افغان حکومت دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرے
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ معروضی تربیت ہماری پیشہ ورانہ مہارت کا خاصا ہے، ہمیں قومی سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے، دہشت گرد گروپوں سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہے، معاشی بحالی کے لیے حکومت سے تعاون کریں گے، وہ کور کمانڈر کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔
کور کمانڈرز کانفرنس نے کہا کہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں کی پناہ گاہیں، انھیں کارروائی کی آزادی ملنا، دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیں۔
بلاشبہ پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجز کے حوالے ریشنل اپروچ رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک کی سلامتی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے اور پوری قوت کے ساتھ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے قلع قمع کے لیے کارروائی کی جائے تاکہ پاکستان میں امن و امان بحال ہو اور ترقی و خوشحال کا دور شروع ہوسکے۔
کور کمانڈرز کانفرنس میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور عوامی امنگوں کے مطابق دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے جس عزم کا اعادہ کیا ہے وہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کے بعد اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی بحث کا جواز باقی نہیں رہا ہے۔
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جب کوئی ریاست معاشی بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ معاشی زوال کی تاب نہ لا کر کئی سلطنتیں بکھر گئیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سوویت یونین ہے، اس کے علاوہ سوڈان بھی تقسیم ہوا، انڈونیشیا بھی مشرقی تیمور کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگیا۔
پاکستان کا معاشی عدم استحکام اتنا گہرا اور خطرناک نہیں ہے کہ اس پر قابو نہ پایا جاسکے تاہم اس عدم استحکام کے منفی اثرات بھی سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان میں معاشی اور سیاسی بحران پیدا کرنے میں خارجی عوامل تو واضح ہیں لیکن داخلی عوامل بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
پاکستان کے اندر ایک بااثر گروہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر انتہا پسندی کا سرپرست بنا رہا، یہ گروہ ریاستی سسٹم میں داخل ہوکر انتہاپسند نظریات کی سرپرستی کرتا رہا، دہشت گردوں کو گلوریفائی کراتا رہا،ریاستی میکنزم پر اثرانداز ہوکر انتہاپسند اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ہنڈلرز اورمنصوبہ سازوں کو بچاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں، ٹی ٹی پی افغانستان میں پناہ گاہوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی ہے۔
اس تنظیم کے دہشت گردوں کے پاس افغانستان میں امریکی فوج کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کی موجودگی کے شواہد اس امر کا یقینی ثبوت ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی سر زمین ٹی ٹی پی کو روکنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے بلکہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی ۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر سے علاقائی امن کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی اسے بڑی سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، کوئی ریاست اپنے دشمنوں اور باغیوںکو برداشت نہیں کرسکتی ۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
پاکستان کی مسلح افواج نے اربوں روپے خرچ کر کے اور جانوں کی قربانیاں دے کر جو باڑ لگائی تھی، اس کو اکھیڑنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں اور شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔
افغان حکومت کو اس بابت مطلع بھی کیا گیا مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، ہمارے سیکڑوں فوجی افسر و جوان، پولیس افسر اور سپاہی،ایف سی کے افسر و سپاہی اور بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اس کے باوجود جن کی خاطر پاکستان نے یہ زخم سہے تھے، وہ آج ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
افغانستان کی پالیسی ہمیشہ پاکستان مخالفت پر استوار رہی ہے، یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لایا گیا جو واپس نہیں گئے۔
اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں، انھی میں سے بعض لوگ ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کے لیے ڈالروں کی بوریاں بھر بھرکر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں، پاکستان میں بھی اس سازش کے کردار موجود ہیں اور اب خاصی حد تک بے نقاب بھی ہوچکے ہیں ، یہ وہ ناسور ہے جو پاکستان کا مال کھا کر طاقت ور ہوا، اب اسی کی بنیادیں ہلا نے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔
افغانستان میں طالبان حکومت آنے اور اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات حکومت کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشن سے بچ کر افغانستان جانے والے طالبان جنگجو سابق حکومت کے دور میں واپس پاکستانآنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔
دہشت گردوں کی سہولت کار قوتیں پاکستان میں شر پسندی اور انتشار کو ہوا دے رہی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا تاکہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے اور بین الاقومی معاشی نظام سے کٹ جائے۔
پاکستان کے پالیسی ساز افغانستان کو تاریخ اور اس خطے کے نسلی و ثقافتی تفاوت کو پورے شمالی ہند، وسط ایشیا، روس، چین اور ایران کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے محض بھائی چارے کے تناظر میں دیکھتے آرہے ہیں، اس مقصد کے لیے مخصوص بیانیہ تشکیل دیا گیا، نصاب تعلیم تبدیل کیا گیا، سچ کو جھوٹ اورجھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا گیا، یہی پاکستان کی شمالی مغربی پالیسی کی ناکامی کا سبب ہے۔
ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ تقریباً چھ امن معاہدے ناکام رہے ہیں ۔ پاکستان نے اپنے انسداد دہشت گردی کے فوائد ضایع ہو جانے کا احساس کیے بغیر تشدد کی عدم موجودگی کو امن کی بحالی کے ساتھ تعبیرکیا۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔
تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔ شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی ملکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔
ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں تقریباً تمام عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ ضم ہو چکے ہیں اور اپنی آپریشنل طاقت کو بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی جغرافیائی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام انضمام اور اتحاد پاکستان میں عسکریت پسندوں کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان افراد کی سوچ پر بھی تعجب ہے جو پاکستانی طالبان کو تو دہشت گرد سمجھتے ہیں جب کہ افغان طالبان کو پاکستان کا دوست اور خیر خواہ تصور کرتے ہیں۔
ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہوگا اور اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ جو پاکستان کے اجتماعی عوامی مفادات کے برعکس پالیسی کے خلاف ہے، وہ پاکستان کا دوست اور ہمدرد نہیں ہے۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ بھی ضروری ہے، یہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔
دہشت گردی کو ختم کرنے میں فوج کا کردار بہت اہم ہے اور فوج کی قربانیاں بھی بے شمار ہیں مگر فوج اکیلے یہ کام نہیں کرسکتی، نہ ہی تمام تر ذمے داری کا بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈالا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے، دہشت گردی پر قابو پانے کی 80 فیصد ذمے داری سیاسی حکومتوں اورسول انتظامیہ پر عاید ہوتی ہے۔
نظام انصاف بھی اپنی ذمے داری سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا،ملک کی سیاسی قیادت بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے موقف میں واضح نہیں رہیں بلکہ الجھاؤ پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔ جب تک ملک میں موثر نظام حکومت نہیں ہوگا اور ہر شعبہ اپنا فعال کردار ادا نہ کرے اُس وقت تک دہشت گردی سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔
کور کمانڈرز کانفرنس نے کہا کہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں کی پناہ گاہیں، انھیں کارروائی کی آزادی ملنا، دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیں۔
بلاشبہ پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجز کے حوالے ریشنل اپروچ رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک کی سلامتی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے اور پوری قوت کے ساتھ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے قلع قمع کے لیے کارروائی کی جائے تاکہ پاکستان میں امن و امان بحال ہو اور ترقی و خوشحال کا دور شروع ہوسکے۔
کور کمانڈرز کانفرنس میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور عوامی امنگوں کے مطابق دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے جس عزم کا اعادہ کیا ہے وہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کے بعد اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی بحث کا جواز باقی نہیں رہا ہے۔
تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جب کوئی ریاست معاشی بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ معاشی زوال کی تاب نہ لا کر کئی سلطنتیں بکھر گئیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سوویت یونین ہے، اس کے علاوہ سوڈان بھی تقسیم ہوا، انڈونیشیا بھی مشرقی تیمور کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگیا۔
پاکستان کا معاشی عدم استحکام اتنا گہرا اور خطرناک نہیں ہے کہ اس پر قابو نہ پایا جاسکے تاہم اس عدم استحکام کے منفی اثرات بھی سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان میں معاشی اور سیاسی بحران پیدا کرنے میں خارجی عوامل تو واضح ہیں لیکن داخلی عوامل بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
پاکستان کے اندر ایک بااثر گروہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر انتہا پسندی کا سرپرست بنا رہا، یہ گروہ ریاستی سسٹم میں داخل ہوکر انتہاپسند نظریات کی سرپرستی کرتا رہا، دہشت گردوں کو گلوریفائی کراتا رہا،ریاستی میکنزم پر اثرانداز ہوکر انتہاپسند اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ہنڈلرز اورمنصوبہ سازوں کو بچاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں، ٹی ٹی پی افغانستان میں پناہ گاہوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی ہے۔
اس تنظیم کے دہشت گردوں کے پاس افغانستان میں امریکی فوج کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کی موجودگی کے شواہد اس امر کا یقینی ثبوت ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی سر زمین ٹی ٹی پی کو روکنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے بلکہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی ۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر سے علاقائی امن کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی اسے بڑی سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، کوئی ریاست اپنے دشمنوں اور باغیوںکو برداشت نہیں کرسکتی ۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
پاکستان کی مسلح افواج نے اربوں روپے خرچ کر کے اور جانوں کی قربانیاں دے کر جو باڑ لگائی تھی، اس کو اکھیڑنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں اور شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔
افغان حکومت کو اس بابت مطلع بھی کیا گیا مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، ہمارے سیکڑوں فوجی افسر و جوان، پولیس افسر اور سپاہی،ایف سی کے افسر و سپاہی اور بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اس کے باوجود جن کی خاطر پاکستان نے یہ زخم سہے تھے، وہ آج ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
افغانستان کی پالیسی ہمیشہ پاکستان مخالفت پر استوار رہی ہے، یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لایا گیا جو واپس نہیں گئے۔
اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں، انھی میں سے بعض لوگ ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کے لیے ڈالروں کی بوریاں بھر بھرکر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں، پاکستان میں بھی اس سازش کے کردار موجود ہیں اور اب خاصی حد تک بے نقاب بھی ہوچکے ہیں ، یہ وہ ناسور ہے جو پاکستان کا مال کھا کر طاقت ور ہوا، اب اسی کی بنیادیں ہلا نے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔
افغانستان میں طالبان حکومت آنے اور اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات حکومت کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشن سے بچ کر افغانستان جانے والے طالبان جنگجو سابق حکومت کے دور میں واپس پاکستانآنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔
دہشت گردوں کی سہولت کار قوتیں پاکستان میں شر پسندی اور انتشار کو ہوا دے رہی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا تاکہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے اور بین الاقومی معاشی نظام سے کٹ جائے۔
پاکستان کے پالیسی ساز افغانستان کو تاریخ اور اس خطے کے نسلی و ثقافتی تفاوت کو پورے شمالی ہند، وسط ایشیا، روس، چین اور ایران کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے محض بھائی چارے کے تناظر میں دیکھتے آرہے ہیں، اس مقصد کے لیے مخصوص بیانیہ تشکیل دیا گیا، نصاب تعلیم تبدیل کیا گیا، سچ کو جھوٹ اورجھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا گیا، یہی پاکستان کی شمالی مغربی پالیسی کی ناکامی کا سبب ہے۔
ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ تقریباً چھ امن معاہدے ناکام رہے ہیں ۔ پاکستان نے اپنے انسداد دہشت گردی کے فوائد ضایع ہو جانے کا احساس کیے بغیر تشدد کی عدم موجودگی کو امن کی بحالی کے ساتھ تعبیرکیا۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔
تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔ شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی ملکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔
ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں تقریباً تمام عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ ضم ہو چکے ہیں اور اپنی آپریشنل طاقت کو بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی جغرافیائی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام انضمام اور اتحاد پاکستان میں عسکریت پسندوں کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان افراد کی سوچ پر بھی تعجب ہے جو پاکستانی طالبان کو تو دہشت گرد سمجھتے ہیں جب کہ افغان طالبان کو پاکستان کا دوست اور خیر خواہ تصور کرتے ہیں۔
ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہوگا اور اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ جو پاکستان کے اجتماعی عوامی مفادات کے برعکس پالیسی کے خلاف ہے، وہ پاکستان کا دوست اور ہمدرد نہیں ہے۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ بھی ضروری ہے، یہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔
دہشت گردی کو ختم کرنے میں فوج کا کردار بہت اہم ہے اور فوج کی قربانیاں بھی بے شمار ہیں مگر فوج اکیلے یہ کام نہیں کرسکتی، نہ ہی تمام تر ذمے داری کا بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈالا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے، دہشت گردی پر قابو پانے کی 80 فیصد ذمے داری سیاسی حکومتوں اورسول انتظامیہ پر عاید ہوتی ہے۔
نظام انصاف بھی اپنی ذمے داری سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا،ملک کی سیاسی قیادت بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے موقف میں واضح نہیں رہیں بلکہ الجھاؤ پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔ جب تک ملک میں موثر نظام حکومت نہیں ہوگا اور ہر شعبہ اپنا فعال کردار ادا نہ کرے اُس وقت تک دہشت گردی سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔