانے سے تو باز آسکتے تھے۔ یہ کام اگلے حکمرانوں کے لیے چھوڑ دیتے تو بھی شاید ہم چپ رہ جاتے مگر ریاست بچانے اور سیاست کی قربانی کا اعزاز اپنے سینے پر سجانے کے شوق میں انھوں نے تو حد ہی کردی ہے ۔
اِن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو IMFسے 1.2ارب ڈالر کی قسط مل جانے کے بعد شکر بجا لاتا اور قوم پر مزید بوجھ نہیں لاد دیتا۔ مگر یہ IMF والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں اگلے حکمرانوں کا بھی کام اپنے ہاتھوں سے کیے جا رہے ہیں۔ انھیں یہ نہیں پتا کہ IMF پھر بھی باز نہیں آئے گا اور وہ اگلی قسط جاری کرنے سے پہلے ایک بار پھر نئی شرائط کا انبار لگا دے گا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کبھی اچھی اور مفید نہیں ہوا کرتی ہے۔
IMF کے بارے میں یہ تاثر بڑی حد تک درست ہے کہ وہ کمزور ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کی خاطر اُنہیں چند ڈالر قرضہ تو ضرور دیتا ہے لیکن انھیں اپنے شکنجے میں ایسا جکڑ لیتا ہے کہ پھر وہ نہ صرف اس سے چھٹکارا حاصل نہیںکر سکتے ہیں بلکہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر خود مختار اور خود انحصار بھی نہیں بن سکتے ہیں۔
ہمیں نہیں پتا ہے کہ ہمارے سروں پر مسلط یہ عذاب کب ختم ہوگا۔ یہ عذاب جس کے نازل ہونے کی وجہ ہمارے عوام ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہمارے وہ حکمراں ہیں جن کے غلط فیصلوں اور شاہ خرچیوں کی وجہ سے ہم آج اس حال میں پہنچے ہیں لیکن اس عذاب کو وقتی طور پر ٹالنے اور کچھ ریلیف حاصل کرنے کے لیے بھی قربانیاں صرف ہمارے غریب عوام ہی کو دینی پڑتی ہیں۔