مراد رسولؐ سیدنا عمر فاروق ؓ
محرم الحرام کے ساتھ ہی نئے اسلامی سال کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ ماہ مقدس شہادتوں کا مہینہ ہے۔ یکم محرم الحرام کو اسلامی تاریخ کے عظیم انسان، عبقری شخصیت، بے مثال حکمران اور قائد، پیغمبراسلام حضرت محمدﷺ کے جاں نثار صحابی، امیر المؤمنین، خلیفہ ثانی، عدل وانصاف، حق گوئی وبیباکی کے پیکر مجسم حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا اور دس محرم الحرام کو نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول، جنت کے نوجوانوں کے سردار حضرت سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت ہوئی۔
آج کے اس کالم میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سیرت و کردار کا تذکرہ کریں گے جن کی زندگی اسلام کے لیے ایک عظیم نعمت رہی۔ آپ کے قبول اسلام کے ذریعہ کمزور مسلمانوں کو ایک حوصلہ ملا اور خود رسول اکرمﷺ کو ایک بے مثال رفیق وہمدرد نصیب ہوا۔ وہ رفیق جس نے کلمہ پڑھا تو مسلمانوں کے لیے کعبہ کا دروازہ کھل گیا۔
وہ رفیق جس کے اسلام لانے سے کعبے میں اللہ کی توحید کے سجدے شروع ہوگئے۔ وہ رفیق جو منبر پر بیٹھ کر بولے تو اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعے ان کی آواز کو کئی میل دور پہنچا دے۔ وہ رفیق جو زمین پر درہ مارے تو اللہ زلزلے روک دے۔
وہ رفیق جو دریا کو خط لکھے تو اللہ دریا چلا دے۔ وہ رفیق جس کے لیے اللہ کے محبوبﷺ کہیں کہ عمر! جہاں سے تم گزرو شیطان نہیں گزرے گا۔ وہ رفیق جس کے لیے پیغمبر کہیں کہ عمر! میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ تاریخ اسلام کے عظیم مورخ ابن ہشام نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک اسلام نہیں لائے تھے تو مسلمان کمزور تھے۔
لوگ اسلام کی باتیں چھپ چھپ کر کرتے تھے۔ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام لائے تو انھوں نے کعبہ پہنچ کر اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ یہ روایت بھی ابن ہشام کی ہی ہے کہ حضرت عمر جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے حضور اکرمﷺ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! اسلام کو عمر کے وجود سے سرفراز فرما۔
بلاشبہ سیدنا عمر فاروقؓ کی ذاتِ گرامی سے اسلام کو اور مسلمانوں کو بہت فیض پہنچا، اور آپؓ کی زندگی اسلام لانے کے بعد اسلام کے لیے وقف تھی،آپ نے ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا والے اس کی نہ صرف داد دینے پر مجبور ہوئے بلکہ اس کو اختیار کر کے اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوں کے نظام کو بھی درست کیا۔
بعض تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر دنیا کا نظام سنبھالنا ہو تو ابوبکر و عمر کو اپنا آئیڈیل بنایا جائے۔ جن کی عظمت اور شوکت کا رعب دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو تھا اور بڑی بڑی سلطنتیں جن کے نام سے تھراتی تھیں۔ ایسے عظیم انسان کے دل میں اللہ تعالی نے انسانیت کی خدمت، رعایا کی خبر گیری، مخلوق خدا کے احوال سے واقفیت کا عجیب جذبہ رکھا تھا۔
راتوں کی تنہائیوں میں لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنے اور ان کے حال سے آگاہ ہونے کے لیے گشت کرنا، ہر ضرورت مند کے کام آنا اور ان کی خدمت انجام دینے کی کوشش میں لگے رہنا آپ کا امتیازتھا،نبی کریمﷺ نے اس رفیقِ خاص کے بہت سے فضائل بیان کیے اور ان کی عظمتوں کو اجاگر کیا۔
اللہ کریم نے اپنے محبوبﷺ کے اس یار کو خلافت عطا کی تو سیدنا عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں عدل و انصاف کی بہترین مثال قائم فرمائی اور عادل حکمران بن کر تعلیمات ِعدل کو دنیا میں پھیلادیا۔
مساوات و برابری اور حقوق کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا۔ اللہ تعالی نے آپ کو جو بلند مقام ومرتبہ عطا فرمایا تھا اور آپ کی حکمرانی کے چرچے طول وعرض میں پھیل چکے تھے لیکن اس کے باوجود بھی تواضع و سادگی اور زہد و تقویٰ میں غیر معمولی اضافہ ہی ہوتا گیا،آپ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ نبی کریمﷺ نے جس حال میں چھوڑا اسی پر پوری زندگی گذرجائے، عمدہ کھانوں، بہترین غذاؤں اور عیش و عشرت کی زندگی سے ہمیشہ گریز ہی کیا کرتے تھے۔
آپ کے عدل کا معیار کیا تھا اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا۔
امیر المومنین! آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجیے۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک دْرا پیٹھ پر مارا اور کہا: جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہوں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو۔ بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو (جسے درا مارا تھا) بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو۔ میں نے تم سے زیادتی کی ہے۔
وقت کا بادشاہ، چوبیس لاکھ مربع میل کا حکمران، ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے۔ میں نے تم سے زیادتی کی مجھے ویسی ہی سزا دو۔اس شخص نے کہا: میں نے آپ کو معاف کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا! نہیں، نہیں کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا تم مجھے ایک درا مارو تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد زریں میں مسلمانوں کو بڑی ہی عظمتیں بخشی تھیں۔ انھوں نے اسلامی سلطنت کے ڈانڈے ایک طرف مصر سے ملحق افریقی صحراؤں سے ملا دیے تھے دوسری طرف عراق و شام و ایران کے طول و عرض سے گزر کر افغانستان کے شہر کابل تک پہنچ گئے تھے اور ایک وسیع سلطنت قائم کردی تھی جس کی مثال تاریخ نے کبھی کبھی دیکھی تھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو ایک اقتصادی و معاشی نظام دیا۔ اس سے پہلے کبھی عوامی زندگی کو وہ خوشحالی میسر نہ آئی تھی جو آپ کے دور خلافت میں انسانی جھولی میں ڈالی گئی تھی۔ کبھی عوام الناس کے ایک ایک فرد اور ایک ایک شخص کا ریاست کے خزانے پر وہ حق تسلیم نہ ہوا تھا جو آپ کے دور خلافت میں تھا۔
مسلمانوں نے اپنے جوش، ثبات اوراستقلال کے باعث حضرت عمرؓ کے دس سالہ عہد خلافت میں روم ایران کی عظیم الشان حکومتوں کا تختہ الٹ دیا، لیکن کیا تاریخ کوئی ایسی مثال پیش کرسکتی ہے کہ چند صحرا نشینوں نے اس قدر قلیل مدت میں ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا کردیا ہو؟ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو احکام پر نکتہ چینی کرنے کی ایسی عام آزادی دی تھی کہ معمولی سے معمولی آدمیوں کو خود خلیفہ وقت پر اعتراض کرنے میں باک نہیں ہوتا تھا، ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار حضرت عمرؓ کو مخاطب کیا۔
حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکنا چاہا، حضرت عمرؓ نے فرمایا ''نہیں کہنے دو، اگریہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اورہم نہ مانیں تو ہم''یہ آزادی صرف مردوں تک محدود نہ تھی بلکہ عورتیں بھی مردوں کے قدم بہ قدم تھیں۔
حضرت عمرؓ نے تمام ملک میں مردم شماری کرائی، اضلاع میں باقاعدہ عدالتیں قائم کیں، محکمہ قضا کے لیے اصول وقوانین بنائے، قاضیوں کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ یہ لوگ رشوت ستانی سے محفوظ رہیں۔
ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے حضرت عمرؓ نے احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا، اس کے افسر کانام ''صاحب الاحداث'' تھا، حضرت ابوہریرہؓ کو بحرین کا صاحب الاحداث بنادیا تو ان کو خاص طورپر ہدایت کی کہ امن وامان قائم رکھنے کے علاوہ احتساب کی خدمت بھی انجام دیں۔
احتساب کے متعلق جو کام ہیں، مثلاً دکاندار ناپ تول میں کمی نہ کریں،کوئی شخص شاہراہ پر مکان نہ بنائے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، شراب علانیہ نہ بکنے پائے، اس قبیل کے اوربہت سے امور کی نگرانی کا جن کا تعلق پبلک مفاد اور احترام شریعت سے تھا اور پورا انتظام تھا اورصاحبان احداث (افسران پولیس) اس خدمت کو انجام دیتے تھے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا۔ اس کا نام ابو لولوہ تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجیے۔ امیر المومنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لیے زیادہ نہیں ہیں۔
یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔
26 ذی الحجہ 23ہجری کو آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بْری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد یکم محرم 24 ہجری کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔
آج کے اس کالم میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سیرت و کردار کا تذکرہ کریں گے جن کی زندگی اسلام کے لیے ایک عظیم نعمت رہی۔ آپ کے قبول اسلام کے ذریعہ کمزور مسلمانوں کو ایک حوصلہ ملا اور خود رسول اکرمﷺ کو ایک بے مثال رفیق وہمدرد نصیب ہوا۔ وہ رفیق جس نے کلمہ پڑھا تو مسلمانوں کے لیے کعبہ کا دروازہ کھل گیا۔
وہ رفیق جس کے اسلام لانے سے کعبے میں اللہ کی توحید کے سجدے شروع ہوگئے۔ وہ رفیق جو منبر پر بیٹھ کر بولے تو اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعے ان کی آواز کو کئی میل دور پہنچا دے۔ وہ رفیق جو زمین پر درہ مارے تو اللہ زلزلے روک دے۔
وہ رفیق جو دریا کو خط لکھے تو اللہ دریا چلا دے۔ وہ رفیق جس کے لیے اللہ کے محبوبﷺ کہیں کہ عمر! جہاں سے تم گزرو شیطان نہیں گزرے گا۔ وہ رفیق جس کے لیے پیغمبر کہیں کہ عمر! میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ تاریخ اسلام کے عظیم مورخ ابن ہشام نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک اسلام نہیں لائے تھے تو مسلمان کمزور تھے۔
لوگ اسلام کی باتیں چھپ چھپ کر کرتے تھے۔ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام لائے تو انھوں نے کعبہ پہنچ کر اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ یہ روایت بھی ابن ہشام کی ہی ہے کہ حضرت عمر جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے حضور اکرمﷺ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! اسلام کو عمر کے وجود سے سرفراز فرما۔
بلاشبہ سیدنا عمر فاروقؓ کی ذاتِ گرامی سے اسلام کو اور مسلمانوں کو بہت فیض پہنچا، اور آپؓ کی زندگی اسلام لانے کے بعد اسلام کے لیے وقف تھی،آپ نے ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا والے اس کی نہ صرف داد دینے پر مجبور ہوئے بلکہ اس کو اختیار کر کے اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوں کے نظام کو بھی درست کیا۔
بعض تو یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر دنیا کا نظام سنبھالنا ہو تو ابوبکر و عمر کو اپنا آئیڈیل بنایا جائے۔ جن کی عظمت اور شوکت کا رعب دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو تھا اور بڑی بڑی سلطنتیں جن کے نام سے تھراتی تھیں۔ ایسے عظیم انسان کے دل میں اللہ تعالی نے انسانیت کی خدمت، رعایا کی خبر گیری، مخلوق خدا کے احوال سے واقفیت کا عجیب جذبہ رکھا تھا۔
راتوں کی تنہائیوں میں لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنے اور ان کے حال سے آگاہ ہونے کے لیے گشت کرنا، ہر ضرورت مند کے کام آنا اور ان کی خدمت انجام دینے کی کوشش میں لگے رہنا آپ کا امتیازتھا،نبی کریمﷺ نے اس رفیقِ خاص کے بہت سے فضائل بیان کیے اور ان کی عظمتوں کو اجاگر کیا۔
اللہ کریم نے اپنے محبوبﷺ کے اس یار کو خلافت عطا کی تو سیدنا عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں عدل و انصاف کی بہترین مثال قائم فرمائی اور عادل حکمران بن کر تعلیمات ِعدل کو دنیا میں پھیلادیا۔
مساوات و برابری اور حقوق کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا۔ اللہ تعالی نے آپ کو جو بلند مقام ومرتبہ عطا فرمایا تھا اور آپ کی حکمرانی کے چرچے طول وعرض میں پھیل چکے تھے لیکن اس کے باوجود بھی تواضع و سادگی اور زہد و تقویٰ میں غیر معمولی اضافہ ہی ہوتا گیا،آپ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ نبی کریمﷺ نے جس حال میں چھوڑا اسی پر پوری زندگی گذرجائے، عمدہ کھانوں، بہترین غذاؤں اور عیش و عشرت کی زندگی سے ہمیشہ گریز ہی کیا کرتے تھے۔
آپ کے عدل کا معیار کیا تھا اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا۔
امیر المومنین! آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجیے۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک دْرا پیٹھ پر مارا اور کہا: جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہوں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو۔ بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو (جسے درا مارا تھا) بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو۔ میں نے تم سے زیادتی کی ہے۔
وقت کا بادشاہ، چوبیس لاکھ مربع میل کا حکمران، ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے۔ میں نے تم سے زیادتی کی مجھے ویسی ہی سزا دو۔اس شخص نے کہا: میں نے آپ کو معاف کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا! نہیں، نہیں کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا تم مجھے ایک درا مارو تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد زریں میں مسلمانوں کو بڑی ہی عظمتیں بخشی تھیں۔ انھوں نے اسلامی سلطنت کے ڈانڈے ایک طرف مصر سے ملحق افریقی صحراؤں سے ملا دیے تھے دوسری طرف عراق و شام و ایران کے طول و عرض سے گزر کر افغانستان کے شہر کابل تک پہنچ گئے تھے اور ایک وسیع سلطنت قائم کردی تھی جس کی مثال تاریخ نے کبھی کبھی دیکھی تھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو ایک اقتصادی و معاشی نظام دیا۔ اس سے پہلے کبھی عوامی زندگی کو وہ خوشحالی میسر نہ آئی تھی جو آپ کے دور خلافت میں انسانی جھولی میں ڈالی گئی تھی۔ کبھی عوام الناس کے ایک ایک فرد اور ایک ایک شخص کا ریاست کے خزانے پر وہ حق تسلیم نہ ہوا تھا جو آپ کے دور خلافت میں تھا۔
مسلمانوں نے اپنے جوش، ثبات اوراستقلال کے باعث حضرت عمرؓ کے دس سالہ عہد خلافت میں روم ایران کی عظیم الشان حکومتوں کا تختہ الٹ دیا، لیکن کیا تاریخ کوئی ایسی مثال پیش کرسکتی ہے کہ چند صحرا نشینوں نے اس قدر قلیل مدت میں ایسا عظیم الشان انقلاب پیدا کردیا ہو؟ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو احکام پر نکتہ چینی کرنے کی ایسی عام آزادی دی تھی کہ معمولی سے معمولی آدمیوں کو خود خلیفہ وقت پر اعتراض کرنے میں باک نہیں ہوتا تھا، ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار حضرت عمرؓ کو مخاطب کیا۔
حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکنا چاہا، حضرت عمرؓ نے فرمایا ''نہیں کہنے دو، اگریہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اورہم نہ مانیں تو ہم''یہ آزادی صرف مردوں تک محدود نہ تھی بلکہ عورتیں بھی مردوں کے قدم بہ قدم تھیں۔
حضرت عمرؓ نے تمام ملک میں مردم شماری کرائی، اضلاع میں باقاعدہ عدالتیں قائم کیں، محکمہ قضا کے لیے اصول وقوانین بنائے، قاضیوں کی بیش قرار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ یہ لوگ رشوت ستانی سے محفوظ رہیں۔
ملک میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے حضرت عمرؓ نے احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا، اس کے افسر کانام ''صاحب الاحداث'' تھا، حضرت ابوہریرہؓ کو بحرین کا صاحب الاحداث بنادیا تو ان کو خاص طورپر ہدایت کی کہ امن وامان قائم رکھنے کے علاوہ احتساب کی خدمت بھی انجام دیں۔
احتساب کے متعلق جو کام ہیں، مثلاً دکاندار ناپ تول میں کمی نہ کریں،کوئی شخص شاہراہ پر مکان نہ بنائے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، شراب علانیہ نہ بکنے پائے، اس قبیل کے اوربہت سے امور کی نگرانی کا جن کا تعلق پبلک مفاد اور احترام شریعت سے تھا اور پورا انتظام تھا اورصاحبان احداث (افسران پولیس) اس خدمت کو انجام دیتے تھے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا۔ اس کا نام ابو لولوہ تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجیے۔ امیر المومنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لیے زیادہ نہیں ہیں۔
یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔
26 ذی الحجہ 23ہجری کو آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بْری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد یکم محرم 24 ہجری کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔