حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت کی برکات
اس سے ہمیں قرآن و سنّت کے بعد صالحین یعنی دین کے ماہرین کے فیصلوں پر عمل کرنے کا درس ملتا ہے
محرم الحرام ان چار محترم مہینوں میں شامل ہے جن کو قرآن کریم نے قابل احترام قرار دیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں محرم الحرام کی مناسبت سے دو ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے ہمیں معاشرتی زندگی گزارنے کا عملی درس ملتا ہے۔
پہلا واقعہ خلیفۂ دوم سیّدنا عمر فاروقؓ کی شہادت جب کہ دوسرا واقعہ نواسہ رسول کریمؐ سیّدنا حسینؓ ، آپؓ کے اہل خانہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی کے چند ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے جن کا ہماری عملی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے، یہ تذکرہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔
٭ قیام امن کی عملی کاوشیں:
اسلام میں امن کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ آپؓ کے دور خلافت میں جو علاقے اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آئے یا جو پہلے سے موجود تھے، ان میں عدالتی نظام کو فعال کیا۔
مفتوحہ علاقوں میں بنیادی طور پر دو کام کیے جاتے، وہاں کے باسیوں کو دین اسلام کی تعلیم سے آشنا کیا جاتا اور دوسرا وہاں عدالتیں قائم کرکے قیام امن اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا۔ آپؓ نے قانون کے علمی ماخذ کے طور پر قرآن و سنت کے بعد قضائے صالحین کو درجہ دیا۔
اس سے ہمیں قرآن و سنّت کے بعد صالحین یعنی دین کے ماہرین کے فیصلوں پر عمل کرنے کا درس ملتا ہے۔ اسلام، باہمی مشاورت پر زور دیتا ہے تاکہ خیر کے پہلو سامنے آئیں اور نقصان دہ پہلو سے بچا جا سکے۔
حضرت عمرؓ کی زندگی اس کی عملی نمونہ تھی، خلیفہ وقت میں عدالت، دیانت، تقویٰ، علم دین سے واقفیت، انتظامی امور میں اہلیت اور احکام شریعت کے نفاذ کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جو اسے عوام ممتاز کر دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپؓ اپنے مشیروں کی بات کو اہمیت دیتے تھے۔
٭ سربراہ کا سادہ معیار زندگی:
سربراہ کے طرز زندگی کے اثرات رعایا پر پڑتے ہیں، اگر حکم ران انصاف پسند، قناعت پسند اور سادگی پسند ہو تو عوام میں ظلم و تشدد، خواہش پرستی اور فیشن پرستی جنم نہیں لیتی جس کی وجہ سے معاشرہ سکون و راحت کی زندگی بسر کرتا ہے۔
حضرت عمرؓ باوجود اس کے کہ بہت بڑی سلطنت کے فرماں روا تھے لیکن مزاجاً سادگی اور قناعت پسندی کے خُوگر تھے۔ تاریخ ایسے کئی واقعات کی شہادت دیتی ہے۔ ہرمزان سلطنت اہواز کا حکم ران جب قید ہوکر آیا تو اس نے دیکھا کہ آپؓ مسجد کے فرش پر لیٹے ہوئے آرام فرما رہے ہیں۔ بیت المقدس کی فتح کا مشہور واقعہ تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے۔
سن 46 ھ میں جب حضرت عمرو بن عاصؓ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا تو وہاں کے اہل کتاب علماء نے کہا: تم بلا وجہ تکلیف اٹھاتے ہو، بیت المقدس کو فتح کرنے والے کا حلیہ اور علامات ہماری کتابوں میں موجود ہیں، اگر تمہارے امام میں وہ سب باتیں موجود ہیں تو ہم آپؓ کو بیت المقدس حوالے کر دیں گے، چناں چہ آپؓ کو اس بارے اطلاع کی گئی۔
آپؓ اپنے ایک غلام کے ہم راہ ایک اونٹ پر سوار ہو کر عازم سفر ہوئے، زادراہ میں چھوہارے اور جو کے سوا کچھ نہ تھا، اونٹ پر سوار ہونے کی باری مقرر کی، کبھی آپؓ خود سوار ہوتے اور غلام پیدل چلتا اور کبھی غلام سواری پر سوار ہوتا اور آپؓ پیدل چلتے، آپؓ نے جو کرتا زیب تن کیا ہوا تھا اس میں پیوند لگے ہوئے تھے، جب بیت المقدس کے قریب پہنچے تو مسلمانوں نے آپؓ کے لیے ایک عمدہ جوڑے اور گھوڑے کا انتظام کیا۔
آپؓ نے نیا لباس پہنا، گھوڑے پر سوار ہوئے چند قدم کے بعد فرمانے لگے کہ میرے نفس پر اس کا بُرا اثر پڑ رہا ہے لہذا مجھے میرے وہی کپڑے اور اونٹ واپس کرو، چناں چہ اسی پر سوار ہوئے اور بیت المقدس پہنچے۔
اہل کتاب علماء نے آپؓ کا حلیہ مبارک اور علامات دیکھیں تو برملا کہہ اٹھے کہ ہاں فاتح بیت المقدس یہی ہیں اور آپؓ کے لیے اس کے دروازے کھول دیے۔ اس سے ہمیں سربراہ کے عام معیار زندگی، عوام میں گھل میں کر رہنے اور صبر و شُکر کا درس ملتا ہے۔
٭ انسانی حقوق میں مساوات:
آپؓ نے اسلام کی نافذ شدہ تعلیم مساوات کو مزید آگے بڑھایا، چناں چہ کسی علاقے کے حاکم، گورنر بل کہ خود خلیفۃ المسلمین کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دے، جو وظیفہ بدریوں کو ملتا وہی آپؓ لیتے تھے۔ اس سے ہمیں مساوات کا درس ملتا ہے۔
٭ حقوق نسواں کا حقیقی تصور:
اسلام میں خواتین کو بہت بلند مقام حاصل ہے اور خواتین میں سب سے اہم عنصر حیا اور تقدس کا ہے۔ آپؓ نے ان کے عزت اور حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے حجاب کو لازمی سمجھا تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کی رائے کی موافقت میں قرآن کریم نازل فرما کر حجاب کو ضروری قرار دیا۔ خواتین کے لیے رائے کی آزادی بھی حقوق نسواں کے ذیل میں آتی ہے، چناںچہ ایک مرتبہ جب آپؓ نے دوران خطبہ خواتین کے مہنگے حق مہر کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تو ایک عورت نے کہا: اے عمرؓ! آپ ہمارے مہروں کو کس طرح کم کرسکتے ہیں حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سونے کے ڈھیر تک مہر لینے کا حق دیا ہے۔ اور قرآن کریم سورۃ النساء کی آیت بھی تلاوت کی۔ حضرت عمرؓ اس پر بہت خوش ہوئے اور خاتون کو عزت بخشتے ہوئے فرمایا: مدینہ کی خواتین عمر سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتی ہیں۔ اس سے ہمیں حجاب، آزادی اظہار رائے اور خواتین کی سماجی عزت و احترام کا درس ملتا ہے۔
٭ مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق:
آپؓ 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل زمین پر حکم رانی کرنے والے انصاف پرور حکم ران تھے۔ اس کے باوجود آپؓ مفتوحہ علاقوں کی کثرت پر زور دینے کے بہ جائے ان کے باسیوں کی تربیت کو ترجیح دیتے۔ آپؓ نے دمشق، بصرہ، بعلبک، شرق، اُردن، یرموک، قادسیہ، اہواز، مدائن، ایران، عراق، تکیت، انطاکیہ، حلب، بیت المقدس، نیشاپور، الجزیرہ، قیساریہ، مصر، اسکندریہ، نہاوند اور دیگر علاقوں کو فتح کیا۔
ان میں تربیتی اور تعلیمی مراکز قائم کیے، کھلی کچہریاں لگوائیں، فوری انصاف کو یقینی بنایا، عوام الناس کی شکایات کو دور کرنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورتوں کو عوام کی دہلیز تک پہنچایا۔ اس سے ہمیں اپنے نظام زندگی میں انصاف، تعلیم اور نظم و نسق کا درس ملتا ہے۔
٭ اقلیتوں سے حسن سلوک:
اسلام ایسے کفار جو مسلمانوں سے نہ لڑیں ان سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے، حضرت عمرؓ نے حمص کو حاصل کرنے کے لیے بہ طور سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ کو مقرر فرمایا، انہوں نے اسے فتح کیا اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا لیکن جب انہیں جنگ یرموک کے لیے حمص چھوڑنا پڑا تو انہوں نے یہ کہہ کر جزیہ واپس کردیا کہ اب جب ہم آپ کے جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری پوری نہیں کر سکتے تو ہمیں جزیہ لینے کا بھی حق نہیں۔ جب مسلمان حمص سے لوٹنے لگے تو وہاں کے غیر مسلم بھی اس عادلانہ نظام سے محروم ہونے پر رونے لگے۔
بیت المقدس کی فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے اہل کتاب کے مذہبی پیشوا کے ساتھ شہر کی متعدد عبادت گاہوں کو دیکھا، آپؓ معائنہ فرما رہے تھے کہ اتفاق سے نماز کا وقت ہوگیا، انہوں نے آپؓ اور آپ کے رفقاء کے لیے صفیں بھی بچھا دیں کہ آپ یہاں نماز ادا کرلیں۔ لیکن آپؓ نے یہ کہہ کر انکار فرما دیا کہ اگر ہم نے یہاں نماز پڑھ لی تو کل کو کوئی یہاں مسجد بنانا نہ شروع کردے، میں نہیں چاہتا کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں ہم کسی طرح کا حق قائم کریں۔
اسی طرح اہل ایلیا کے غیر مسلموں سے آپؓ نے معاہدہ امن کیا کہ یہ امن جو ان کو دیا جاتا ہے، ان کی جان، مال، ان کے گرجاؤں اور ان کی صلیبوں، ان کے بیماروں، تن درستوں اور ان کے جملہ اہل مذاہب کے لیے ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے گرجا گھروں میں رہائش نہ رکھی جائے، ان کو گرایا نہ جائے، انہیں اور ان کے احاطوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور نہ ہی ان پر دین کے بارے جبر کیا جائے۔ اس سے ہمیں اقلیتوں سے حسن سلوک کا درس ملتا ہے۔
٭ سماجی و رفاہی خدمات:
قرآن کریم کی تعلیم کے لیے مکاتب و مدارس قائم کیے، مدرسین صاحبان اور ائمہ مساجد کی تن خواہیں مقرر فرمائیں۔ اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت نبویؐ سے شروع فرمایا۔ مسجد حرام اور مسجد نبویؐ کی توسیع فرمائی۔ عرب و عجم کے سنگم پر مرکز علم کوفہ کو آباد فرمایا۔ دریائے نیل کو بحیرہ قلزم سے ملانے کے لیے نہر سویز کھدوائی، جس کی وجہ سے نفع بخش تجارت نے فروغ پایا۔ محکمہ ڈاک قائم کیا۔
شہر کے اندرونی حالات کو درست رکھنے کے لیے محکمہ پولیس قائم کیا اور فوج کو سرحدیں اور محاذ سپرد کیے۔ بیت المال تعمیر کرائے۔ معذور اور ضعیف لوگوں کے وظائف بیت المال سے مقرر فرمائے۔ مسافروں کے لیے شاہ راہوں پر مسافر خانے تعمیر کرائے۔
لاوارث بچوں کے تربیتی مراکز قائم کیے۔ دریائے نیل کے نام خط جاری فرمایا اور قیصر و کسری جیسی سپر پاور طاقتیں پاش پاش ہوئیں۔ مورخین کے محتاط اندازے کے مطابق آپؓ کے زمانۂ خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے۔900 جامع مساجد اور4000 عام مساجد تعمیر ہوئیں۔ اس سے ہمیں تعمیر وطن، خوش حالی اور ترقی، اہل علم کی قدر، مستحق افراد کی معاونت اور یتیموں کی کفالت کا درس ملتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حالات حاضر کے مسائل کا حل سیرت عمرؓ میں مضمر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکم ران اسے اپنی عملی زندگی میں بہ رُوئے کار لائیں۔ ایسا کیا گیا تو ہماری دنیا سنور جائے گی، ہم ترقی کریں گے، ضرورت مندوں کی معاونت ہوگی اور معاشرے میں انصاف بھی عام ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں مزاج فاروقیؓ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو انصاف پسند معاشرہ بنائے۔ آمین
پہلا واقعہ خلیفۂ دوم سیّدنا عمر فاروقؓ کی شہادت جب کہ دوسرا واقعہ نواسہ رسول کریمؐ سیّدنا حسینؓ ، آپؓ کے اہل خانہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی کے چند ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے جن کا ہماری عملی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے، یہ تذکرہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔
٭ قیام امن کی عملی کاوشیں:
اسلام میں امن کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ آپؓ کے دور خلافت میں جو علاقے اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آئے یا جو پہلے سے موجود تھے، ان میں عدالتی نظام کو فعال کیا۔
مفتوحہ علاقوں میں بنیادی طور پر دو کام کیے جاتے، وہاں کے باسیوں کو دین اسلام کی تعلیم سے آشنا کیا جاتا اور دوسرا وہاں عدالتیں قائم کرکے قیام امن اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا۔ آپؓ نے قانون کے علمی ماخذ کے طور پر قرآن و سنت کے بعد قضائے صالحین کو درجہ دیا۔
اس سے ہمیں قرآن و سنّت کے بعد صالحین یعنی دین کے ماہرین کے فیصلوں پر عمل کرنے کا درس ملتا ہے۔ اسلام، باہمی مشاورت پر زور دیتا ہے تاکہ خیر کے پہلو سامنے آئیں اور نقصان دہ پہلو سے بچا جا سکے۔
حضرت عمرؓ کی زندگی اس کی عملی نمونہ تھی، خلیفہ وقت میں عدالت، دیانت، تقویٰ، علم دین سے واقفیت، انتظامی امور میں اہلیت اور احکام شریعت کے نفاذ کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جو اسے عوام ممتاز کر دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپؓ اپنے مشیروں کی بات کو اہمیت دیتے تھے۔
٭ سربراہ کا سادہ معیار زندگی:
سربراہ کے طرز زندگی کے اثرات رعایا پر پڑتے ہیں، اگر حکم ران انصاف پسند، قناعت پسند اور سادگی پسند ہو تو عوام میں ظلم و تشدد، خواہش پرستی اور فیشن پرستی جنم نہیں لیتی جس کی وجہ سے معاشرہ سکون و راحت کی زندگی بسر کرتا ہے۔
حضرت عمرؓ باوجود اس کے کہ بہت بڑی سلطنت کے فرماں روا تھے لیکن مزاجاً سادگی اور قناعت پسندی کے خُوگر تھے۔ تاریخ ایسے کئی واقعات کی شہادت دیتی ہے۔ ہرمزان سلطنت اہواز کا حکم ران جب قید ہوکر آیا تو اس نے دیکھا کہ آپؓ مسجد کے فرش پر لیٹے ہوئے آرام فرما رہے ہیں۔ بیت المقدس کی فتح کا مشہور واقعہ تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے۔
سن 46 ھ میں جب حضرت عمرو بن عاصؓ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا تو وہاں کے اہل کتاب علماء نے کہا: تم بلا وجہ تکلیف اٹھاتے ہو، بیت المقدس کو فتح کرنے والے کا حلیہ اور علامات ہماری کتابوں میں موجود ہیں، اگر تمہارے امام میں وہ سب باتیں موجود ہیں تو ہم آپؓ کو بیت المقدس حوالے کر دیں گے، چناں چہ آپؓ کو اس بارے اطلاع کی گئی۔
آپؓ اپنے ایک غلام کے ہم راہ ایک اونٹ پر سوار ہو کر عازم سفر ہوئے، زادراہ میں چھوہارے اور جو کے سوا کچھ نہ تھا، اونٹ پر سوار ہونے کی باری مقرر کی، کبھی آپؓ خود سوار ہوتے اور غلام پیدل چلتا اور کبھی غلام سواری پر سوار ہوتا اور آپؓ پیدل چلتے، آپؓ نے جو کرتا زیب تن کیا ہوا تھا اس میں پیوند لگے ہوئے تھے، جب بیت المقدس کے قریب پہنچے تو مسلمانوں نے آپؓ کے لیے ایک عمدہ جوڑے اور گھوڑے کا انتظام کیا۔
آپؓ نے نیا لباس پہنا، گھوڑے پر سوار ہوئے چند قدم کے بعد فرمانے لگے کہ میرے نفس پر اس کا بُرا اثر پڑ رہا ہے لہذا مجھے میرے وہی کپڑے اور اونٹ واپس کرو، چناں چہ اسی پر سوار ہوئے اور بیت المقدس پہنچے۔
اہل کتاب علماء نے آپؓ کا حلیہ مبارک اور علامات دیکھیں تو برملا کہہ اٹھے کہ ہاں فاتح بیت المقدس یہی ہیں اور آپؓ کے لیے اس کے دروازے کھول دیے۔ اس سے ہمیں سربراہ کے عام معیار زندگی، عوام میں گھل میں کر رہنے اور صبر و شُکر کا درس ملتا ہے۔
٭ انسانی حقوق میں مساوات:
آپؓ نے اسلام کی نافذ شدہ تعلیم مساوات کو مزید آگے بڑھایا، چناں چہ کسی علاقے کے حاکم، گورنر بل کہ خود خلیفۃ المسلمین کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دے، جو وظیفہ بدریوں کو ملتا وہی آپؓ لیتے تھے۔ اس سے ہمیں مساوات کا درس ملتا ہے۔
٭ حقوق نسواں کا حقیقی تصور:
اسلام میں خواتین کو بہت بلند مقام حاصل ہے اور خواتین میں سب سے اہم عنصر حیا اور تقدس کا ہے۔ آپؓ نے ان کے عزت اور حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے حجاب کو لازمی سمجھا تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کی رائے کی موافقت میں قرآن کریم نازل فرما کر حجاب کو ضروری قرار دیا۔ خواتین کے لیے رائے کی آزادی بھی حقوق نسواں کے ذیل میں آتی ہے، چناںچہ ایک مرتبہ جب آپؓ نے دوران خطبہ خواتین کے مہنگے حق مہر کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تو ایک عورت نے کہا: اے عمرؓ! آپ ہمارے مہروں کو کس طرح کم کرسکتے ہیں حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سونے کے ڈھیر تک مہر لینے کا حق دیا ہے۔ اور قرآن کریم سورۃ النساء کی آیت بھی تلاوت کی۔ حضرت عمرؓ اس پر بہت خوش ہوئے اور خاتون کو عزت بخشتے ہوئے فرمایا: مدینہ کی خواتین عمر سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتی ہیں۔ اس سے ہمیں حجاب، آزادی اظہار رائے اور خواتین کی سماجی عزت و احترام کا درس ملتا ہے۔
٭ مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق:
آپؓ 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل زمین پر حکم رانی کرنے والے انصاف پرور حکم ران تھے۔ اس کے باوجود آپؓ مفتوحہ علاقوں کی کثرت پر زور دینے کے بہ جائے ان کے باسیوں کی تربیت کو ترجیح دیتے۔ آپؓ نے دمشق، بصرہ، بعلبک، شرق، اُردن، یرموک، قادسیہ، اہواز، مدائن، ایران، عراق، تکیت، انطاکیہ، حلب، بیت المقدس، نیشاپور، الجزیرہ، قیساریہ، مصر، اسکندریہ، نہاوند اور دیگر علاقوں کو فتح کیا۔
ان میں تربیتی اور تعلیمی مراکز قائم کیے، کھلی کچہریاں لگوائیں، فوری انصاف کو یقینی بنایا، عوام الناس کی شکایات کو دور کرنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورتوں کو عوام کی دہلیز تک پہنچایا۔ اس سے ہمیں اپنے نظام زندگی میں انصاف، تعلیم اور نظم و نسق کا درس ملتا ہے۔
٭ اقلیتوں سے حسن سلوک:
اسلام ایسے کفار جو مسلمانوں سے نہ لڑیں ان سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے، حضرت عمرؓ نے حمص کو حاصل کرنے کے لیے بہ طور سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ کو مقرر فرمایا، انہوں نے اسے فتح کیا اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا لیکن جب انہیں جنگ یرموک کے لیے حمص چھوڑنا پڑا تو انہوں نے یہ کہہ کر جزیہ واپس کردیا کہ اب جب ہم آپ کے جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری پوری نہیں کر سکتے تو ہمیں جزیہ لینے کا بھی حق نہیں۔ جب مسلمان حمص سے لوٹنے لگے تو وہاں کے غیر مسلم بھی اس عادلانہ نظام سے محروم ہونے پر رونے لگے۔
بیت المقدس کی فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے اہل کتاب کے مذہبی پیشوا کے ساتھ شہر کی متعدد عبادت گاہوں کو دیکھا، آپؓ معائنہ فرما رہے تھے کہ اتفاق سے نماز کا وقت ہوگیا، انہوں نے آپؓ اور آپ کے رفقاء کے لیے صفیں بھی بچھا دیں کہ آپ یہاں نماز ادا کرلیں۔ لیکن آپؓ نے یہ کہہ کر انکار فرما دیا کہ اگر ہم نے یہاں نماز پڑھ لی تو کل کو کوئی یہاں مسجد بنانا نہ شروع کردے، میں نہیں چاہتا کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں ہم کسی طرح کا حق قائم کریں۔
اسی طرح اہل ایلیا کے غیر مسلموں سے آپؓ نے معاہدہ امن کیا کہ یہ امن جو ان کو دیا جاتا ہے، ان کی جان، مال، ان کے گرجاؤں اور ان کی صلیبوں، ان کے بیماروں، تن درستوں اور ان کے جملہ اہل مذاہب کے لیے ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے گرجا گھروں میں رہائش نہ رکھی جائے، ان کو گرایا نہ جائے، انہیں اور ان کے احاطوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور نہ ہی ان پر دین کے بارے جبر کیا جائے۔ اس سے ہمیں اقلیتوں سے حسن سلوک کا درس ملتا ہے۔
٭ سماجی و رفاہی خدمات:
قرآن کریم کی تعلیم کے لیے مکاتب و مدارس قائم کیے، مدرسین صاحبان اور ائمہ مساجد کی تن خواہیں مقرر فرمائیں۔ اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت نبویؐ سے شروع فرمایا۔ مسجد حرام اور مسجد نبویؐ کی توسیع فرمائی۔ عرب و عجم کے سنگم پر مرکز علم کوفہ کو آباد فرمایا۔ دریائے نیل کو بحیرہ قلزم سے ملانے کے لیے نہر سویز کھدوائی، جس کی وجہ سے نفع بخش تجارت نے فروغ پایا۔ محکمہ ڈاک قائم کیا۔
شہر کے اندرونی حالات کو درست رکھنے کے لیے محکمہ پولیس قائم کیا اور فوج کو سرحدیں اور محاذ سپرد کیے۔ بیت المال تعمیر کرائے۔ معذور اور ضعیف لوگوں کے وظائف بیت المال سے مقرر فرمائے۔ مسافروں کے لیے شاہ راہوں پر مسافر خانے تعمیر کرائے۔
لاوارث بچوں کے تربیتی مراکز قائم کیے۔ دریائے نیل کے نام خط جاری فرمایا اور قیصر و کسری جیسی سپر پاور طاقتیں پاش پاش ہوئیں۔ مورخین کے محتاط اندازے کے مطابق آپؓ کے زمانۂ خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے۔900 جامع مساجد اور4000 عام مساجد تعمیر ہوئیں۔ اس سے ہمیں تعمیر وطن، خوش حالی اور ترقی، اہل علم کی قدر، مستحق افراد کی معاونت اور یتیموں کی کفالت کا درس ملتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حالات حاضر کے مسائل کا حل سیرت عمرؓ میں مضمر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکم ران اسے اپنی عملی زندگی میں بہ رُوئے کار لائیں۔ ایسا کیا گیا تو ہماری دنیا سنور جائے گی، ہم ترقی کریں گے، ضرورت مندوں کی معاونت ہوگی اور معاشرے میں انصاف بھی عام ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں مزاج فاروقیؓ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو انصاف پسند معاشرہ بنائے۔ آمین