’’ خوش نصیب ملزم‘‘
اتحادی حکومت کے ساتھی قومی وطن پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ کے پی آفتاب شیرپاؤ نے کہا ہے کہ 9 مئی کے ذمے داروں کو سزائیں دینے میں بہت دیر ہوگئی ہے جب تک 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو سزا نہیں ہوگی ملک کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ حصول انصاف میں تاخیر ناانصافی اور ملزموں کی سہولت کاری کے مترادف ہے جیساکہ ملک میں ہو رہا ہے۔
انھوں نے فرانس کے نظام انصاف کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ایک نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کو دو ہفتے ہوئے ہیں جس پر فرانسیسی حکومت نے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا اور وہاں کی عدالتوں نے ملزموں کو سزا دینے میں دیر نہیں کی اور ہنگاموں کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سیکڑوں ملزموں کو سزا سنا دی گئی، یہ ہوتا ہے انصاف کا نظام۔
سانحہ 9 مئی کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک یہ فیصلہ ہی نہیں ہوا کہ ملزموں کو کون سی عدالتوں میں پیش کرنا ہے۔ خبر ہے کہ سانحہ 9 مئی میں گرفتار بااثر خواتین ملزمان کا فوجی ٹرائل نہیں ہوگا اور 18 سال سے کم عمر کے ملزمان کو بھی فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ دو ماہ بعد بھی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ گرفتار ملزموں سے دو ماہ سے تفتیش ابھی جاری ہے اور کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔
انصاف کی فوری فراہمی کے لیے امریکا و برطانیہ کی بھی مثالیں دی جاتی ہیں جب کہ پاکستان میں نظام انصاف کا تو یہ حال ہے کہ بے گناہ کو مجرم قرار دے کر پھانسی دے دی جاتی ہے بعد میں وہ بے گناہ قرار پاتا ہے اور ناحق سزائے موت دینے والے محفوظ رہتے ہیں۔
پاکستان کی سول عدالتوں کے لیے مشہور ہے کہ دادا انصاف کے لیے عدالت جاتا ہے یا اپنے فیصلے کا منتظر رہ کر فوت ہو جاتا ہے مگر اس کی زندگی میں تو کیا اس کے بیٹے کی زندگی میں بھی نہیں انصاف نہیں ملتا اور پوتا خوش نصیب ہوتا ہے کہ جو انصاف اس کے دادا کو ملنا چاہیے تھا وہ عشرے گزر جانے کے بعد اس کے والد کو بھی نہیں ملا جو عشروں بعد حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوا۔
گزشتہ سالوں میں متعدد عدالتی فیصلے ایسے سامنے آئے جن کے فیصلوں میں تاخیر کے باعث وہ دنیا سے ملزم کی حیثیت میں فوت ہوگئے مگر بعد میں وہ بے قصور قرار پائے۔ سیکڑوں ملزمان اپنے جرم سے کہیں زیادہ سزا بھگت چکے ہوتے ہیں تو ان کی رہائی کا فیصلہ ہوتا ہے سیکڑوں جرمانے کی رقم ادا نہ کر سکنے کے باعث رہائی سے محروم رہتے ہیں۔
ملک کی جیلوں میں قید یا ضمانتوں پر سالوں اپنے فیصلوں کے منتظر رہتے ہیں مگر کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر پہ تاخیر ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ عدالت فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کر دیتی ہے مگر پھر بھی فرد جرم عائد نہیں ہوتی کیونکہ ملزم حاضر نہیں ہوتا یا فرد جرم سے بچنے کے لیے نچلی عدالت کا فیصلہ اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرکے فرد جرم رکوا دیتا ہے مگر انٰ عدالتوں میں فیصلے چیلنج امیر اور بااثر سیاستدانوں کے ہوتے ہیں اور ان خوش نصیبوں کو ریلیف عدالتوں سے توقع کے مطابق مل بھی جاتا ہے۔
ملک میں سب سے زیادہ خوش نصیب ایک سوا سال قبل آئینی طور پر اقتدار سے محروم کیا جانے والا سابق وزیر اعظم بھی ہے جس کے آگے اتحادی حکومت ہے۔
بے بس ہے اور خواہش کے باوجود اسے سزا دلانا تو دور کی بات اسے صرف 9 مئی کو ایک روز گرفتار کر کے پھنس گئی تھی' اس کی گرفتاری کو غیر قانونی قراردیا گیا جو ایک رات عدالت کے حکم پر سرکاری ریسٹ ہاؤس میں سرکاری مہمان رہا اور گزشتہ روز اسلام آباد سے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ لاہور پہنچایا گیا تھا جس کے خلاف درجنوں مقدمات ملک بھر میں درج ہیں مگر موجودہ بے بس حکومت اسے دوبارہ گرفتار کرانے کی جرأت نہ کرسکی۔
ملک میں ایسے صدر مملکت 'دو سابق وزرائے اعظم اور متعدد وزرائے اعلیٰ کے علاوہ درجنوں سابق وزیر بھی ہیں جن کو پی ٹی آئی حکومت میں گرفتار کرایا گیا تھا اور مہینوں جیلوں میں رکھا گیا۔
وہ مہینوں جسمانی ریمانڈ پر تحقیقات کے لیے اداروں کی حراست میں رہے۔ عدالتوں میں پہلے بھی پیش ہوتے رہے اور اتحادی حکومت سے تعلق کے باوجود اب بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے سابق دور میں عدالتوں سے ضمانت حاصل کی تھی مگر وہ اب بھی سوا سال سے اپنے فیصلوں کے منتظر ہیں۔
اتحادی وزیر اعظم جو سابق وزیر اعظم کا مہینوں قیدی رہا اپنے سوا سالہ اقتدار میں سابق خوش نصیب وزیر اعظم کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور دعوؤں تک محدود ہے اور اتحادی حکومت بھی بے بس ہے۔ توشہ خانہ سے القادر ٹرسٹ تک کے مضبوط مقدمات کے باوجود ان کا کچھ نہیں بگڑا۔ سابق وزیر اعظم کو ریلیف دیے جانے کی ایسی عدالتی مثالیں قائم ہوئی ہیں جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ حصول انصاف میں تاخیر ناانصافی اور ملزموں کی سہولت کاری کے مترادف ہے جیساکہ ملک میں ہو رہا ہے۔
انھوں نے فرانس کے نظام انصاف کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ایک نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کو دو ہفتے ہوئے ہیں جس پر فرانسیسی حکومت نے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا اور وہاں کی عدالتوں نے ملزموں کو سزا دینے میں دیر نہیں کی اور ہنگاموں کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سیکڑوں ملزموں کو سزا سنا دی گئی، یہ ہوتا ہے انصاف کا نظام۔
سانحہ 9 مئی کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک یہ فیصلہ ہی نہیں ہوا کہ ملزموں کو کون سی عدالتوں میں پیش کرنا ہے۔ خبر ہے کہ سانحہ 9 مئی میں گرفتار بااثر خواتین ملزمان کا فوجی ٹرائل نہیں ہوگا اور 18 سال سے کم عمر کے ملزمان کو بھی فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ دو ماہ بعد بھی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ گرفتار ملزموں سے دو ماہ سے تفتیش ابھی جاری ہے اور کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔
انصاف کی فوری فراہمی کے لیے امریکا و برطانیہ کی بھی مثالیں دی جاتی ہیں جب کہ پاکستان میں نظام انصاف کا تو یہ حال ہے کہ بے گناہ کو مجرم قرار دے کر پھانسی دے دی جاتی ہے بعد میں وہ بے گناہ قرار پاتا ہے اور ناحق سزائے موت دینے والے محفوظ رہتے ہیں۔
پاکستان کی سول عدالتوں کے لیے مشہور ہے کہ دادا انصاف کے لیے عدالت جاتا ہے یا اپنے فیصلے کا منتظر رہ کر فوت ہو جاتا ہے مگر اس کی زندگی میں تو کیا اس کے بیٹے کی زندگی میں بھی نہیں انصاف نہیں ملتا اور پوتا خوش نصیب ہوتا ہے کہ جو انصاف اس کے دادا کو ملنا چاہیے تھا وہ عشرے گزر جانے کے بعد اس کے والد کو بھی نہیں ملا جو عشروں بعد حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوا۔
گزشتہ سالوں میں متعدد عدالتی فیصلے ایسے سامنے آئے جن کے فیصلوں میں تاخیر کے باعث وہ دنیا سے ملزم کی حیثیت میں فوت ہوگئے مگر بعد میں وہ بے قصور قرار پائے۔ سیکڑوں ملزمان اپنے جرم سے کہیں زیادہ سزا بھگت چکے ہوتے ہیں تو ان کی رہائی کا فیصلہ ہوتا ہے سیکڑوں جرمانے کی رقم ادا نہ کر سکنے کے باعث رہائی سے محروم رہتے ہیں۔
ملک کی جیلوں میں قید یا ضمانتوں پر سالوں اپنے فیصلوں کے منتظر رہتے ہیں مگر کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر پہ تاخیر ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ عدالت فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کر دیتی ہے مگر پھر بھی فرد جرم عائد نہیں ہوتی کیونکہ ملزم حاضر نہیں ہوتا یا فرد جرم سے بچنے کے لیے نچلی عدالت کا فیصلہ اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرکے فرد جرم رکوا دیتا ہے مگر انٰ عدالتوں میں فیصلے چیلنج امیر اور بااثر سیاستدانوں کے ہوتے ہیں اور ان خوش نصیبوں کو ریلیف عدالتوں سے توقع کے مطابق مل بھی جاتا ہے۔
ملک میں سب سے زیادہ خوش نصیب ایک سوا سال قبل آئینی طور پر اقتدار سے محروم کیا جانے والا سابق وزیر اعظم بھی ہے جس کے آگے اتحادی حکومت ہے۔
بے بس ہے اور خواہش کے باوجود اسے سزا دلانا تو دور کی بات اسے صرف 9 مئی کو ایک روز گرفتار کر کے پھنس گئی تھی' اس کی گرفتاری کو غیر قانونی قراردیا گیا جو ایک رات عدالت کے حکم پر سرکاری ریسٹ ہاؤس میں سرکاری مہمان رہا اور گزشتہ روز اسلام آباد سے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ لاہور پہنچایا گیا تھا جس کے خلاف درجنوں مقدمات ملک بھر میں درج ہیں مگر موجودہ بے بس حکومت اسے دوبارہ گرفتار کرانے کی جرأت نہ کرسکی۔
ملک میں ایسے صدر مملکت 'دو سابق وزرائے اعظم اور متعدد وزرائے اعلیٰ کے علاوہ درجنوں سابق وزیر بھی ہیں جن کو پی ٹی آئی حکومت میں گرفتار کرایا گیا تھا اور مہینوں جیلوں میں رکھا گیا۔
وہ مہینوں جسمانی ریمانڈ پر تحقیقات کے لیے اداروں کی حراست میں رہے۔ عدالتوں میں پہلے بھی پیش ہوتے رہے اور اتحادی حکومت سے تعلق کے باوجود اب بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے سابق دور میں عدالتوں سے ضمانت حاصل کی تھی مگر وہ اب بھی سوا سال سے اپنے فیصلوں کے منتظر ہیں۔
اتحادی وزیر اعظم جو سابق وزیر اعظم کا مہینوں قیدی رہا اپنے سوا سالہ اقتدار میں سابق خوش نصیب وزیر اعظم کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور دعوؤں تک محدود ہے اور اتحادی حکومت بھی بے بس ہے۔ توشہ خانہ سے القادر ٹرسٹ تک کے مضبوط مقدمات کے باوجود ان کا کچھ نہیں بگڑا۔ سابق وزیر اعظم کو ریلیف دیے جانے کی ایسی عدالتی مثالیں قائم ہوئی ہیں جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔