کابل اور اسلام آباد میں تناؤ

شاید افغان طالبان ابھی تک اس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ پاکستان کس حد تک جا سکتا ہے؟

msuherwardy@gmail.com

پاکستان نے پہلی دفعہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر براہ راست افغانستان کو ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ ژوب میں ٹی ٹی پی کی جانب سے پاک فوج کی ایک چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پہلی بار افغانستان کے خلاف ایک سخت بیان سامنے آیا۔ جس میں مسلح افواج نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر افغانستان کی طالبان حکومت کو ذمے دار ٹھہرایا۔ افغانستا ن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے محفوظ ٹھکانوں پر افغان طالبان پر براہ راست تنقید کی گئی۔

اس کے بعد آرمی چیف ایران کے دورے پر چلے گئے اور وہاں بھی دہشت گردی سے مشترکہ طور پر نبٹنے کی بات کی گئی۔ بعدازاں کور کمانڈرز کی میٹنگ کے اعلامیہ میں بھی افغان طالبان کو سخت پیغام دیا گیا ہے۔

اسی دوران پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی افغان طالبان حکومت پر واضح کیا کہ وہ پاکستان کے دہشت گردوں کو محفوط ٹھکانے دے کر دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس گرما گرمی کے ماحول میں پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی مندوب آج تین روزہ دورے پر کابل بھی جا رہے ہیں۔ پاکستان کو امید ہے کہ اس کے بیانات اور گفتگو سے افغان طالبان کافی دباؤ میں آئے ہوںگے، اس لیے شاید بات بن جائے۔

ادھر پاکستان کے اس شدید ردعمل کے جواب میں افغان طالبان نے وہی پرانی بات کی ہے کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ وہ سرکاری طور پاکستان کے الزامات کو رد کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھ آتی ہے، وہ سرکاری طور پر کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ پاکستا ن کے دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے میسر ہیں۔ اگر وہ تسلیم کر لیں تو انھیں ان کو ہمارے حوالے کرنا ہوگا، جس کے لیے وہ ابھی تیار نہیں۔

یہ درست ہے کہ اس بار ژوب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جن دہشت گردوں نے کارروائی کی ہے، ان کے پاس وہ جدید اسلحہ تھا جو امریکا نے افغانستان سے جاتے ہوئے چھوڑا تھا۔ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ اب تحریک طالبان کے پا س امریکا کا جدید اسلحہ بھی پہنچ گیا ہے ،جس سے ان کے حملہ کرنے استطا عت بڑھ گئی ہے۔

دہشت گردوں نے امریکی فوج کے یونیفارم بھی پہنے ہوئے تھے۔ پاکستان کے لیے یہ سوال اہم ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کی امریکی فوجی یونیفارم اور امریکی اسلحہ تک رسائی کیسے ممکن ہوئی؟ کیا یہ سب افغان طالبان حکومت کے بغیر ممکن ہے؟

اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا افغان طالبان پاکستان کی ناراضی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ عمومی رائے یہی ہے کہ افغان طالبان کے لیے پاکستان کی ناراضی کافی مہنگی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے سوا کون ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن پاکستان نے اپنی اس پوزیشن کو کبھی استعمال نہیں کیا۔ اس لیے افغان طالبان پاکستان کے سخت رویے کے عادی نہیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے کبھی سخت رویہ اپنایا ہی نہیں، اس لیے ان کے لیے یہ نئی صورتحال ہے۔


شاید افغان طالبان ابھی تک اس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ پاکستان کس حد تک جا سکتا ہے؟ کیا کر سکتا ہے اور کیا کرے گا؟ بہر حال افغان طالبان ابھی تک انکار کی حکمت عملی پر ہی کام کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں انکار ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ اگر مان لیںگے تو پھر قدم بھی اٹھانا پڑیں گے۔ جب تک انکار کرتے رہیں گے کوئی قدم نہیں اٹھانا پڑے گا۔

ادھر افغانستان میں ٹی ٹی پی کے امیر نور ولی محسود پر جلال آباد میں حملے کی بھی اطلاعات ہیں، کہا جارہا ہے کہ وہ شدید زخمی ہوئے ہیں جب کہ ان کے ساتھیوں کے زخمی ہونے کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نور ولی محسود نے اپنی تمام تر ملاقاتیں بند کر رکھی تھیں۔ لیکن اس قدر احتیاط اور حفاظتی حصار کے باوجود اگر ان پر حملہ ہوا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یقیناً ٹی ٹی پی کے اندر بھی شکوک وشبہات پیدا ہوں گے ۔

ادھر افغانستان کے صوبے پکتیا میں بمباری کی بھی خبریں آئی ہیں۔ پکتیا میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے محفوظ ٹھکانوں کی اطلاعات ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت ایسی خبروں پر کوئی ردعمل نہیں دے رہی اور نہ ہی کوئی بیان آیا ہے۔ اگر پاکستان یا کوئی اور ملک یہ کام نہیں کر رہا تو پھر کیا افغان حکومت خود کارروائی کر رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی ہو رہا ہے، افغان حکومت کی مدد، تعاون اور مرضی سے ہو رہا ہے۔ جیسے وہ تحریک طالبان کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم نہیں کررہی ہے، ویسے ہی ان کارروائیوں کو بھی مانا نہیں جا رہا ہے۔

یہ تاویل بھی پیش کی جاتی ہے کہ افغان طالبان اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کر دیں۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں بہترین صورتحال یہی ہے کہ ان سب کو پکڑ کر سرکاری طور پر پاکستان کے حوالے کیا جائے کیونکہ ان کے خلاف آپریشن کے وہ نتائج نہیں آسکتے جو پکڑ کر حوالے کرنے کے آئیں گے، جب تک آخری دہشت گرد پکڑ کر پاکستان کے حوالے نہیں ہوگا، کام نہیں چلے گا۔

پاکستان میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ روزانہ کارراوئیاں ہو رہی ہیں۔ لیکن جب تک پاک افغان سرحد بند نہیں ہوگی اور افغان حکومت اپنے بارڈر کو خود سیل نہیں کرے گی، بات نہیں بنے گی۔ اگر دوسری طرف آزادی ہوگی تو ایک طرف سختی کافی نہیں۔ لوگ دوسری طرف جا کر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

ہمیں افغان طالبان پر اس بار ہر قسم کا دباؤ ڈالنا چاہیے۔ پاکستان ایران اور چین کو مل کر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اسی لیے آرمی چیف کا دورہ ایران مثبت ہے۔ اب چین سے بھی بات کرنی چاہیے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مسئلہ پر پاکستان، چین اور ایران کی مشترکہ کانفرنس بھی ہونی چاہیے۔ افغان طالبان کوسمجھانا ہوگا کہ اب وہ مزید ڈٖبل گیم نہیں کھیل سکتے۔ ٖڈبل گیم کا وقت ختم ہوگیا۔ اب کارروائی کا وقت ہے، اس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
Load Next Story