آہ اداکار شکیل بھی دنیا سے رخصت ہواپہلا حصہ
وہ خوبرو تھا وہ خوش خصال تھا وہ باکمال تھا وہ شکیل جمیل تھا ٹیلی وژن کی دنیا میں برسوں اس کے چرچے رہے، اس کے فلمی دنیا میں بھی قصے رہے مگر ایک دن اسے بھی اس دنیا سے جانا تھا۔ اسے بھی رونق دنیا کو خیر باد کہنا تھا اسے بھی ایک روز اپنے بے شمار چاہنے والوں کو اشکوں کا نذرانہ دینا تھا اور 29 جون 2023 اس کی زندگی کا آخری دن تھا۔
اداکار شکیل اسپتال کے بستر پر ہی بیماری کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا، اس وقت مجھے مشہور شاعر سرور بارہ بنکوی کا ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
شکیل کی شخصیت میں ایک ایسی ہی بات تھی۔ وہ دلکش بھی تھا اور دلربا بھی۔ اداکار شکیل سے میری بارہا ملاقاتیں کراچی میں بھی ہوئیں اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی پھر اس زمانے میں بھی جب ریڈیو اسٹیشن کراچی پر میں پروگرام بزم طلبا میں حصہ لیتا تھا تو شکیل ریڈیو کے نامور صداکار تھے۔
ریڈیو کا ایک وہ بھی دور تھا جب کراچی میں ٹیلی وژن نہیں آیا تھا تو صرف ریڈیو کے پروگرام ہی سامعین کی دلچسپی کا مرکز ہوا کرتے تھے پھر جب ٹیلی وژن کا کراچی سے آغاز ہوا تو ریڈیو کے نامور اور باصلاحیت آرٹسٹوں ہی نے ٹیلی وژن کے پروگراموں کو سجانے اور سنوارنے کا کردار ادا کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اداکار شکیل کو شکیل کا نام مشہور فلم ساز و ہدایت کار ایس۔ایم یوسف نے دیا تھا۔
شکیل کا گھریلو نام یوسف کمال تھا، ایس۔ایم یوسف نے خوبرو یوسف کمال کو ایک تقریب میں دیکھا تھا اور پھر اس نوجوان کو اپنی فلم '' ہونہار '' کے لیے کاسٹ کر لیا تھا اس کے لیے بھی یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ ایک نامور فلمساز و ہدایت کار کی یہ گڈ بک میں آگیا ہے۔
ایس۔ایم یوسف صاحب نے اس نوجوان کو فلمی نام دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نام تمہاری خوش جمال شخصیت کی عکاسی کرتا ہے اور ویسے بھی تمہارے نام کے دو آرٹسٹ پہلے سے فلمی دنیا میں موجود ہیں، یوسف خان مشہور اردو اور پنجابی فلموں کے ہیرو ہیں جب کہ کمال کے نام سے بھی ایک باکمال ہیرو فلمی دنیا میں کام کر رہا ہے، اب تم نے شکیل کے نام سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنا ہے، پھر شکیل نے اپنی ابتدا فلم ہونہار سے کی تھی۔
ہونہار کے دیگر آرٹسٹوں میں وحید مراد، رخسانہ، ترنم، سیما، ظہور احمد، فیض اور نرالا کے نام شامل تھے یہ فلم 1966 میں ریلیز ہوئی مگر یہ فلم ناکام فلموں میں ایک اضافہ ہی ثابت ہوئی تھی۔ اس طرح شکیل کو زیادہ پذیرائی نہ مل سکی تھی پھر شکیل کو بڑی مشکل سے چند فلموں میں کام ملا تھا جن میں جوش انتقام، ناخدا، پاپی اور زندگی کے نام شامل تھے شکیل لاہور میں بھی کافی عرصہ رہے مگر لاہور کی فلمی دنیا اس کو راس نہ آسکی تھی۔
لاہور کا فلمی ماحول بھی شکیل کے لیے سازگار نہ ہو سکا تو پھر شکیل لاہور سے واپس کراچی آگیا اور پھر کراچی ٹیلی وژن پر اس نے آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے شروع کر دیے تھے۔
یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ کراچی کے کئی ٹیلی وژن آرٹسٹوں نے لاہور کی فلموں میں کام کرنے کی کوشش کی تھی جن میں طلعت حسین، قربان جیلانی، معین اختر، جمشید انصاری، طلعت اقبال شامل تھے مگر ان آرٹسٹوں کو بھی فلمی دنیا میں قدر و منزلت حاصل نہ ہو سکی تھی اور نہ ہی وہاں کے فلمسازوں نے ان آرٹسٹوں کو قبول کیا تھا تو پھر یہ آرٹسٹ لاہور کی فلم انڈسٹری چھوڑ کر واپس کراچی آ کر ٹیلی وژن کی دنیا سے وابستہ ہوگئے تھے۔
اداکار شکیل بھی ان میں سے ایک تھا مگر جب اس نے اپنی تمام تر توجہ ٹیلی وژن کی طرف مرکوز کردی تھی تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اداکار شکیل کراچی ٹیلی وژن کی ضرورت اور ایک ناگزیر آرٹسٹ بن گیا تھا۔
کراچی ٹیلی وژن پر ان دنوں نامور اور ذہین رائٹرز کی بڑی کمی تھی پھر آہستہ آہستہ حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا جیسی مشہور خواتین رائٹرز نے ٹیلی وژن کا رخ کیا تو ٹیلی وژن کے ڈراموں میں جیسے جان سی پڑ گئی تھی۔
(جاری ہے)
اداکار شکیل اسپتال کے بستر پر ہی بیماری کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا، اس وقت مجھے مشہور شاعر سرور بارہ بنکوی کا ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
شکیل کی شخصیت میں ایک ایسی ہی بات تھی۔ وہ دلکش بھی تھا اور دلربا بھی۔ اداکار شکیل سے میری بارہا ملاقاتیں کراچی میں بھی ہوئیں اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی پھر اس زمانے میں بھی جب ریڈیو اسٹیشن کراچی پر میں پروگرام بزم طلبا میں حصہ لیتا تھا تو شکیل ریڈیو کے نامور صداکار تھے۔
ریڈیو کا ایک وہ بھی دور تھا جب کراچی میں ٹیلی وژن نہیں آیا تھا تو صرف ریڈیو کے پروگرام ہی سامعین کی دلچسپی کا مرکز ہوا کرتے تھے پھر جب ٹیلی وژن کا کراچی سے آغاز ہوا تو ریڈیو کے نامور اور باصلاحیت آرٹسٹوں ہی نے ٹیلی وژن کے پروگراموں کو سجانے اور سنوارنے کا کردار ادا کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اداکار شکیل کو شکیل کا نام مشہور فلم ساز و ہدایت کار ایس۔ایم یوسف نے دیا تھا۔
شکیل کا گھریلو نام یوسف کمال تھا، ایس۔ایم یوسف نے خوبرو یوسف کمال کو ایک تقریب میں دیکھا تھا اور پھر اس نوجوان کو اپنی فلم '' ہونہار '' کے لیے کاسٹ کر لیا تھا اس کے لیے بھی یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ ایک نامور فلمساز و ہدایت کار کی یہ گڈ بک میں آگیا ہے۔
ایس۔ایم یوسف صاحب نے اس نوجوان کو فلمی نام دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نام تمہاری خوش جمال شخصیت کی عکاسی کرتا ہے اور ویسے بھی تمہارے نام کے دو آرٹسٹ پہلے سے فلمی دنیا میں موجود ہیں، یوسف خان مشہور اردو اور پنجابی فلموں کے ہیرو ہیں جب کہ کمال کے نام سے بھی ایک باکمال ہیرو فلمی دنیا میں کام کر رہا ہے، اب تم نے شکیل کے نام سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنا ہے، پھر شکیل نے اپنی ابتدا فلم ہونہار سے کی تھی۔
ہونہار کے دیگر آرٹسٹوں میں وحید مراد، رخسانہ، ترنم، سیما، ظہور احمد، فیض اور نرالا کے نام شامل تھے یہ فلم 1966 میں ریلیز ہوئی مگر یہ فلم ناکام فلموں میں ایک اضافہ ہی ثابت ہوئی تھی۔ اس طرح شکیل کو زیادہ پذیرائی نہ مل سکی تھی پھر شکیل کو بڑی مشکل سے چند فلموں میں کام ملا تھا جن میں جوش انتقام، ناخدا، پاپی اور زندگی کے نام شامل تھے شکیل لاہور میں بھی کافی عرصہ رہے مگر لاہور کی فلمی دنیا اس کو راس نہ آسکی تھی۔
لاہور کا فلمی ماحول بھی شکیل کے لیے سازگار نہ ہو سکا تو پھر شکیل لاہور سے واپس کراچی آگیا اور پھر کراچی ٹیلی وژن پر اس نے آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے شروع کر دیے تھے۔
یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ کراچی کے کئی ٹیلی وژن آرٹسٹوں نے لاہور کی فلموں میں کام کرنے کی کوشش کی تھی جن میں طلعت حسین، قربان جیلانی، معین اختر، جمشید انصاری، طلعت اقبال شامل تھے مگر ان آرٹسٹوں کو بھی فلمی دنیا میں قدر و منزلت حاصل نہ ہو سکی تھی اور نہ ہی وہاں کے فلمسازوں نے ان آرٹسٹوں کو قبول کیا تھا تو پھر یہ آرٹسٹ لاہور کی فلم انڈسٹری چھوڑ کر واپس کراچی آ کر ٹیلی وژن کی دنیا سے وابستہ ہوگئے تھے۔
اداکار شکیل بھی ان میں سے ایک تھا مگر جب اس نے اپنی تمام تر توجہ ٹیلی وژن کی طرف مرکوز کردی تھی تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اداکار شکیل کراچی ٹیلی وژن کی ضرورت اور ایک ناگزیر آرٹسٹ بن گیا تھا۔
کراچی ٹیلی وژن پر ان دنوں نامور اور ذہین رائٹرز کی بڑی کمی تھی پھر آہستہ آہستہ حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا جیسی مشہور خواتین رائٹرز نے ٹیلی وژن کا رخ کیا تو ٹیلی وژن کے ڈراموں میں جیسے جان سی پڑ گئی تھی۔
(جاری ہے)