ایک خاموش میثاق
ہمارے دیس میں سیاست کی کج ادائی ہو یا معیشت کے تعلق سے جگ ہنسائی، اس سب کا تعلق دو باتوں سے ہے
مجھے آپا نعیم فاطمہ علوی کی بات کرنی ہے لیکن پاکستان کے موجودہ اقتصادی بحران کے بطن سے برآمد ہونے والی ایک خیر کی بات پہلے ہو جائے کیونکہ جس شر سے یہ خیر برآمد ہوا ہے، آپا اسی شر کی بیخ کنی کے کام میں دل و جان سے مصروف ہیں۔
اقتصادی بحران کے تعلق سے خیال اگر آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی طرف جاتا ہے یا سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں اور دوستوں کی طرف جاتا ہے تو بھی ٹھیک ہے اور سخت دبا ؤکے باوجود وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم کی محنت کی طرف تو اس میں بھی ہرج کی کوئی بات نہیں لیکن اصل خبر کچھ اور ہے۔
ایک صفحے کی حکومت کی تو خیر ادائیں اور کارنامے ہی الگ تھے کہ اس نے ذمے داریاں بہت' ایمان داری'کے ساتھ تقسیم کر رکھی تھیں۔ مخالفین کے لتے لینے، بے توقیر کرنے اور اذیتیں دینے کا کار خیر اس نے اپنے ذمے لے رکھا تھا اور ریاست چلانے کی ذمے داری اس نے آؤٹ سورس کر رکھی تھی۔
یہ لوگ کسی ذمے دار حکومت کے کرتا دھرتا ہوتے یا فی الاصل سیاست دان ہوتے تو ڈوب ہی مرتے لیکن انھیں ایسی نالائقی کا اشتہار دیتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی تھی اور وہ کھل کر اعلان کرتے تھے کہ ہم اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے ایجنسیوں سے مدد لیتے ہیں۔ یہ وہی حکومت تھی جسے اپنے قیام کے پہلے ہی روز قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے محمد شہباز شریف نے پیش کش کی تھی کہ آئیے، میثاق معیشت کرتے ہیں تاکہ نہ صرف یہ کہ ملک کے اقتصادی اہداف کاتعین بلا کسی اختلاف کے ہو جائے بلکہ ان اہداف کے حصول کے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود آگے بڑھنے پر بھی اتفاق ہو جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے نام نہاد ایک صفحے کی طاقت اور اپنے مزاج کی قوت متحرکہ یعنی رعونت کے زیر اثر اس مخلصانہ پیش کش کو مسترد کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس دن کے بعد طلوع ہونے والا ہر نیا سورج قومی معیشت کی تباہی اور بربادی کی خبر لایا۔
پھر قومی منظر پر ایک ایسی تبدیلی نہایت خاموشی کے ساتھ رونما ہوئی جس کی خواہش اس ملک کے محب وطن طبقات ایک طویل عرصے سے کر رہے تھے۔
خواہش تو ایک ہی تھی لیکن ممکن ہے کہ اس کے عنوانات مختلف ہوں جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اولاً نیا عمرانی معاہدہ قرار دیا پھر مفاہمت۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اسے سچائی کا اقرار اور مفاہمت کا نام دیا کرتے تھے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے وقت شہباز شریف نے اسے میثاق معیشت کا نام دیا۔ یہ آخری عنوان ممکن ہے کہ اپنے دامن میں ذرا محدود گنجائش رکھتا ہو لیکن حقیقت یہ تھی کہ ان سارے عنوانات یا تجاویز کا مقصد ایک ہی تھا کہ وطن عزیز کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پورے اتحاد اور مخلصانہ بھائی چارے کے ساتھ کنارے لگایا جائے۔
تحریک انصاف کی حکومت اور جنرل باجوہ کے مفادات پر مبنی گٹھ جوڑ کے خاتمے کے بعد ریاست کے مختلف اسٹیک ہولڈرز میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اب گنوانے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لہٰذا اس کے سوا ہمارے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ راستہ اختیار کیا جائے قوم کے مدبرین ایک طویل عرصے سے جس کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
اس سلسلے کی ابتدا یوں سمجھ لیا جائے کہ اسی وقت سے ہو گئی تھی جب جنرل باجوہ نے نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ میں اعلان کیا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ پاکستان ایک نارمل ملک کے طور پر اپنے راستے کا انتخاب کرے۔ جنرل باجوہ نے یہ اعلان تو کر دیا لیکن وہ اپنے ایجنڈے کو پس پشت ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
اس کے نتیجے میں حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا لیکن کمان کی تبدیلی کے بعد صورت حال مکمل طور بدل گئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کا کہہ لیجیے یا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی ری کنسیلی اور عمرانی معاہدہ، چیئرمین پی ٹی آئی اور باجوہ دور بیت جانے کے بعد ریاست کے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان یہ عمل انتہائی خاموشی سے انجام پا گیا اور یہ طے پا گیا کہ پہلے سے پھیلایا ہوا گند سمیٹ کر ہر ادارہ اور ہر فرد اپنی اپنی آئینی ذمے داری کی طرف لوٹ جائے گا۔
9مئی کے تکلیف دہ واقعات رونما نہ ہو جاتے تو یہ عمل کہیں پہلے مکمل ہو چکا ہوتا لیکن اب تاخیر سے ہی سہی، یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا۔ ریاست کے ذمے داروں کے درمیان یہ جو غیر علانیہ میثاق وجود میں آیا ہے، ایک اور میثاق بھی اس کے نتیجے میں وجود میں آگیا ہے اور وہ میثاق ہے، میثاق معیشت۔ یہی میثاق معیشت ہے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی طرف سے پیدا کی جانے والی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی ہوا اور قومی معیشت استحکام کے لیے دیگر اقدامات بھی ہوئے جن میں وسط ایشیا سے روس تک بارٹر ٹریڈ بھی شامل ہے اور پاک ایران مشترکہ مارکیٹوں کا قیام بھی۔ ابھی اس ضمن میں مزید کام بھی ہونے ہیں جو سامنے آتے جائیں گے اور ہمیں حیران کرتے جائیں گے۔
حرف آخر یہ کہ آئندہ ایک ایسی حکومت ہوگی جو اس قومی میثاق کی پاسداری کرنے اور اس میثاق کے مطابق معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہوگی، نا سمجھ ، کھلنڈرے اور ریاست کو بازیچہ اطفال بنانے کی گنجائش اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔
ہمارے دیس میں سیاست کی کج ادائی ہو یا معیشت کے تعلق سے جگ ہنسائی، اس سب کا تعلق دو باتوں سے ہے۔ اولاً بے مقصدیت اور دوم، نظم و ضبط کی کمی۔ کسی بھی معاشرے میں یہ دونوں خوبیاں اسی صورت میں پیدا ہوتی ہیں اگر بچوں کی تربیت میں ابتدا سے یہ چیزیں شامل کر دی جائیں۔ کیا ہم اس سانحے سے دوچار ہو چکے ہیں کہ ہمارے بزرگ دور تک دیکھنے والے نہیں تھے اور ہماری تربیت کا خاکہ تیار کر تے ہوئے ان اہم ترین پہلوؤں کو وہ نظر انداز کر گئے تھے؟ آپا نعیم فاطمہ علوی نے بتا دیا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
یہ روداد انھوں نے اپنی تازہ کتاب ' پاکستان گرلز گائیڈ: شخصیات کے آئینے میں' میں پوری شرح و بسط کے ساتھ لکھ دی ہے۔
اس روداد کی تفصیل میں جانا ہماری قومی ضرورت ہے لیکن مناسب لگتا ہے کہ پہلے یہ جان لیا جائے کہ آپا ہیں کون؟ آپا اسلام آباد کے ایک سجے سجائے پرسکون سے گھر میں رہتی ہیں جہاں ادیبوں خاص طور پر نثر نگاروں کی محافل برپا کرتی ہیں اور خوشیاں بانٹتی ہیں۔
کبھی کبھی زیادہ مہربان ہو جائیں تو ان کے ہاں کھانے کی دعوتوں کے موقع پر کلاسیکی موسیقی سے لطف اٹھانے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ آپا تو ان محفلوں کی جان ہیں ہی لیکن ان مواقع پر ڈاکٹر ایوب علوی بھی متحرک ہوتے ہیں اور ایک جامعہ کے وائس چانسلر ہونے کے باوجود محفل کی نشستوں کے تصویری ثبوت بڑی مہارت سے جمع کرتے رہتے ہیں۔
آپا صرف ادیب نہیں، سماجی خدمت گار بھی ہیں اور آل پاکستان یونیورسٹی ویمن ایسوسی ایشن کی مدام المہام بھی۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ بھانت بھانت کے لوگوں کو اکٹھا کرنا اور کام پر لگانا ان کی خوبی ہے۔
بس، ان کی اسی خوبی نے خود ان سے بھی ایک شان دار کام لے لیا ہے۔ گرلز گائیڈ میں ہوتے ہوئے ان کی معمول کی سرگرمیاں جاری تھیں کہ اس کی سابق کمشنر محترمہ فرزانہ عظیم نے ان سے کہا کہ لکھتی پڑھتی تو آپ رہتی ہی ہیں، لگے ہاتھوں گرلز گائیڈ کی تاریخ بھی مرتب کر دیں۔ انھوں نے کہا اور یہ اس کام میں جت گئیں جس کے نتیجے میں وہ کتاب وجود میں آگئی جس کا ذکر ہوا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان گرلز گائیڈ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی راہنمائی میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ہاتھوں وجود میں آئی ۔
مقصد یہی تھا بچیوں میں زندگی کی مقصدیت اور نظم و ضبط پیدا کیا جائے۔ یہ تنظیم لشٹم پشتم اپنا کام کر رہی ہے لیکن ریاست اگر گرلز گائیڈ اور بوائے اسکاٹس کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لے تو ہم ان حادثات سے بچ جائیں جن سے دوچار رہتے ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ تنظیمیں کیوں ضروری ہیں اور کیسے کام کرتی ہیں، یہ جاننے کے لیے اگر آپا کی کتاب نہ پڑھی تو پھر کیا پڑھا؟