ذہانت جرم ہے
معنی اور دلیل سے محروم شخصی رویے اب وہاں تک پہنچ چکے ہیں
ISLAMABAD:
معنی اور دلیل سے محروم شخصی رویے اب وہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ مکمل نظام لال دائرے کے درمیان ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا ہے۔ ایسی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جس سے شک سیلاب کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ سنجیدگی سے معاملہ فہمی کی طرف لے جانے والے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں اور اب مجھے یہ تاثر ملنے لگا ہے کہ ان کی آواز بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ ہر شخص پریشان ہے۔ ہر بندہ دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ اب کیا ہو گا! کیا ہونے والا ہے؟ بگاڑ کی کئی وجوہات ہیں۔ مگر بنیادی وجہ صرف ایک ہے۔ ہر طرف نظر دوڑائیے۔ آپ کو میرٹ کا قتل عام نظر آئیگا۔ کہیں سیاسی حکمرانوں اور کہیں سرکاری بابوئوں کے ہاتھوں۔ کہاں گیا وہ نعرہ! Good Governance یا اہلیت والے لوگوں کو آگے لانے کا خواب۔
معاشرہ ہر سطح پر شدید تقسیم کا شکار ہے۔ یہ انتشار اوپر کی سطح سے نیچے تک ہر جانب محسوس ہو رہا ہے۔ میں ایک عجیب رویہ دیکھ رہا ہوں۔ یہ رویہ آپ کو ہر جانب نظر آئیگا۔ یہ خوفناک بھی ہے اور یہ آہستہ آہستہ ہمیں بانجھ کر رہا ہے۔ یہ نکتہ ہے کہ ہمارا نظام لائق آدمی کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ اوسط درجے سے بھی کم ذہین لوگ اب آپ کو ہر جانب رموز سرکار چلاتے نظر آئینگے۔ لائق شخص اب سماجی، سیاسی، سرکاری اور نجی شعبے سے رد کیا جا چکا ہے۔ یہ بنیاد ہے جس سے تنگ آ کر ہمارے ذہین لوگوں کی اکثریت ملک چھوڑ چکی ہے۔ مگر اس سکہ کا ایک دوسرا رخ بھی موجود ہے، جو اتنا ہی اہم ہے۔ اگر بدقسمتی سے کوئی لائق شخص اس ملک کے سرکاری نظام میں کسی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہے تو اُس کو یہ نظام نشان عبرت بنا دیتا ہے۔
آپ سیاسی نظام کو پرکھیے۔ دانستہ طور پر ایسے لوگوں کو اس اہم ترین شعبے میں آگے لایا جاتا ہے جو کسی بھی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے سامنے سوائے تعریف کے کوئی اور بات کہنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ صرف ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گے۔ وہ ہر مقام پر اپنی بے عزتی کروا کر بھی خاموش رہیں گے۔ اور اگر کوئی سیاسی کارکن یا ممبر خدانخواستہ ایسی بات کہہ دے جو دربار شاہی کو ناگوار گزرے تو اُس کی ہر دفتر اور اہم جگہ رسائی ناممکن بنا دی جائے گی۔ میں نے یہ سیکڑوں بار ہوتے دیکھا ہے۔
پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی یا سیاسی حکومت پارلیمنٹ کے اہل ممبران کو پسند نہیں کرتی۔ آپکو زبانی خطبوں اور تقاریر میں جو سنایا جائے گا اصل معاملات اس سے بالکل الٹ چلائے جائینگے۔ اگر غلطی سے کوئی اہلیت والا ایم پی اے یا ایم این اے وزارت تک بھول کر چلا بھی گیا تو اس کے ساتھ ایسا درباری بابو لگا دیا جائے گا جو اس کی کوئی بات نہیں مانے گا۔ کیونکہ اس بابو کو لگانے سے پہلے سمجھایا جائے گا کہ آپ نے اپنے محکمہ میں اپنے وزیر کی کوئی بات نہیں ماننی۔ تھوڑے عرصے بعد وہ وزیر غیر موثر یا ناکام قرار پا کر فارغ کر دیا جائے گا۔
تمام ملکی شعبوں میں بالکل ایک جیسا حال ہے۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں1972ء میں گیا تھا۔ اورنگزیب ونگ (ہاسٹل) میں ملتان سے تعلق رکھنے والا حامد تھوڑے عرصے میں میرا قریبی دوست بن گیا۔ اُس کے والدکسی سرکاری کالج کے پرنسپل تھے۔ ہم لوگ آٹھویں کلاس میں گئے تھے۔ کیا عمر ہو گی! گیارہ سال یا حد بارہ سال۔ حامد ہم سب سے زیادہ ذہین اور سوچنے والا بچہ تھا۔ وہ گیارہ سال کی عمر میں عورتوں کے حقوق پر مدلل بحث کرتا تھا۔ وہ معاشرے میں عدم مساوات کو سب کے سامنے وضاحت سے بیان کرتا تھا۔ اس کا مطالعہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا گیا۔ پانچ سال بعد یعنی1977ء میں ہم لوگ F.Sc میں تھے۔ اب وہ ہر نازک اور مشکل موضوع پر دلیل سے گفتگو کرتا تھا۔ وہ غلامی کے نظام کے خلاف تقریریں کرتا تھا۔ ہم دونوں حسن ابدال سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج آئے۔
طویل عرصہ روم میٹ بھی رہے۔ اب اس کے خیالات میں بہت پختگی آ چکی تھی۔ اس کی حِس ظرافت اتنی بھر پور تھی کہ وہ اپنے ساتھ قہقہوں کا طوفان لیے پھرتا تھا۔ میڈیکل کی تعلیم اس کے لیے بچوں کا کھیل تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اتنا ذہین ہے کہ دس بارہ سال میں پاکستان کے بہترین ڈاکٹروں میں ہو گا۔ مگر اس کی ذہانت ہی اس کی سب سے بڑی دشمن نکلی۔ وہ عملی زندگی کی بابو گیری کو سمجھ ہی نہیں پایا۔ وہ ہمارے نظام کے بیکار پن کو بھی بھانپ نہیں سکا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ لاہور میں میو اسپتال کے انتقال خون کے شعبہ میں کام کر تا تھا۔ میں نے اسے کئی بار مریضوں کے لیے خود اپنا خون عطیہ کرتے دیکھا تھا۔
اگر اس کے پاس کوئی مجبور شخص خون مانگنے آتا تھا تو وہ ہاسٹل سے زبردستی اپنے دوستوں کو لا کر ان کاخون عطیہ کر کے مریض کی ضرورت پوری کر دیتا تھا۔ مگر وہ اس نظام میں بالکل فیل ہو گیا۔ وہ خدمت کرتے کرتے ایسی جرأت دکھا گیا کہ اس کا اپنے شعبہ میں کام کرنا ناممکن بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ایسا بُرا سلوک ہوا کہ وہ شہر چھوڑ کر واپس اپنے گھر ملتان چلا گیا۔ اس نے مجبوری میں نوکری بھی چھوڑ دی اور شائد زندگی بھی۔ آج وہ پریکٹس بھی نہیں کرتا اور جنوبی پنجاب میں ایک بیکار زندگی گزار رہا ہے۔
سرمد فیصل آباد سے میڈیکل کالج آیا تھا۔ اس کی ذہانت اور یادداشت بلا کی تھی۔ آپ یقین فرمائیے! کہ وہ میڈیکل کی مشکل ترین کتابیں ایک بار پڑھنے کے بعد ہمیں دے دیتا تھا۔ اس کے بعد وہ ہمیں کہتا تھا کہ آپ کتاب کھولیں۔ صفحہ نمبر بتائیں اور لائن کا نمبر بتائیں۔ پھر وہ ہمیں حرف بحرف کتاب میں جو لکھا ہوتا تھا، بغیر کسی غلطی اور دشواری کے بتا دیتا تھا۔ ایک دنAnatonmy کی کلاس میں پروفیسر تقیہ لیکچر دے رہی تھیں۔ وہ اپنے مضمون پر مکمل حاوی تھیں اور تیس سال سے صرف ایک ہی مضمون پڑھا رہی تھیں۔ لیکچر کے دوران سرمد ایک دم کھڑا ہو کر پروفیسر کو کہنے لگا کہ آپ نے ابھی جو کچھ کہا وہ غلط ہے۔ میڈم تقیہ کے لیے یہ بات بہت عجیب تھی کہ کل کا بچہ ان کی غلطی نکالے۔ مگر جب انھوں نے کتاب منگوائی تو سرمد بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔
پروفیسر اسے اپنے دفتر میں لے گئی اور پوچھا کہ تم نے یہ کتاب صبح صبح پڑھی ہے۔ سرمد کا جواب حیران کن تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ اس نے چار مہینے پہلے پڑھی تھی۔ اس کی یادداشت دیکھ کر پروفیسر حیران رہ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ طالبعلم جھوٹ بول رہا ہے۔ لیکن وہ مکمل سچ بول رہا تھا۔M.B.B.S کرنے کے بعد وہ اسلام آباد چلا گیا۔ اس نے اپنی ذاتی زندگی میں کچھ ایسے عجیب فیصلے کر لیے جو ہمارے معاشرہ میں پسند نہیں کیے جاتے۔ اسے شخصی بہادرانہ فیصلوں کی وہ سزا ملی جو آج تک ختم نہیں ہو پائی۔ وہ دل برداشتہ ہو کر لاہور میں ایک اسپتال میں عام سی نوکری کر رہا ہے۔ وہ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرتا۔ اگر میں یہ عرض کروں کہ وہ عملاً میڈیکل کی فیلڈ کو چھوڑ چکا ہے تو بالکل غلط نہ ہو گا۔ ہم نے ایک بہترین دماغ ضایع کر دیا۔
میں آج سے سترہ سال پہلے بہالپور تعینات تھا۔ مرتضیٰ بیگ برلاس جو ایک پایہ کے شاعر بھی تھے، بہالپور کے کمشنر تھے۔ وہ ایک علم دوست انسان تھے۔ ہم دونوں نے بہالپور کے سرکٹ ہائوس میں تصویروں کی ایک نمائش کروانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے شہر میں مصور تلاش کرنے شروع کر دیے۔ بتایا گیا کہ نیویارک سے فائن آرٹس میں ماسٹرز کرنے کے بعد ایک نوجوان مصور یہاں رہتا ہے۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ میں اس کے گھر گیا اور اسے اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز دکھانے کے لیے کہا۔ اس کا فن مصوری پر عبور دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ وہ لاہور N.C.A کے بعد نیویارک کے بہترین آرٹس کالج کا فارغ التحصیل تھا۔ میں نے اسے نمائش کے لیے درخواست کی تو وہ پریشان سا ہو گیا۔ اس نے بتایا کہ بہالپور میں تو کبھی اس کی تصویروں کی نمائش نہیں ہوئی۔
ہم سب نے ملکر محمد علی کی تصاویر کی نمائش سرکٹ ہائوس بہالپور میں منعقد کی۔ سیکڑوں آدمی اس کی تصویریں دیکھنے آئے۔ اس کی تمام تصویریں فروخت ہو گئیں۔ وہ حیرت زدہ تھا کہ اس کی پینٹنگز بھی بک سکتی ہیں۔ مگر وہ ایک مصور تھا۔ صرف اچھا مصور۔ وہ اپنے فن کو مارکیٹ کرنا نہیں جانتا تھا۔ بلکہ وہ مارکیٹنگ سے بالکل ناآشنا تھا۔ اسے یہ خیال چھو کر نہیں نکلا تھا کہ اس کی تصویریں اس قابل ہیں کہ لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہونگے۔ یہ شائد اس کی پہلی اور آخری نمائش تھی۔ وہ بہترین مصور ہونے کے باوجود مکمل گوشہ نشین تھا۔ یہ گوشہ نشینی شائد اب تک قائم ہے۔ بہت کم لوگوں کو محمد علی کے نام کا علم ہے۔ اس کے فن کی قدر کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اسے احساس نہیں تھا کہ ہر شعبے کی طرح آرٹ میں بھی اسے لابنگ کی ضرورت ہے۔ وہ اس نظام کو پہچاننے میں ناکام رہا اور اب مکمل ناکام زندگی گزار رہا ہے۔
میں جب لائق لوگوں کو ملتا ہوں تو ایک افسوس سا ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہے۔ وہ سب اس نظام میں پورے نہیں اترتے۔ شائد ان میں سے اکثر اس نظام کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ ہر شعبے میں ایک جیسی داستانیں ہیں۔ ان کی اکثریت ناکام اور کسی نہ کسی مسئلہ کا شکار ہے۔ میں تو اب بچوں کے والدین کو کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کے لیے ذہانت اور لیاقت کی دعا نہ مانگیں! انھیں اگر اس معاشرے میں کامیاب بنانا ہے تو بچپن سے انھیں جھوٹ بولنا سکھائیں! انھیں دوسروں کی محنت کا ثمر اپنے حساب میں ڈالنا سکھائیں! انھیں بتائیں کہ بغیر محنت کے ترقی کیسے کی جا سکتی ہے! کیونکہ اگر وہ خدانخواستہ ذہین ہوئے تو جلد کسی مسئلہ کا شکار ہو جائینگے۔ کوئی منفی رویہ کا بابو یا کوئی اوسط درجے کا موروثی سیاسی حاکم ان کی صلاحیتوں کو ان کابوجھ ثابت کر دیگا۔ اسے ناکام قرار دیا جائے گا۔ اپنے بچوں کو بتائیے کہ اس نظام میں ذہانت سب سے بڑا جرم ہے!
معنی اور دلیل سے محروم شخصی رویے اب وہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ مکمل نظام لال دائرے کے درمیان ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا ہے۔ ایسی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جس سے شک سیلاب کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ سنجیدگی سے معاملہ فہمی کی طرف لے جانے والے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں اور اب مجھے یہ تاثر ملنے لگا ہے کہ ان کی آواز بھی کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ ہر شخص پریشان ہے۔ ہر بندہ دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ اب کیا ہو گا! کیا ہونے والا ہے؟ بگاڑ کی کئی وجوہات ہیں۔ مگر بنیادی وجہ صرف ایک ہے۔ ہر طرف نظر دوڑائیے۔ آپ کو میرٹ کا قتل عام نظر آئیگا۔ کہیں سیاسی حکمرانوں اور کہیں سرکاری بابوئوں کے ہاتھوں۔ کہاں گیا وہ نعرہ! Good Governance یا اہلیت والے لوگوں کو آگے لانے کا خواب۔
معاشرہ ہر سطح پر شدید تقسیم کا شکار ہے۔ یہ انتشار اوپر کی سطح سے نیچے تک ہر جانب محسوس ہو رہا ہے۔ میں ایک عجیب رویہ دیکھ رہا ہوں۔ یہ رویہ آپ کو ہر جانب نظر آئیگا۔ یہ خوفناک بھی ہے اور یہ آہستہ آہستہ ہمیں بانجھ کر رہا ہے۔ یہ نکتہ ہے کہ ہمارا نظام لائق آدمی کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ اوسط درجے سے بھی کم ذہین لوگ اب آپ کو ہر جانب رموز سرکار چلاتے نظر آئینگے۔ لائق شخص اب سماجی، سیاسی، سرکاری اور نجی شعبے سے رد کیا جا چکا ہے۔ یہ بنیاد ہے جس سے تنگ آ کر ہمارے ذہین لوگوں کی اکثریت ملک چھوڑ چکی ہے۔ مگر اس سکہ کا ایک دوسرا رخ بھی موجود ہے، جو اتنا ہی اہم ہے۔ اگر بدقسمتی سے کوئی لائق شخص اس ملک کے سرکاری نظام میں کسی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہے تو اُس کو یہ نظام نشان عبرت بنا دیتا ہے۔
آپ سیاسی نظام کو پرکھیے۔ دانستہ طور پر ایسے لوگوں کو اس اہم ترین شعبے میں آگے لایا جاتا ہے جو کسی بھی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے سامنے سوائے تعریف کے کوئی اور بات کہنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ صرف ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گے۔ وہ ہر مقام پر اپنی بے عزتی کروا کر بھی خاموش رہیں گے۔ اور اگر کوئی سیاسی کارکن یا ممبر خدانخواستہ ایسی بات کہہ دے جو دربار شاہی کو ناگوار گزرے تو اُس کی ہر دفتر اور اہم جگہ رسائی ناممکن بنا دی جائے گی۔ میں نے یہ سیکڑوں بار ہوتے دیکھا ہے۔
پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی یا سیاسی حکومت پارلیمنٹ کے اہل ممبران کو پسند نہیں کرتی۔ آپکو زبانی خطبوں اور تقاریر میں جو سنایا جائے گا اصل معاملات اس سے بالکل الٹ چلائے جائینگے۔ اگر غلطی سے کوئی اہلیت والا ایم پی اے یا ایم این اے وزارت تک بھول کر چلا بھی گیا تو اس کے ساتھ ایسا درباری بابو لگا دیا جائے گا جو اس کی کوئی بات نہیں مانے گا۔ کیونکہ اس بابو کو لگانے سے پہلے سمجھایا جائے گا کہ آپ نے اپنے محکمہ میں اپنے وزیر کی کوئی بات نہیں ماننی۔ تھوڑے عرصے بعد وہ وزیر غیر موثر یا ناکام قرار پا کر فارغ کر دیا جائے گا۔
تمام ملکی شعبوں میں بالکل ایک جیسا حال ہے۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں1972ء میں گیا تھا۔ اورنگزیب ونگ (ہاسٹل) میں ملتان سے تعلق رکھنے والا حامد تھوڑے عرصے میں میرا قریبی دوست بن گیا۔ اُس کے والدکسی سرکاری کالج کے پرنسپل تھے۔ ہم لوگ آٹھویں کلاس میں گئے تھے۔ کیا عمر ہو گی! گیارہ سال یا حد بارہ سال۔ حامد ہم سب سے زیادہ ذہین اور سوچنے والا بچہ تھا۔ وہ گیارہ سال کی عمر میں عورتوں کے حقوق پر مدلل بحث کرتا تھا۔ وہ معاشرے میں عدم مساوات کو سب کے سامنے وضاحت سے بیان کرتا تھا۔ اس کا مطالعہ آہستہ آہستہ وسیع ہوتا گیا۔ پانچ سال بعد یعنی1977ء میں ہم لوگ F.Sc میں تھے۔ اب وہ ہر نازک اور مشکل موضوع پر دلیل سے گفتگو کرتا تھا۔ وہ غلامی کے نظام کے خلاف تقریریں کرتا تھا۔ ہم دونوں حسن ابدال سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج آئے۔
طویل عرصہ روم میٹ بھی رہے۔ اب اس کے خیالات میں بہت پختگی آ چکی تھی۔ اس کی حِس ظرافت اتنی بھر پور تھی کہ وہ اپنے ساتھ قہقہوں کا طوفان لیے پھرتا تھا۔ میڈیکل کی تعلیم اس کے لیے بچوں کا کھیل تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اتنا ذہین ہے کہ دس بارہ سال میں پاکستان کے بہترین ڈاکٹروں میں ہو گا۔ مگر اس کی ذہانت ہی اس کی سب سے بڑی دشمن نکلی۔ وہ عملی زندگی کی بابو گیری کو سمجھ ہی نہیں پایا۔ وہ ہمارے نظام کے بیکار پن کو بھی بھانپ نہیں سکا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ لاہور میں میو اسپتال کے انتقال خون کے شعبہ میں کام کر تا تھا۔ میں نے اسے کئی بار مریضوں کے لیے خود اپنا خون عطیہ کرتے دیکھا تھا۔
اگر اس کے پاس کوئی مجبور شخص خون مانگنے آتا تھا تو وہ ہاسٹل سے زبردستی اپنے دوستوں کو لا کر ان کاخون عطیہ کر کے مریض کی ضرورت پوری کر دیتا تھا۔ مگر وہ اس نظام میں بالکل فیل ہو گیا۔ وہ خدمت کرتے کرتے ایسی جرأت دکھا گیا کہ اس کا اپنے شعبہ میں کام کرنا ناممکن بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ایسا بُرا سلوک ہوا کہ وہ شہر چھوڑ کر واپس اپنے گھر ملتان چلا گیا۔ اس نے مجبوری میں نوکری بھی چھوڑ دی اور شائد زندگی بھی۔ آج وہ پریکٹس بھی نہیں کرتا اور جنوبی پنجاب میں ایک بیکار زندگی گزار رہا ہے۔
سرمد فیصل آباد سے میڈیکل کالج آیا تھا۔ اس کی ذہانت اور یادداشت بلا کی تھی۔ آپ یقین فرمائیے! کہ وہ میڈیکل کی مشکل ترین کتابیں ایک بار پڑھنے کے بعد ہمیں دے دیتا تھا۔ اس کے بعد وہ ہمیں کہتا تھا کہ آپ کتاب کھولیں۔ صفحہ نمبر بتائیں اور لائن کا نمبر بتائیں۔ پھر وہ ہمیں حرف بحرف کتاب میں جو لکھا ہوتا تھا، بغیر کسی غلطی اور دشواری کے بتا دیتا تھا۔ ایک دنAnatonmy کی کلاس میں پروفیسر تقیہ لیکچر دے رہی تھیں۔ وہ اپنے مضمون پر مکمل حاوی تھیں اور تیس سال سے صرف ایک ہی مضمون پڑھا رہی تھیں۔ لیکچر کے دوران سرمد ایک دم کھڑا ہو کر پروفیسر کو کہنے لگا کہ آپ نے ابھی جو کچھ کہا وہ غلط ہے۔ میڈم تقیہ کے لیے یہ بات بہت عجیب تھی کہ کل کا بچہ ان کی غلطی نکالے۔ مگر جب انھوں نے کتاب منگوائی تو سرمد بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔
پروفیسر اسے اپنے دفتر میں لے گئی اور پوچھا کہ تم نے یہ کتاب صبح صبح پڑھی ہے۔ سرمد کا جواب حیران کن تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ اس نے چار مہینے پہلے پڑھی تھی۔ اس کی یادداشت دیکھ کر پروفیسر حیران رہ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ طالبعلم جھوٹ بول رہا ہے۔ لیکن وہ مکمل سچ بول رہا تھا۔M.B.B.S کرنے کے بعد وہ اسلام آباد چلا گیا۔ اس نے اپنی ذاتی زندگی میں کچھ ایسے عجیب فیصلے کر لیے جو ہمارے معاشرہ میں پسند نہیں کیے جاتے۔ اسے شخصی بہادرانہ فیصلوں کی وہ سزا ملی جو آج تک ختم نہیں ہو پائی۔ وہ دل برداشتہ ہو کر لاہور میں ایک اسپتال میں عام سی نوکری کر رہا ہے۔ وہ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرتا۔ اگر میں یہ عرض کروں کہ وہ عملاً میڈیکل کی فیلڈ کو چھوڑ چکا ہے تو بالکل غلط نہ ہو گا۔ ہم نے ایک بہترین دماغ ضایع کر دیا۔
میں آج سے سترہ سال پہلے بہالپور تعینات تھا۔ مرتضیٰ بیگ برلاس جو ایک پایہ کے شاعر بھی تھے، بہالپور کے کمشنر تھے۔ وہ ایک علم دوست انسان تھے۔ ہم دونوں نے بہالپور کے سرکٹ ہائوس میں تصویروں کی ایک نمائش کروانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے شہر میں مصور تلاش کرنے شروع کر دیے۔ بتایا گیا کہ نیویارک سے فائن آرٹس میں ماسٹرز کرنے کے بعد ایک نوجوان مصور یہاں رہتا ہے۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ میں اس کے گھر گیا اور اسے اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز دکھانے کے لیے کہا۔ اس کا فن مصوری پر عبور دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ وہ لاہور N.C.A کے بعد نیویارک کے بہترین آرٹس کالج کا فارغ التحصیل تھا۔ میں نے اسے نمائش کے لیے درخواست کی تو وہ پریشان سا ہو گیا۔ اس نے بتایا کہ بہالپور میں تو کبھی اس کی تصویروں کی نمائش نہیں ہوئی۔
ہم سب نے ملکر محمد علی کی تصاویر کی نمائش سرکٹ ہائوس بہالپور میں منعقد کی۔ سیکڑوں آدمی اس کی تصویریں دیکھنے آئے۔ اس کی تمام تصویریں فروخت ہو گئیں۔ وہ حیرت زدہ تھا کہ اس کی پینٹنگز بھی بک سکتی ہیں۔ مگر وہ ایک مصور تھا۔ صرف اچھا مصور۔ وہ اپنے فن کو مارکیٹ کرنا نہیں جانتا تھا۔ بلکہ وہ مارکیٹنگ سے بالکل ناآشنا تھا۔ اسے یہ خیال چھو کر نہیں نکلا تھا کہ اس کی تصویریں اس قابل ہیں کہ لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہونگے۔ یہ شائد اس کی پہلی اور آخری نمائش تھی۔ وہ بہترین مصور ہونے کے باوجود مکمل گوشہ نشین تھا۔ یہ گوشہ نشینی شائد اب تک قائم ہے۔ بہت کم لوگوں کو محمد علی کے نام کا علم ہے۔ اس کے فن کی قدر کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اسے احساس نہیں تھا کہ ہر شعبے کی طرح آرٹ میں بھی اسے لابنگ کی ضرورت ہے۔ وہ اس نظام کو پہچاننے میں ناکام رہا اور اب مکمل ناکام زندگی گزار رہا ہے۔
میں جب لائق لوگوں کو ملتا ہوں تو ایک افسوس سا ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہے۔ وہ سب اس نظام میں پورے نہیں اترتے۔ شائد ان میں سے اکثر اس نظام کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ ہر شعبے میں ایک جیسی داستانیں ہیں۔ ان کی اکثریت ناکام اور کسی نہ کسی مسئلہ کا شکار ہے۔ میں تو اب بچوں کے والدین کو کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کے لیے ذہانت اور لیاقت کی دعا نہ مانگیں! انھیں اگر اس معاشرے میں کامیاب بنانا ہے تو بچپن سے انھیں جھوٹ بولنا سکھائیں! انھیں دوسروں کی محنت کا ثمر اپنے حساب میں ڈالنا سکھائیں! انھیں بتائیں کہ بغیر محنت کے ترقی کیسے کی جا سکتی ہے! کیونکہ اگر وہ خدانخواستہ ذہین ہوئے تو جلد کسی مسئلہ کا شکار ہو جائینگے۔ کوئی منفی رویہ کا بابو یا کوئی اوسط درجے کا موروثی سیاسی حاکم ان کی صلاحیتوں کو ان کابوجھ ثابت کر دیگا۔ اسے ناکام قرار دیا جائے گا۔ اپنے بچوں کو بتائیے کہ اس نظام میں ذہانت سب سے بڑا جرم ہے!