آستین کے سانپ
سانپوں کے عالمی دن پر لوگوں نے اصل سانپوں کو کم اور آستین میں بیٹھے انسانوں کو خوب یاد کیا۔ مجھے ایک صاحب کی ویڈیو یاد آگئی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ واٹس ایپ کا اسٹیٹس لگا کر چیک کرتے رہتے ہیں کہ جس کےلیے یہ خاص لگایا تھا کیا اس نے اسٹیٹس ابھی تک دیکھا بھی کہ نہیں؟
''اگر اسی کو دکھانا ہے تو اس کو ڈائریکٹ بھیج کیوں نہیں دیتے بھائی!''
میں بھی تمام سانپوں والی پوسٹوں پر یہی کہنے لگی کہ ایسے سانپوں کے ساتھ ڈائریکٹ ہوا جائے تو بہتر ہے۔
ویسے یہ جو ہماری اِن ڈائریکٹ باتیں کرنے والی عادت ہے یہ جب ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر پوسٹ یا سنانے کی صورت میں آتی ہیں تو بڑی گڑبڑ مچاتی ہیں۔ سنانے والے پر تو چلو جو اثر ہوتا ہے سو ہوتا ہے، ایک عام شخص جس کا کسی بات سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہوتا، وہ بھی جان جاتا ہے کہ زندگیوں میں کچھ گڑبڑ ہے۔
ہمارے دوستوں کے سرکل میں بھی ایک ایسی ہی بے چاری دوست تھی جو کہ بحیثیت بہو بہت زیادہ ساس کے مظالم کا شکار تھی۔ وہی عام ساس بہو ڈراموں والی کہانی تھی۔ ساس نند، سسرال کے خلاف بہت پوسٹ لگایا کرتی تھیں۔ جب پوسٹس کا سلسلہ زیادہ ہوجاتا تو ہمیں سمجھ آجاتی کہ آج کل چڑچڑا پن سوشل میڈیا پر ایسے پوسٹ لگا لگا کر اتارا جارہا ہے۔ ہم اکثر اپنے دوستوں کے سرکل میں اس پر بات چیت بھی کیا کرتے تھے کہ اس کو ہمیں سمجھانا چاہیے کیونکہ یہ مسئلے کا حل نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسی پوزیشن میں بعض عورتیں چونکہ منہ پر تو کچھ نہیں کہہ سکتیں لیکن سوشل میڈیا پر وہ سب کو خوب رگڑتی ہیں اور ساری نہ کہنے والی کسر مکمل کر چھوڑتی ہیں۔
خیر معلوم نہیں کس کا قصور زیادہ تھا۔ اس بات پر حتمی رائے قائم کرنے کے بجائے اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ اُس دوست کی فیملی میں ایک عدد بھابھی کا اضافہ ہوگیا۔ اگر وہ پوسٹ میں سیر تھی تو بھابھی سوا سیر۔ اتفاق سے بھابھی بھی میری جاننے والی تھی اور میرے ساتھ سوشل میڈیا پر ایڈ بھی تھی۔ بس پھر کیا تھا بھابھی بھی پوسٹ میں ایسا رگڑنا شروع ہوئیں کہ خدا کی پناہ۔ یعنی مجھے لگتا ہے یہ ایک مکمل ابنارمل گھر انہ ہے جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو صرف پوسٹ کے ذریعے سنانا پسند کرتا ہے۔
پھر کچھ عرصے بعد میری دوست نے توپوں کا رُخ سسرال والوں سے موڑ کر بھابھی کی جانب کرلیا اور پھر کیا تھا، پوسٹ پر ہی انڈیا پاکستان کا باڈر۔ ساس بہو کی کہانیاں جہاں بھی آتی ہیں ہمیں بہت دلچسپ لگتی ہیں۔ اور یہ تو اب میں نے ایک کنبے کی بے بی باجی ڈرامے والی کہانی ہی لکھ دی ہے۔ خیر گزشتہ دنوں سانپوں کے عالمی دن پر باری باری دونوں جانب سے جب آستین کے سانپ پر پوسٹ دیکھی تو سوچا کہ اس پر اپنا کوئی نقطہ نظر پیش کیا جائے۔
میری نظر میں ایسی زہریلی پوسٹوں سے مسائل حل ہونے کے بجائے معاملہ مزید آگ پکڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر پردے کے پیچھے چھپ کر گمنامی کا ماسک پہن کر شکایات کا ایسے اظہار غلط فہمیوں کو بڑھاتا ہے۔ پھر مزید یہ کہ ہم کسی کے منہ کے سامنے اتنے کڑوے نہیں ہوتے جتنا ہمیں پوسٹ میں یا لکھے الفاظ میں محسوس کرواتے ہیں۔ کیونکہ ایسی پوسٹوں میں آمنے سامنے گفتگو کی اہمیت اور سیاق و سباق کا فقدان موجود ہوتا ہے۔ تحریری لفظ کی آسانی سے غلط تشریح کی جاسکتی ہے اور غلط فہمیوں کے امکانات کو مزید ہوا ملتی ہے، جس میں پوسٹ کے پیچھے حقیقی ارادے کی ہر کوئی اپنی ہی ایک تشریح کرتا ہے۔
مزید برآں ایسے اپنی ذاتی شکایات کو عوامی طور پر نشر کرنے کے بہت غلط نتائج ہوسکتے ہیں۔ ایک بار شیئر ہونے کے بعد یہ پوسٹیں ڈیجیٹل لینڈ اسکیپ کا ایک مستقل حصہ بن جاتی ہیں۔ وسیع سامعین کےلیے قابل رسائی، جس میں خاندان کے اراکین، دوست، اور یہاں تک کہ مستقبل کے رشتے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ یہ نہ صرف تنازعات کے سلسلے کو برقرار رکھتا ہے بلکہ ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات پر بھی دیرپا مضر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ''آستین کے سانپ'' جیسی اصطلاحات کا سہارا لینا تعلقات کے اندر بنیادی مسائل کو حل کرنے کےلیے بہت کم کام کرتا ہے۔ آمنے سامنے آرام سے بیٹھ کر بات چیت اور مکالمے کو فروغ دینے کے بجائے بات اکثر الزام، انتقامی کارروائی اور مزید بیگانگی کی زد میں آجاتی ہے۔ یہ بات سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ براہ راست بات چیت ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔
اگرچہ یہ پوسٹیں مایوسیوں کےلیے ایک عارضی راستہ فراہم کرسکتی ہیں لیکن بالآخر مکمل طور پر تنازعات کو حل کرنے میں ناکام ہی رہتی ہیں۔ کھلے اور دیانتدارانہ مکالمے کی حوصلہ افزائی کرکے، مختلف نقطہ نظر کا احترام کرتے ہوئے، اور براہ راست بات چیت کے ذریعے حل تلاش کرکے ہی ہم ''آستین کے سانپ'' کی حدود پر قابو پاسکتے ہیں اور صحت مند، زیادہ ہم آہنگ تعلقات استوار کرسکتے ہیں۔ خیر میں کہہ رہی تھی کہ یہ جو آستین کے سانپ ہوتے ہیں ناں، یہ بالکل ٹھیک نہیں ہوتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔