مڈل کلاس کی پاکستان سے ہجرت
اس امیر طبقے کے علاوہ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جس کو مڈل کلاس کہا جاتا ہے
یہ ایک فطری عمل ہے کہ ہر انسان بہتر مستقبل کی خواہش رکھتا ہے اور اس کے لیے مسلسل تگ و دو میں رہتا ہے۔ ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کر لے جس کی اسے ضرورت ہے اور اس سب کچھ کے حصول کے لیے محنت کے سوا ہر وہ ذریعہ اور طریقہ کار اپناتا ہے جس سے اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ، یہ معاشرہ ابھی ترقی پذیر ہے اور بڑھتی آبادی اس ترقی میں مزید دشواریاں پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔ کسی بھی ملک کی افرادی قوت اس ملک کی طاقت ہوتی ہے لیکن اگر ملک میں کاروبار اور صنعت زوال پذیر ہو تو یہی افرادی قوت ایک بوجھ اور وبال جان بن جاتی ہے کیونکہ روزگار کے مزید مواقع پیدا نہ کیے جائیں تو آبادی کا یہ مسلسل اضافہ معیشت میں بگاڑ کا اصل سبب بن جاتا ہے اور معاشی ترقی معکوس زاویے میں چلی جاتی ہے ۔
ہمارے ہاں بھی آبادی میں تو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن روزگار کے موقع بڑھنے کے بجائے سکڑتے جارہے ہیں اور پچھتر برس کے بعد بھی ملکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر ہمارے ملک سے قابل اور ہنر مند افرادی قوت کی نقل مکانی کی شرح میں مسلسل اضافہ رہا ہے اور گزشتہ ایک برس میں بہت تیزی آئی ہے ۔ہماری اشرافیہ جس کے ہاں پہلے ہی وسائل کی کمی نہیں ہے اور یہ وسائل پاکستان کے مرہون منت ہیں لیکن یہ طبقہ ان وسائل کو کسی غیر ملک منتقل کر دیتا ہے جہاں پر اسے زندگی کی تمام تر سہولیات اور عیاشیاں دستیاب ہوتی ہیں۔
اس امیر طبقے کے علاوہ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جس کو مڈل کلاس کہا جاتا ہے جن کے پاس زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے وسائل تو ہوتے ہیں لیکن یہ وسائل اتنے زیادہ نہیں ہوتے کہ وہ شاہانہ زندگی گزار سکیں۔
یہ وہ طبقہ ہے جو ترقی کے لیے مسلسل تگ و دو میں رہتا ہے تا کہ اس کے پاس وسائل کی جوکمی ہے اس کو پورا کر کے وہ خوشحال زندگی گزار سکے ۔ ہماری بدقستی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کی ناقص اقتصادی پالیسیوں اور سیاسی پیچیدگیوںنے مڈل کلاس کو ملک سے بددل کر دیا ہے اورسونے پہ سہاگہ کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبروں نے ان پڑھے لکھے اور ہنرمند لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے اصل وطن سے ہجرت کر جائیں اور کسی ایسے ملک میں چلے جائیں جہاں پر ان کو محنت کا پھل مل سکے ۔
آج کل مڈل کلاس کی جس محفل میں بھی بیٹھیں گفتگو کا لب لباب یہی ہوتا ہے کہ پاکستان میں مزید نہیں رہا جا سکتا ہے، مستقبل میں بھی بہتری کی کوئی گنجائش نظر آرہی ہے۔یہ اس طبقے کے لوگ ہیں جو پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور اپنا اوڑھنا بچھونا پاکستان کو ہی سمجھتے ہیں لیکن مڈل کلاس میں یہ سوچ جس تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، یہ ارباب اختیار کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ جس ملک سے مڈل کلاس کا وجود ختم ہو جاتا ہے، اس ملک کا وجود خدانخواستہ خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔
مڈل کلاس کو ختم کرنے یا اس کی بیرونی ملک منتقلی کی سوچ یکایک وارد نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ملک چلانے والوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ عوامل کارفرما ہیں جن کی وجہ سے مڈل کلاس کا وجود پاکستان سے تقریباً ختم ہونے کوہے اور اب یہاں پر یا تو امراء ، رئوساء اور وڈیرے ہیں یا پھر وہ انتہائی غریب طبقہ ہے جو مسلسل پستا چلا آرہا ہے اور اس غریب طبقے کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی معقول تعلیم ہے جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی کا سوچ سکے۔
ایک معاصر کی خبر کے مطابق ملک کے اعدادوشمار یہ بتا رہے ہیں کہ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں تقریباً چار لاکھ لوگ بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔
یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو قانونی طریقہ سے بیرون ملک منتقل ہوئے اور سرکار کے پاس ریکارڈ موجود ہے ، لیکن غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ، بیرون ملک جانے کے غیر قانونی سفر میں کئی افراد بارڈر پر گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں یا سمندر کی بے رحم لہریں ان کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہیں اور وہ اپنے اہل خانہ کو زندگی بھر کے لیے دکھی چھوڑ جاتے ہیں۔
بیرون ملک منتقلی کے اس رجحان کے پس منظر میں صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع ناپید ہو چکے ہیں اور جوکاروبار چل رہے ہیں، وہ بھی ڈانواں ڈول ہیں ۔اس بات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ جب تک ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام نہیں آئے گا، صنعت کا پہیہ نہیں چلے گا، بیرون ملک یہ ہجرت یوں ہی قانونی اور غیر قانونی طریقے سے جاری رہے گی ۔
ریاست پاکستان کے من جملہ وارثان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے لیکن ابھی تک یہ من جملہ وارثان معیشت کی بہتری اور ترقی کے لیے کسی پائیدار حل کی تلاش میں ناکام نظر آتے ہیں اور پاکستانی عوام کے لیے ان کے پاس کوئی امید سحر نظر نہیں آتی۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ، یہ معاشرہ ابھی ترقی پذیر ہے اور بڑھتی آبادی اس ترقی میں مزید دشواریاں پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔ کسی بھی ملک کی افرادی قوت اس ملک کی طاقت ہوتی ہے لیکن اگر ملک میں کاروبار اور صنعت زوال پذیر ہو تو یہی افرادی قوت ایک بوجھ اور وبال جان بن جاتی ہے کیونکہ روزگار کے مزید مواقع پیدا نہ کیے جائیں تو آبادی کا یہ مسلسل اضافہ معیشت میں بگاڑ کا اصل سبب بن جاتا ہے اور معاشی ترقی معکوس زاویے میں چلی جاتی ہے ۔
ہمارے ہاں بھی آبادی میں تو مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن روزگار کے موقع بڑھنے کے بجائے سکڑتے جارہے ہیں اور پچھتر برس کے بعد بھی ملکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر ہمارے ملک سے قابل اور ہنر مند افرادی قوت کی نقل مکانی کی شرح میں مسلسل اضافہ رہا ہے اور گزشتہ ایک برس میں بہت تیزی آئی ہے ۔ہماری اشرافیہ جس کے ہاں پہلے ہی وسائل کی کمی نہیں ہے اور یہ وسائل پاکستان کے مرہون منت ہیں لیکن یہ طبقہ ان وسائل کو کسی غیر ملک منتقل کر دیتا ہے جہاں پر اسے زندگی کی تمام تر سہولیات اور عیاشیاں دستیاب ہوتی ہیں۔
اس امیر طبقے کے علاوہ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جس کو مڈل کلاس کہا جاتا ہے جن کے پاس زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے وسائل تو ہوتے ہیں لیکن یہ وسائل اتنے زیادہ نہیں ہوتے کہ وہ شاہانہ زندگی گزار سکیں۔
یہ وہ طبقہ ہے جو ترقی کے لیے مسلسل تگ و دو میں رہتا ہے تا کہ اس کے پاس وسائل کی جوکمی ہے اس کو پورا کر کے وہ خوشحال زندگی گزار سکے ۔ ہماری بدقستی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کی ناقص اقتصادی پالیسیوں اور سیاسی پیچیدگیوںنے مڈل کلاس کو ملک سے بددل کر دیا ہے اورسونے پہ سہاگہ کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبروں نے ان پڑھے لکھے اور ہنرمند لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے اصل وطن سے ہجرت کر جائیں اور کسی ایسے ملک میں چلے جائیں جہاں پر ان کو محنت کا پھل مل سکے ۔
آج کل مڈل کلاس کی جس محفل میں بھی بیٹھیں گفتگو کا لب لباب یہی ہوتا ہے کہ پاکستان میں مزید نہیں رہا جا سکتا ہے، مستقبل میں بھی بہتری کی کوئی گنجائش نظر آرہی ہے۔یہ اس طبقے کے لوگ ہیں جو پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور اپنا اوڑھنا بچھونا پاکستان کو ہی سمجھتے ہیں لیکن مڈل کلاس میں یہ سوچ جس تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، یہ ارباب اختیار کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ جس ملک سے مڈل کلاس کا وجود ختم ہو جاتا ہے، اس ملک کا وجود خدانخواستہ خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔
مڈل کلاس کو ختم کرنے یا اس کی بیرونی ملک منتقلی کی سوچ یکایک وارد نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ملک چلانے والوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ عوامل کارفرما ہیں جن کی وجہ سے مڈل کلاس کا وجود پاکستان سے تقریباً ختم ہونے کوہے اور اب یہاں پر یا تو امراء ، رئوساء اور وڈیرے ہیں یا پھر وہ انتہائی غریب طبقہ ہے جو مسلسل پستا چلا آرہا ہے اور اس غریب طبقے کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی معقول تعلیم ہے جس کی وجہ سے وہ نقل مکانی کا سوچ سکے۔
ایک معاصر کی خبر کے مطابق ملک کے اعدادوشمار یہ بتا رہے ہیں کہ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں تقریباً چار لاکھ لوگ بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔
یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو قانونی طریقہ سے بیرون ملک منتقل ہوئے اور سرکار کے پاس ریکارڈ موجود ہے ، لیکن غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ، بیرون ملک جانے کے غیر قانونی سفر میں کئی افراد بارڈر پر گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں یا سمندر کی بے رحم لہریں ان کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہیں اور وہ اپنے اہل خانہ کو زندگی بھر کے لیے دکھی چھوڑ جاتے ہیں۔
بیرون ملک منتقلی کے اس رجحان کے پس منظر میں صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع ناپید ہو چکے ہیں اور جوکاروبار چل رہے ہیں، وہ بھی ڈانواں ڈول ہیں ۔اس بات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ جب تک ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام نہیں آئے گا، صنعت کا پہیہ نہیں چلے گا، بیرون ملک یہ ہجرت یوں ہی قانونی اور غیر قانونی طریقے سے جاری رہے گی ۔
ریاست پاکستان کے من جملہ وارثان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے لیکن ابھی تک یہ من جملہ وارثان معیشت کی بہتری اور ترقی کے لیے کسی پائیدار حل کی تلاش میں ناکام نظر آتے ہیں اور پاکستانی عوام کے لیے ان کے پاس کوئی امید سحر نظر نہیں آتی۔