ٹیکسز کا سارا بوجھ عوام پر کیوں
آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کی تفصیلات جاری کردی ہیں جن کے تحت زراعت، تعمیرات پر ٹیکس اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کو مزید محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ مانیٹری پالیسی میں سختی لانا ہوگی۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا ہے۔
آئی ایم ایف سے صرف نو ماہ کی قلیل ترین مدت کے لیے ہونے والے معاہدے کی تفصیلات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس معاہدے کی شرائط کتنی سخت ہیں اور حکومت پاکستان کو کس قدر سخت مالیاتی ڈسپلن اختیار کرنا پڑے گا ۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط لازماً درمیانے اور نچلے طبقے پر اثر انداز ہوں گی۔
اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ آج پاکستان کو سخت معاشی بحران کا سامنا ہے، لاکھوں لوگوں کی صحت، خوراک اور مناسب معیار زندگی کے حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں۔ یہ ایسا مرحلہ ہے جس میں پاکستان کے کم آمدنی والے شہریوں کے حقوق اور مفادات داؤ پر لگ چکے ہیں۔
قرض بحالی کے لیے آئی ایم ایف نے جو شرائط پیش کی ہیں اُن میں جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی خاص طور پہ قابل ذکر ہیں جب کہ بجلی کے لائف لائن صارفین کو ٹیرف میں حاصل رعایت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
یہ ایک اضافی بوجھ عوام پہ ٹیکس کی صورت میں پڑ چکا ہے، پچاس روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کا بل بمشول ٹیکسز آئے گا۔ یہاں بجلی فرنس آئل سے بن رہی ہے اور اس کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگا۔
وہ ممالک جنھوں نے ترقی کرنا ہو اور اپنے عوام کو سہولیات دینا ہوں اُن ممالک کے لیے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے، مگر یہاں ملک صرف آئی ایم ایف کے کندھوں پہ چلایا جا رہا ہے اگر پاکستان کو معاشی بد حالی سے نکالنا ہے تو فوری طور پر ڈیم سے سستی بجلی بنائی جائے، ملک میں انویسٹمنٹ لائی جائے اور انڈسٹری پہ توجہ دی جائے، صورتحال یہ ہے کہ یہاں عوام ایک آٹے کے تھیلے کے لیے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
مہنگائی کی چکی میں عام آدمی پس کر رہ گیا ہے۔ آج ملک میں عام آدمی کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ بجلی، گیس، اشیاء خورونوش، ادویات ہر چیز پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ جولائی اور اگست میں بجلی کے بلوں سے عام آدمی کی جیب پر پڑنے والا بوجھ یقیناً ناقابل برداشت ہوگا۔ اسی طرح سردیوں میں گیس کے بل ادا کرنا مشکل ہوں گے۔
آمدن جہاں تھی وہیں ہے بلکہ کم ہو گئی ہے، روزگار کے مواقعے کم ہوئے ہیں جب کہ اخراجات میں مسلسل اضافہ شہریوں کو ذہنی طور پر بیمار کرنے کی بڑی وجہ ہے۔ لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سمیت کئی شہروں میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کو اس اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ مشکلات صرف عام آدمی کے لیے ہیں۔
آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر کہاں جائیں گے کون جانتا ہے۔ پھر سے مالداروں کو قرض دے کر معاف کردیا جائے کون پوچھنے والا ہے۔ اگر ملک میں مالی بدانتظامی ہے تو اس کی ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، اگر ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا، امراء کو رعایتیں دی جاتی ہیں تو بوجھ عام آدمی پر کیوں ڈالا جاتا ہے۔
رعایتیں لینے والے بوجھ کیوں نہیں اٹھاتے۔ کیا کوئی ایک معاہدہ عام آدمی کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ وہ عام آدمی جس کو صرف ایک تنخواہ ملتی ہے یا یومیہ اجرت پر زندگی گذارتا ہے اس کا حال کون پوچھے گا؟ امراء اور طاقتور افراد کے تو اربوں کھربوں کے قرضے معاف ہوتے ہیں لیکن ان قرضوں کا بوجھ عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے۔ کاش کوئی معاہدہ کروڑوں افراد کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کے لیے بھی ہو جائے۔
مہنگائی میں کمی کا واحد حل شرح سود کو بڑھانا ہے جو پہلے سے پاکستان میں 22 فیصد ہے۔ اسی شرح سود کی وجہ سے مارکیٹ میں پہلے سے بحران موجود ہے اور مہنگائی کم کرنے کے لیے اگر اس کو زیادہ بڑھایا جائے گا تو مارکیٹ اور کاروباری طبقہ مزید متاثر ہو گا۔ پاکستان کی حکومتیں صرف قرض حاصل کرنے کے لیے تمام شرائط پر عمل کرتی ہیں مگر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہم پہلے اکیس پروگرام کرچکے ہیں جن میں سے ایک ہی پروگرام تکمیل کو پہنچا، باقی بیچ راہوں میں ہی رہ گئے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں قرض کی ادائیگی کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے، جس نے پاکستان کو ایک Vicious Circle میں پہنچا دیا ہے۔ ہمارے اخراجات ہماری آمدن سے زائد ہیں۔
ہماری اشرافیہ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔ حال ہی میں سننے میں آ رہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہوں میں % 20 اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 90 کے قریب وزراء کی تعداد اور ان کی مراعات اور بیرونی دورے ۔
پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا مگر اس کا مستقبل کیا ہوگا ؟ کیا عوام کو ریلیف مل سکے گا؟ اسے تو ضروریات زندگی چاہئیں جو ابھی مہنگی ہیں۔ سابقہ حکومتوں کی طرح اس اتحادی حکومت نے بھی ٹیکس بیس بڑھانے اور اکانومی کو دستاویزی کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 25 کروڑ کی آبادی میں سے صرف بیالیس، تینتالیس لاکھ افراد ٹیکس گوشوارہ داخل کرواتے ہیں۔
ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد یا تو زیرو کی ریٹرن فائل کرتی ہے یا بہت کم آمدن ظاہر کر کے صرف فائلر ہونے کے لیے گوشوارہ داخل کرتے ہیں۔ ایک تنخواہ دار طبقہ ہے جس پر جتنا چاہے بوجھ ڈال دیا جائے کیونکہ ان کا ٹیکس ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔
باقی انجوائے کرتے ہیں۔ ان حالات میں کوئی ٹھوس اقدامات کیے بنا پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پاکستان پہلے ہی برین ڈرین کا شکار ہے۔ لوگ باہر بھاگ رہے ہیں ان میں پروفیشنلز بھی ہیں، مزدور طبقہ بھی ہے اور سرمایہ دار بھی۔
حکومت ٹیکس کا ایک بڑا حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا کر کے حاصل کرتی ہے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں کوئی توازن نہیں ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹیکس کی مد میں 12سے 14 ٹریلین اکٹھا کیا جا سکتا ہے اگر حکومت اور ایف بی آر سنجیدگی سے ٹیکس بیس بڑھانے پر توجہ دے تو۔ مگر اس کے لیے ایف بی آر کو کام کرنا ہو گا۔
ایف بی آر کے بابو لوگ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کے جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر معاملات چلا رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے بعد اگر ہم کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتے تو ہمیں اسی vicious circle میں ہی رہنا ہو گا اور بیرونی قرضوں پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔
اگر ہم ٹیکس، زراعت، انڈسٹری، اخراجات کم کرنے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات اور ریفارمز نہیں کرتے تو جیسا کہ امپورٹ پر سے مکمل طور پہ پابندی ہٹا لی گئی ہے اس سے جتنے ڈالر آئیں گے ان میں سے بڑی تعداد امپورٹ بل کلیئر کرنے میں خرچ ہو جائیں گے اور ہمارے حصے میں صرف قرض اور اس کا سود ہی بچے گا۔
امپورٹ کے متعلق پالیسی بنانا ہوگی جو لگژری آئٹمز میں ان اشیاء کی امپورٹ پر ٹیکس کی شرح چاہے ہزار فیصد تک بڑھا دیں جن لوگوں نے لگژری چیزیں استعمال کرنی ہیں، وہ ادا کریں ٹیکس۔ غریب آدمی کا کیا قصور ہے؟
جہاں پام آئل کی مد میں بے تحاشا زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے تو اس کے متعلق پالیسی بنائی جائے۔ پام آئل کی پلانٹیشن کا کامیاب تجربہ سندھ میں کیا جا چکا ہے اسے بڑھایا جائے تاکہ ہم اپنی ملکی ضروریات پوری کر سکیں اور اس کی مد میں امپورٹ بل کم کر سکیں۔
چائے کی امپورٹ پر بھی ہم بڑی مقدار میں زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں یہاں مانسہرہ شنکیاری میں چائے کی کاشت ہو رہی ہے، اسے مزید بڑھایا جاسکتا ہے اور اس طرح کے دوسرے علاقے بھی دریافت کیے جا سکتے ہیں جہاں چائے کی کاشت ممکن ہو تاکہ ہم لوکل کھپت پوری کرنے کے بعد اسے ایکسپورٹ کر سکیں۔
پاکستان اس وقت جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، ان حالات میں ٹیکس ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔ ہول سیل، ریٹیل سیل اور زراعت وغیرہ کے سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔
یہاں سیلز ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ اس میں بہت سے لوپ ہولز موجود ہیں جعلی اور فیک انوائسز کا ایک بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے جو کہ وقتاً فوقتاً پکڑے بھی جاتی ہیں اور یہ سلسلے ٹیکس چوری کا باعث بنتے ہیں۔ پھر سیلز ٹیکس کے ریفینڈز میں بھی خرابیاں موجود ہیں۔ ایک ناقص رائے ہے کہ جہاں ہم اپنے دوست عرب ممالک کی اتنی تعریفیں کرتے ہیں تو وہاں VAT ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔
ہم وہ کیوں نہیں اپنا لیتے؟ اس سے جعلی انوائسز، ان پٹ ایڈجسٹمنٹ اور ریفینڈز کا سارا نظام ہی ختم ہو جائے گا اور بڑی امید ہے کہ شاید سیلز ٹیکس کی مد میں حالیہ اکٹھے ہونے والے ٹیکس سے زائد ٹیکس اکٹھا ہو سکے۔
حالیہ معاہدہ سے پاکستان فوری طور پر ڈیفالٹ کی حالت سے تو نکل آیا مگر اس کے کوئی دور رس مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے، اگر ہم نے اپنی ڈگر نہ چھوڑی تو۔ ظاہر ہے جب آمدن اور اخراجات زیادہ ہوں گے تو قرض معاشی قتل ہی ثابت ہوں گے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا ہے۔
آئی ایم ایف سے صرف نو ماہ کی قلیل ترین مدت کے لیے ہونے والے معاہدے کی تفصیلات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس معاہدے کی شرائط کتنی سخت ہیں اور حکومت پاکستان کو کس قدر سخت مالیاتی ڈسپلن اختیار کرنا پڑے گا ۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط لازماً درمیانے اور نچلے طبقے پر اثر انداز ہوں گی۔
اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ آج پاکستان کو سخت معاشی بحران کا سامنا ہے، لاکھوں لوگوں کی صحت، خوراک اور مناسب معیار زندگی کے حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں۔ یہ ایسا مرحلہ ہے جس میں پاکستان کے کم آمدنی والے شہریوں کے حقوق اور مفادات داؤ پر لگ چکے ہیں۔
قرض بحالی کے لیے آئی ایم ایف نے جو شرائط پیش کی ہیں اُن میں جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی خاص طور پہ قابل ذکر ہیں جب کہ بجلی کے لائف لائن صارفین کو ٹیرف میں حاصل رعایت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
یہ ایک اضافی بوجھ عوام پہ ٹیکس کی صورت میں پڑ چکا ہے، پچاس روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کا بل بمشول ٹیکسز آئے گا۔ یہاں بجلی فرنس آئل سے بن رہی ہے اور اس کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگا۔
وہ ممالک جنھوں نے ترقی کرنا ہو اور اپنے عوام کو سہولیات دینا ہوں اُن ممالک کے لیے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے، مگر یہاں ملک صرف آئی ایم ایف کے کندھوں پہ چلایا جا رہا ہے اگر پاکستان کو معاشی بد حالی سے نکالنا ہے تو فوری طور پر ڈیم سے سستی بجلی بنائی جائے، ملک میں انویسٹمنٹ لائی جائے اور انڈسٹری پہ توجہ دی جائے، صورتحال یہ ہے کہ یہاں عوام ایک آٹے کے تھیلے کے لیے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
مہنگائی کی چکی میں عام آدمی پس کر رہ گیا ہے۔ آج ملک میں عام آدمی کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ بجلی، گیس، اشیاء خورونوش، ادویات ہر چیز پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ جولائی اور اگست میں بجلی کے بلوں سے عام آدمی کی جیب پر پڑنے والا بوجھ یقیناً ناقابل برداشت ہوگا۔ اسی طرح سردیوں میں گیس کے بل ادا کرنا مشکل ہوں گے۔
آمدن جہاں تھی وہیں ہے بلکہ کم ہو گئی ہے، روزگار کے مواقعے کم ہوئے ہیں جب کہ اخراجات میں مسلسل اضافہ شہریوں کو ذہنی طور پر بیمار کرنے کی بڑی وجہ ہے۔ لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سمیت کئی شہروں میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کو اس اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ مشکلات صرف عام آدمی کے لیے ہیں۔
آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر کہاں جائیں گے کون جانتا ہے۔ پھر سے مالداروں کو قرض دے کر معاف کردیا جائے کون پوچھنے والا ہے۔ اگر ملک میں مالی بدانتظامی ہے تو اس کی ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، اگر ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا، امراء کو رعایتیں دی جاتی ہیں تو بوجھ عام آدمی پر کیوں ڈالا جاتا ہے۔
رعایتیں لینے والے بوجھ کیوں نہیں اٹھاتے۔ کیا کوئی ایک معاہدہ عام آدمی کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ وہ عام آدمی جس کو صرف ایک تنخواہ ملتی ہے یا یومیہ اجرت پر زندگی گذارتا ہے اس کا حال کون پوچھے گا؟ امراء اور طاقتور افراد کے تو اربوں کھربوں کے قرضے معاف ہوتے ہیں لیکن ان قرضوں کا بوجھ عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے۔ کاش کوئی معاہدہ کروڑوں افراد کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کے لیے بھی ہو جائے۔
مہنگائی میں کمی کا واحد حل شرح سود کو بڑھانا ہے جو پہلے سے پاکستان میں 22 فیصد ہے۔ اسی شرح سود کی وجہ سے مارکیٹ میں پہلے سے بحران موجود ہے اور مہنگائی کم کرنے کے لیے اگر اس کو زیادہ بڑھایا جائے گا تو مارکیٹ اور کاروباری طبقہ مزید متاثر ہو گا۔ پاکستان کی حکومتیں صرف قرض حاصل کرنے کے لیے تمام شرائط پر عمل کرتی ہیں مگر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہم پہلے اکیس پروگرام کرچکے ہیں جن میں سے ایک ہی پروگرام تکمیل کو پہنچا، باقی بیچ راہوں میں ہی رہ گئے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں قرض کی ادائیگی کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے، جس نے پاکستان کو ایک Vicious Circle میں پہنچا دیا ہے۔ ہمارے اخراجات ہماری آمدن سے زائد ہیں۔
ہماری اشرافیہ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔ حال ہی میں سننے میں آ رہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہوں میں % 20 اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 90 کے قریب وزراء کی تعداد اور ان کی مراعات اور بیرونی دورے ۔
پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا مگر اس کا مستقبل کیا ہوگا ؟ کیا عوام کو ریلیف مل سکے گا؟ اسے تو ضروریات زندگی چاہئیں جو ابھی مہنگی ہیں۔ سابقہ حکومتوں کی طرح اس اتحادی حکومت نے بھی ٹیکس بیس بڑھانے اور اکانومی کو دستاویزی کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 25 کروڑ کی آبادی میں سے صرف بیالیس، تینتالیس لاکھ افراد ٹیکس گوشوارہ داخل کرواتے ہیں۔
ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد یا تو زیرو کی ریٹرن فائل کرتی ہے یا بہت کم آمدن ظاہر کر کے صرف فائلر ہونے کے لیے گوشوارہ داخل کرتے ہیں۔ ایک تنخواہ دار طبقہ ہے جس پر جتنا چاہے بوجھ ڈال دیا جائے کیونکہ ان کا ٹیکس ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔
باقی انجوائے کرتے ہیں۔ ان حالات میں کوئی ٹھوس اقدامات کیے بنا پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پاکستان پہلے ہی برین ڈرین کا شکار ہے۔ لوگ باہر بھاگ رہے ہیں ان میں پروفیشنلز بھی ہیں، مزدور طبقہ بھی ہے اور سرمایہ دار بھی۔
حکومت ٹیکس کا ایک بڑا حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا کر کے حاصل کرتی ہے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں کوئی توازن نہیں ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹیکس کی مد میں 12سے 14 ٹریلین اکٹھا کیا جا سکتا ہے اگر حکومت اور ایف بی آر سنجیدگی سے ٹیکس بیس بڑھانے پر توجہ دے تو۔ مگر اس کے لیے ایف بی آر کو کام کرنا ہو گا۔
ایف بی آر کے بابو لوگ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کے جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر معاملات چلا رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے بعد اگر ہم کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتے تو ہمیں اسی vicious circle میں ہی رہنا ہو گا اور بیرونی قرضوں پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔
اگر ہم ٹیکس، زراعت، انڈسٹری، اخراجات کم کرنے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات اور ریفارمز نہیں کرتے تو جیسا کہ امپورٹ پر سے مکمل طور پہ پابندی ہٹا لی گئی ہے اس سے جتنے ڈالر آئیں گے ان میں سے بڑی تعداد امپورٹ بل کلیئر کرنے میں خرچ ہو جائیں گے اور ہمارے حصے میں صرف قرض اور اس کا سود ہی بچے گا۔
امپورٹ کے متعلق پالیسی بنانا ہوگی جو لگژری آئٹمز میں ان اشیاء کی امپورٹ پر ٹیکس کی شرح چاہے ہزار فیصد تک بڑھا دیں جن لوگوں نے لگژری چیزیں استعمال کرنی ہیں، وہ ادا کریں ٹیکس۔ غریب آدمی کا کیا قصور ہے؟
جہاں پام آئل کی مد میں بے تحاشا زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے تو اس کے متعلق پالیسی بنائی جائے۔ پام آئل کی پلانٹیشن کا کامیاب تجربہ سندھ میں کیا جا چکا ہے اسے بڑھایا جائے تاکہ ہم اپنی ملکی ضروریات پوری کر سکیں اور اس کی مد میں امپورٹ بل کم کر سکیں۔
چائے کی امپورٹ پر بھی ہم بڑی مقدار میں زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں یہاں مانسہرہ شنکیاری میں چائے کی کاشت ہو رہی ہے، اسے مزید بڑھایا جاسکتا ہے اور اس طرح کے دوسرے علاقے بھی دریافت کیے جا سکتے ہیں جہاں چائے کی کاشت ممکن ہو تاکہ ہم لوکل کھپت پوری کرنے کے بعد اسے ایکسپورٹ کر سکیں۔
پاکستان اس وقت جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، ان حالات میں ٹیکس ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔ ہول سیل، ریٹیل سیل اور زراعت وغیرہ کے سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔
یہاں سیلز ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ اس میں بہت سے لوپ ہولز موجود ہیں جعلی اور فیک انوائسز کا ایک بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے جو کہ وقتاً فوقتاً پکڑے بھی جاتی ہیں اور یہ سلسلے ٹیکس چوری کا باعث بنتے ہیں۔ پھر سیلز ٹیکس کے ریفینڈز میں بھی خرابیاں موجود ہیں۔ ایک ناقص رائے ہے کہ جہاں ہم اپنے دوست عرب ممالک کی اتنی تعریفیں کرتے ہیں تو وہاں VAT ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔
ہم وہ کیوں نہیں اپنا لیتے؟ اس سے جعلی انوائسز، ان پٹ ایڈجسٹمنٹ اور ریفینڈز کا سارا نظام ہی ختم ہو جائے گا اور بڑی امید ہے کہ شاید سیلز ٹیکس کی مد میں حالیہ اکٹھے ہونے والے ٹیکس سے زائد ٹیکس اکٹھا ہو سکے۔
حالیہ معاہدہ سے پاکستان فوری طور پر ڈیفالٹ کی حالت سے تو نکل آیا مگر اس کے کوئی دور رس مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے، اگر ہم نے اپنی ڈگر نہ چھوڑی تو۔ ظاہر ہے جب آمدن اور اخراجات زیادہ ہوں گے تو قرض معاشی قتل ہی ثابت ہوں گے۔