دہشت گردی کا خاتمہ اور بارڈر میکنزم
سپہ سالار سید عاصم منیر نے اپنے دورہ ایران کے دوران دہشت گردی کے خاتمے پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صائب ہیں
پاکستان اور ایران کی عسکری قیادت کے درمیان اتفاق پایا گیا ہے کہ دہشت گردی خطے سمیت دونوں ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔
پاکستانی سپہ سالار سید عاصم منیر نے، ایرانی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری سمیت ایران کی عسکری قیادت سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔
دونوں اطراف کے فوجی کمانڈروں نے انٹیلی جنس شیئرنگ اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف موثر کارروائیوں کے ذریعے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے اور سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے راستے تلاش کرنے کا عزم کیا۔ بات چیت کے دوران علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان ایران دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
بلاشبہ پاکستانی سپہ سالار سید عاصم منیر نے اپنے دورہ ایران کے دوران دہشت گردی کے خاتمے پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صائب ہیں۔ دراصل دہشت گردی کی صرف ایک جہت سے دونوں ممالک کو سابقہ نہیں پڑ رہا ہے بلکہ خاص طور پر پاکستان کو علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر اس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ ایران کو علاقائی طور پر اس کا سامنا ہے۔
پاکستان، بلوچستان کے حالات کی وجہ سے پریشان ہے اور اس کی خواہش ہے کہ بلوچستان کے معاملات میں اس کو ایران کی جانب سے مکمل طور پر مدد حاصل ہو، تا کہ وہ نا صرف اپنے علاقہ میں امن و امان کو قائم رکھ سکے بلکہ اپنی معاشی ترقی کے اہم منصوبہ سی پیک کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو بھی ختم کر سکے۔
ایران کو بھی سیستان میں اسی نوعیت کا مسئلہ در پیش ہے۔ جہاں تک مذہبی انتہا پسندی سے جڑے امور کا تعلق ہے تو اس پر جب تک پاکستان ایران، سعودی عرب اور افغانستان ایک میز پر نہیں بیٹھیں گے، اس وقت تک پاکستان میں یہ عفریت بار بار سر اٹھاتا رہے گا اور اس عفریت کو کوئی بھی کبھی پاکستان کی قومی ترقی کی راہ میں لا کر کھڑا کرتا رہے گا۔
ایران سے متصل بلوچستان کا سرحدی علاقہ قریباً ایک ہزار کلومیٹر پر محیط ہے۔ مقامی آبادی کی معیشت سرحد پر قائم انٹری پوائنٹس سے ہونے والی دوطرفہ تجارت سے وابستہ ہے۔ امریکی معاشی پابندیوں کے بعد دوطرفہ تجارت کو سب سے زیادہ نقصان سرحدی علاقوں میں جاری حالیہ شورش نے پہنچایا ہے۔
یہاں مقامی آبادی کی معیشت کا 90 فیصد دار و مدار سرحدی تجارت پر ہے۔ ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی علاقے کیچ، پنجگور، گوادر، تفتان اور دیگر علاقوں میں قائم بارڈر انٹری پوائنٹس سے ہونے والی تجارت گزشتہ ایک سال سے شدید متاثر ہے۔
مقامی لوگوں کے تحفظات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اکثر اوقات بدامنی کے واقعات کے بعد بارڈر انٹری پوائنٹس کئی کئی یوم تک بند رہتے ہیں۔ جب یہ انٹری پوائنٹس بند ہو جاتے ہیں تو مقامی آبادی اس قدر متاثر ہوتی ہے کہ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ موجودہ حالات میں خطے کا کوئی ملک مزید تناؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایران پر عائد امریکی معاشی پابندیوں کے اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔
ایران میں پاکستان کے حوالے سے بہت سی امیدیں موجود ہیں۔ ایران انقلاب کے بعد سے مغربی دنیا کی مخالفت کا شکار رہا ہے اور وہ ان حالات میں اس کا معترف ہے کہ پاکستان کی جانب سے کبھی بھی اپنے برادر ملک کے لیے امریکی و مغربی دباؤ کے باوجود ان ممالک کے ایما پر کوئی مسئلہ نہیں پیدا کیا گیا ہے اور پاکستان نے اس حوالے سے ہمیشہ دباؤ کو مسترد کردیا ہے۔
ایران میں شہباز حکومت کے اس فیصلہ کو بہت مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان بارٹر ٹریڈ کی جانب بڑھنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور ایک دوسرے سے کرنسی کے بجائے اگر اشیا کی تجارت صحیح معنوں میں رواں دواں ہوجائے تو دونوں ممالک کے عوام کو بہت کچھ سستا دستیاب ہو سکتا ہے جو کہ اس وقت مہنگا میسر ہے اور مہنگائی کی موجودہ لہر نے تو اس کو اور زیادہ ضروری کردیا ہے۔
ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں ابھی تک بہت زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس پر جلد از جلد کام مکمل کیا جائے جس سے ایرانی گیس کو اتنی بڑی مارکیٹ دستیاب ہو جائے جب کہ پاکستان کو بھی توانائی کے بحران سے نجات نصیب ہو۔ گوادر میں بجلی کے حالیہ اقدامات سے وہاں یہ تصور قائم کیا جا رہا ہے کہ گیس پائپ لائن پر بھی اب جلد ہی پیش رفت ہوگی۔
پاکستان کو بجلی اور گیس کی کمی کا سامنا ہے اور یہ قلت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، ایران کی طرف سے بجلی کی فراخدلانہ پیشکش سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے اِس کے عوض ایران کو زرعی اور صنعتی پیداوار برآمد کی جا سکتی ہے۔
پاکستان سے ایران آم، کینو، چاول، سیمنٹ اور کپڑا وغیرہ درآمد کرتا ہے جس میں مزید بہتری کی کافی گنجائش ہے اگر دونوں ممالک بلا تعطل تجارتی وفود کا تبادلہ کرتے رہیں اور خطے کی صورتحال کو معاہدوں کی تکمیل میں آڑے نہ آنے دیں تو باہمی تجارت میں اضافہ ممکن ہے، سرحدوں پر نقل و حرکت کے لیے بنائے مقامات پر مشترکہ مارکیٹیں بنانے سے نہ صرف غیر قانونی نقل و حمل ختم کی جا سکتی ہے بلکہ اربوں کا ریونیو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کی دوستی کے اچھے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، اب پاکستان اور ایران کے درمیان بھی ایک عرصہ بعد تعلقات میں دوبارہ وہی گرمجوشی نظر آنے لگی ہے جو کبھی پاک ایران تعلقات کا خاصہ تھی۔ ایران ہمارا پڑوسی برادر اسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور1965کی جنگ میں پاکستان کی بھرپور مدد کی۔
آج بھی پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان قائم آر سی ڈی شاہراہ کی یاد بہت سے دلوں میں تازہ ہے۔ جب کراچی تا تہران و استنبول تک ٹرانسپورٹ اس سڑک پر رواں دواں رہتی تھی۔ ایران کے ساتھ ہماری زمینی سرحد کے علاوہ سمندری سرحد بھی لگتی ہے۔
فی الحال تفتان کے راستے سڑک اور ٹرین کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں، اگر اس کے علاوہ دیگر سرحدی پوائنٹس بھی کھولے جائیں اور سمندری راستے سے بھی چاہ بہار اور گوادر تجارتی پوائنٹس قائم کیے جائیں تو دونوں ممالک کے درمیان بڑی اچھی کاروباری راہیں کھل سکتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایران کے صدر محترم ابراہیم رئیسی نے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ردیگ پشین کے مقام پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان قانونی طریقے سے تجارت کو فروغ ملے اور اسمگلنگ پر قابو پایا جا سکے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ایران سے 100 میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بولان گبد کا بھی افتتاح کیا گیا جس سے سرحدی علاقے اور پنجگور گوادر کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ اس وقت بھی دونوں ممالک اس تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
اس طویل سرحد پٹی پر درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں زمینی اور سمندری راستے سے روزانہ ہزاروں لٹر پٹرول اسمگل ہوکر پاکستان لایا جاتا ہے۔ یہ کام پہلے علاقے کے مقامی قبائل کا ذریعہ معاش تھا۔ اب اس پر بڑے بڑے اسمگلر اور مافیاز نے قبضہ کر لیا ہے جو معمولی معاوضہ غریبوں کو دیکر خود اربوں روپے کماتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان عرصہ دراز سے گیس پائپ لائن بچھا کر ایران سے گیس کی فراہمی کا کام ایران مکمل کر چکا ہے۔ اب پاکستان پر جرمانے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے اسے فوری کام مکمل کرنا چاہیے۔
اس وقت امریکا بھی عالمی حالات کی وجہ سے سعودی عرب ایران تعلقات میں بہتری کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی گرمجوشی پر خاموش ہے تو پاکستان گیس پائپ لائن والا کام مکمل کر کے ارزاں نرخوں پر ایران سے گیس حاصل کر سکتا ہے۔
چین بھی سی پیک کو اسی طرح افغانستان، ایران، ترکی تک لے جانے کا خواہاں ہے جس کی بدولت پاکستان میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کا باب کھل سکتا ہے۔ گرچہ یہ سب کچھ بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا کے لیے آسانی سے قابل قبول نہ ہو گا۔ مگر روس اور چین کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی کی وجہ سے امریکا کے لیے بھی آسان نہ ہو گا کہ جنوبی ایشیا میں من مانی کارروائیاں کر سکے۔
اس وقت روس، چین اور ایران خطے کے وہ ممالک ہیں جو امریکی دباؤ سہنے کے باوجود اپنی پالیسیاں خود بنا رہے ہیں، اگر دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدے کو جلد حتمی شکل دیں تو بھوک و افلاس اور مہنگائی جیسے مسائل میں کمی ممکن ہے نہ صرف مہنگائی میں کمی آئے گی بلکہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا، اِس میں شائبہ نہیں کہ دونوں ممالک میں تجارتی حجم استعداد کے مطابق کم ہے اگر تجارتی حجم استعداد کے مطابق بنانا ہے تو دونوں ممالک کو حائل رکاوٹیں ختم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
دونوں ممالک کوشش کریں کہ ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی میں تجارت ہو تاکہ زرِ مبادلہ پر دباؤ میں کمی آئے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک مشترکہ سرحد کی سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کریں اگر امن لانا اور تشدد ختم کرنا ہے تو دونوں ملکوں کو بارڈر میکانزم پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔
پاکستانی سپہ سالار سید عاصم منیر نے، ایرانی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری سمیت ایران کی عسکری قیادت سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔
دونوں اطراف کے فوجی کمانڈروں نے انٹیلی جنس شیئرنگ اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف موثر کارروائیوں کے ذریعے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے اور سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے راستے تلاش کرنے کا عزم کیا۔ بات چیت کے دوران علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان ایران دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
بلاشبہ پاکستانی سپہ سالار سید عاصم منیر نے اپنے دورہ ایران کے دوران دہشت گردی کے خاتمے پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صائب ہیں۔ دراصل دہشت گردی کی صرف ایک جہت سے دونوں ممالک کو سابقہ نہیں پڑ رہا ہے بلکہ خاص طور پر پاکستان کو علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر اس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ ایران کو علاقائی طور پر اس کا سامنا ہے۔
پاکستان، بلوچستان کے حالات کی وجہ سے پریشان ہے اور اس کی خواہش ہے کہ بلوچستان کے معاملات میں اس کو ایران کی جانب سے مکمل طور پر مدد حاصل ہو، تا کہ وہ نا صرف اپنے علاقہ میں امن و امان کو قائم رکھ سکے بلکہ اپنی معاشی ترقی کے اہم منصوبہ سی پیک کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو بھی ختم کر سکے۔
ایران کو بھی سیستان میں اسی نوعیت کا مسئلہ در پیش ہے۔ جہاں تک مذہبی انتہا پسندی سے جڑے امور کا تعلق ہے تو اس پر جب تک پاکستان ایران، سعودی عرب اور افغانستان ایک میز پر نہیں بیٹھیں گے، اس وقت تک پاکستان میں یہ عفریت بار بار سر اٹھاتا رہے گا اور اس عفریت کو کوئی بھی کبھی پاکستان کی قومی ترقی کی راہ میں لا کر کھڑا کرتا رہے گا۔
ایران سے متصل بلوچستان کا سرحدی علاقہ قریباً ایک ہزار کلومیٹر پر محیط ہے۔ مقامی آبادی کی معیشت سرحد پر قائم انٹری پوائنٹس سے ہونے والی دوطرفہ تجارت سے وابستہ ہے۔ امریکی معاشی پابندیوں کے بعد دوطرفہ تجارت کو سب سے زیادہ نقصان سرحدی علاقوں میں جاری حالیہ شورش نے پہنچایا ہے۔
یہاں مقامی آبادی کی معیشت کا 90 فیصد دار و مدار سرحدی تجارت پر ہے۔ ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی علاقے کیچ، پنجگور، گوادر، تفتان اور دیگر علاقوں میں قائم بارڈر انٹری پوائنٹس سے ہونے والی تجارت گزشتہ ایک سال سے شدید متاثر ہے۔
مقامی لوگوں کے تحفظات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اکثر اوقات بدامنی کے واقعات کے بعد بارڈر انٹری پوائنٹس کئی کئی یوم تک بند رہتے ہیں۔ جب یہ انٹری پوائنٹس بند ہو جاتے ہیں تو مقامی آبادی اس قدر متاثر ہوتی ہے کہ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ موجودہ حالات میں خطے کا کوئی ملک مزید تناؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایران پر عائد امریکی معاشی پابندیوں کے اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔
ایران میں پاکستان کے حوالے سے بہت سی امیدیں موجود ہیں۔ ایران انقلاب کے بعد سے مغربی دنیا کی مخالفت کا شکار رہا ہے اور وہ ان حالات میں اس کا معترف ہے کہ پاکستان کی جانب سے کبھی بھی اپنے برادر ملک کے لیے امریکی و مغربی دباؤ کے باوجود ان ممالک کے ایما پر کوئی مسئلہ نہیں پیدا کیا گیا ہے اور پاکستان نے اس حوالے سے ہمیشہ دباؤ کو مسترد کردیا ہے۔
ایران میں شہباز حکومت کے اس فیصلہ کو بہت مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان بارٹر ٹریڈ کی جانب بڑھنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور ایک دوسرے سے کرنسی کے بجائے اگر اشیا کی تجارت صحیح معنوں میں رواں دواں ہوجائے تو دونوں ممالک کے عوام کو بہت کچھ سستا دستیاب ہو سکتا ہے جو کہ اس وقت مہنگا میسر ہے اور مہنگائی کی موجودہ لہر نے تو اس کو اور زیادہ ضروری کردیا ہے۔
ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں ابھی تک بہت زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پاکستان کی جانب سے اس پر جلد از جلد کام مکمل کیا جائے جس سے ایرانی گیس کو اتنی بڑی مارکیٹ دستیاب ہو جائے جب کہ پاکستان کو بھی توانائی کے بحران سے نجات نصیب ہو۔ گوادر میں بجلی کے حالیہ اقدامات سے وہاں یہ تصور قائم کیا جا رہا ہے کہ گیس پائپ لائن پر بھی اب جلد ہی پیش رفت ہوگی۔
پاکستان کو بجلی اور گیس کی کمی کا سامنا ہے اور یہ قلت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، ایران کی طرف سے بجلی کی فراخدلانہ پیشکش سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے اِس کے عوض ایران کو زرعی اور صنعتی پیداوار برآمد کی جا سکتی ہے۔
پاکستان سے ایران آم، کینو، چاول، سیمنٹ اور کپڑا وغیرہ درآمد کرتا ہے جس میں مزید بہتری کی کافی گنجائش ہے اگر دونوں ممالک بلا تعطل تجارتی وفود کا تبادلہ کرتے رہیں اور خطے کی صورتحال کو معاہدوں کی تکمیل میں آڑے نہ آنے دیں تو باہمی تجارت میں اضافہ ممکن ہے، سرحدوں پر نقل و حرکت کے لیے بنائے مقامات پر مشترکہ مارکیٹیں بنانے سے نہ صرف غیر قانونی نقل و حمل ختم کی جا سکتی ہے بلکہ اربوں کا ریونیو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کی دوستی کے اچھے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، اب پاکستان اور ایران کے درمیان بھی ایک عرصہ بعد تعلقات میں دوبارہ وہی گرمجوشی نظر آنے لگی ہے جو کبھی پاک ایران تعلقات کا خاصہ تھی۔ ایران ہمارا پڑوسی برادر اسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور1965کی جنگ میں پاکستان کی بھرپور مدد کی۔
آج بھی پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان قائم آر سی ڈی شاہراہ کی یاد بہت سے دلوں میں تازہ ہے۔ جب کراچی تا تہران و استنبول تک ٹرانسپورٹ اس سڑک پر رواں دواں رہتی تھی۔ ایران کے ساتھ ہماری زمینی سرحد کے علاوہ سمندری سرحد بھی لگتی ہے۔
فی الحال تفتان کے راستے سڑک اور ٹرین کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں، اگر اس کے علاوہ دیگر سرحدی پوائنٹس بھی کھولے جائیں اور سمندری راستے سے بھی چاہ بہار اور گوادر تجارتی پوائنٹس قائم کیے جائیں تو دونوں ممالک کے درمیان بڑی اچھی کاروباری راہیں کھل سکتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایران کے صدر محترم ابراہیم رئیسی نے پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ردیگ پشین کے مقام پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان قانونی طریقے سے تجارت کو فروغ ملے اور اسمگلنگ پر قابو پایا جا سکے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ایران سے 100 میگاواٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بولان گبد کا بھی افتتاح کیا گیا جس سے سرحدی علاقے اور پنجگور گوادر کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ اس وقت بھی دونوں ممالک اس تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
اس طویل سرحد پٹی پر درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں زمینی اور سمندری راستے سے روزانہ ہزاروں لٹر پٹرول اسمگل ہوکر پاکستان لایا جاتا ہے۔ یہ کام پہلے علاقے کے مقامی قبائل کا ذریعہ معاش تھا۔ اب اس پر بڑے بڑے اسمگلر اور مافیاز نے قبضہ کر لیا ہے جو معمولی معاوضہ غریبوں کو دیکر خود اربوں روپے کماتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان عرصہ دراز سے گیس پائپ لائن بچھا کر ایران سے گیس کی فراہمی کا کام ایران مکمل کر چکا ہے۔ اب پاکستان پر جرمانے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے اسے فوری کام مکمل کرنا چاہیے۔
اس وقت امریکا بھی عالمی حالات کی وجہ سے سعودی عرب ایران تعلقات میں بہتری کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی گرمجوشی پر خاموش ہے تو پاکستان گیس پائپ لائن والا کام مکمل کر کے ارزاں نرخوں پر ایران سے گیس حاصل کر سکتا ہے۔
چین بھی سی پیک کو اسی طرح افغانستان، ایران، ترکی تک لے جانے کا خواہاں ہے جس کی بدولت پاکستان میں صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کا باب کھل سکتا ہے۔ گرچہ یہ سب کچھ بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا کے لیے آسانی سے قابل قبول نہ ہو گا۔ مگر روس اور چین کے درمیان دوستی اور ہم آہنگی کی وجہ سے امریکا کے لیے بھی آسان نہ ہو گا کہ جنوبی ایشیا میں من مانی کارروائیاں کر سکے۔
اس وقت روس، چین اور ایران خطے کے وہ ممالک ہیں جو امریکی دباؤ سہنے کے باوجود اپنی پالیسیاں خود بنا رہے ہیں، اگر دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدے کو جلد حتمی شکل دیں تو بھوک و افلاس اور مہنگائی جیسے مسائل میں کمی ممکن ہے نہ صرف مہنگائی میں کمی آئے گی بلکہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا، اِس میں شائبہ نہیں کہ دونوں ممالک میں تجارتی حجم استعداد کے مطابق کم ہے اگر تجارتی حجم استعداد کے مطابق بنانا ہے تو دونوں ممالک کو حائل رکاوٹیں ختم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
دونوں ممالک کوشش کریں کہ ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی میں تجارت ہو تاکہ زرِ مبادلہ پر دباؤ میں کمی آئے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک مشترکہ سرحد کی سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کریں اگر امن لانا اور تشدد ختم کرنا ہے تو دونوں ملکوں کو بارڈر میکانزم پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔