انڈر گراؤنڈ
اشرف شاد سینئر صحافی، ناول نگار، محقق اور 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ نوجوانی میں کارل مارکس، اینگلس اور ماؤزے تنگ کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ طالب علمی کے زمانہ میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں متحرک رہے۔
صحافت کا پیشہ اختیار کیا تو صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے فعال کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔آزادئ صحافت کا علم اٹھائے لاہور، کراچی اور حیدرآباد کی جیلوں میں قید کیے گئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں جب روزگار کے دروازے بند ہوئے تو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی، پہلے امریکا ، پھر آسٹریلیا چلے گئے مگر ترقی پسند مظلوم طبقات کے ساتھ یکجہتی اور تخلیق ان کی زندگی کا حصہ ہیں۔
ان کی حالیہ کتاب '' انڈر گراؤنڈ '' پاکستانی انقلابی پارٹیوں کی کہانیاں ہیں۔ کتاب میں اشرف شاد اور سہیل سانگی کے تجربات شامل کیے گئے ہیں۔ مجاہد بریلوی اور عامر ضیاء کے مشاہدات بھی شامل ہیں ۔
کتاب کا انتساب '' انقلابی تحریکوں کے گمنام کارکنوں کے نام'' ہے۔ اشرف شاد پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ کیمبرج یونیورسٹی کے تاریخ دان پروفیسر ٹم ہاربر نے حال ہی میں تقریباً دو سال قبل اپنی کتاب ایشیا انڈر گراؤنڈ شایع کی ہے جسے پروفیسر ہاربر نے بیسویں صدی کی ان انقلابی تحریکوں کی جدوجہد کا احاطہ کیا ہے، جس نے ایشیا کے پسے ہوئے نادار لوگوں میں اجتماعی انقلابی شعور بیدار کر کے نوآبادیاتی اور استحصالی نظام کے شکنجہ سے آزادی حاصل کرنے کی راہ ہموار کی جس کے نتیجہ میں چین، کوریا اور انڈونیشیا جیسی ریاستوں پر مشتمل جدید ایشیا کا ظہور ہوا۔ اشرف شاد لکھتے ہیں کہ زیرِ نظر کتاب انڈر گراؤنڈ بھی ایک نامکمل کام ہے۔
یہ کوئی علمی اور تحقیقی کام ہے بھی نہیں، یہ چند دوستوں کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے باب 1کا عنوان '' انقلاب و انقلاب'' ہے۔ اشرف شاد لکھتے ہیں کہ '' میں 1969 میں طفیل عباس کی قیادت میں انقلابی جدوجہد کرنے والی زیر زمین کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوا اور میں نے پارٹی کے صحافیوں والے سیل میں کام کرنا شروع کیا۔
60ء کی دہائی میں جب کمیونسٹ تحریک ماسکو نواز اور چین نواز گروپوں میں تقسیم ہوئی تو پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر کام کرنے والی جماعتیں بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئیں۔
طفیل عباس اور ان کی پارٹی کو چین کی کمیونسٹ پارٹی تسلیم کرتی تھی۔'' وہ لکھتے ہیں کہ '' میرے کئی دوست طفیل عباس کی پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ شبر اعظمی طلبہ محاذ پر تھے۔ نقاش کاظمی ادبی محاذ پر سرگرم تھے، نعیم آروی پہلے سے پارٹی سے منسلک تھے۔
جب صحافیوں کے زیرِ زمین سیل نے کام کرنا شروع کیا تو اس میں ارشاد راؤ، ظفر رضوی اور نعیم آروی شامل تھے۔ محمود شام ابتدائی ایک دو اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ عبدالحمید چھاپرا کے بارے میں یہ تاثر غلط تھا کہ وہ پارٹی کے کارکن تھے۔
ظفر رضوی اصول پسند صحافی تھے۔ صحافیوں کے سیل کے انچارج شبر نقوی تھے۔ پارٹی کا اجلاس ایوب صاحب کے گھر میں ہوتا تھا جو شبر نقوی کے سسر تھے۔
پارٹی کے صحافیوں والے سیل میں عابد زبیری کا اضافہ حیرت انگیز تھا۔'' اشرف شاد نے لکھا ہے کہ '' منہاج برنا کا کسی کمیونسٹ پارٹی سے شاید تعلق رہا ہو لیکن وہ میرے زمانہ میں طفیل عباس کی پارٹی میں نہیں تھے۔ '' (کمیونسٹ پارٹی کے ایک سابق کارکن کا کہنا ہے کہ اشرف شاد کی منہاج برنا کے بارے میں یہ بات مصدقہ نہیں ہے۔) اشرف شاد نے اس باب میں کمیونسٹ پارٹی اور پیپلز پارٹی کے تعلق کا سیر حاصل تجزیہ کیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی نے اپنے اراکین اور ہمدردوں کو 1970 کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر کے تاریخی غلطی کی تھی۔ حسن ناصر زیرِ زمین رہ کر کام کرتے تھے اور انھیں زیرِ زمین رکھنے کی ذمے داری طفیل عباس کی تھی جو پارٹی کے کراچی کے سیکریٹری تھے۔
جام ساقی مقدمہ میں برسوں اسیری میں گزارنے والے صحافی سہیل سانگی نے لکھا ہے کہ برصغیر میں کمیونسٹ تحریک کا آغاز ہی روپوشی سے ہوتا ہے۔
جب بیرون ملک سے آنے والے کمیونسٹ نظریات کے حامل لوگوں کو گرفتار کیا جاتا تھا۔ متحدہ ہندوستان میں پارٹی پر کم از کم تین مرتبہ پابندی عائد کی گئی۔ سرد جنگ کے دوران تقریباً نصف دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں انڈر گراؤنڈ رہیں۔
سہیل سانگی نے پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل نازش امروہوی سے اپنی پہلی ملاقات کی خوبصورت منظر کشی کی ہے،انھوں نے کامریڈ جام ساقی کی روپوشی کو بہت قریب سے دیکھا۔ سہیل لکھتے ہیں کہ '' شروع میں ان کے کوریئر کے طور پر کام کررہا تھا۔
جام ساقی کے انڈر گراؤنڈ جانے کا فیصلہ ہوا اور ان کو انڈر گراؤنڈ زندگی گزارنے کے بارے میں پارٹی ہدایات دی جارہی تھیں۔ یہ میٹنگ میری رہائش گاہ پر ہوئی تھی جس میں کامریڈ نازش امروہوی اور پروفیسر جمال نقوی انڈر گراؤنڈ رہنے کے آداب بتانے کے لیے آئے تھے۔ اس میٹنگ میں طے ہوا کہ جام ساقی عا م مولانا کا روپ اختیار کریں گے جو تبلیغی قسم کا ہوگا۔ تبلیغی اس لیے کہ انھیں سندھ بھر کے دورے کرنے تھے اور سفر میں رہنا تھا۔
انڈر گراؤنڈ کا ایک پورا کوڈ تھا۔ کیا لباس ہوگا، کیا حلیہ رکھا جائے گا، سفر کس وقت میں اور کس طرح سے کرنا ہے، دورانِ سفر یا دیگر عام مقامات پر لوگوں سے بات چیت کرنی پڑے تو زبان کا لہجہ کیا ہوگا۔ لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑنا، عام مقامات پر ایک عام مولوی جیسا برتاؤ کرنا ہے۔ جذباتی نہیں ہونا ہے۔ عام مقامات پر جتنا ممکن ہوسکے اکیلے نہیں جانا ہے۔
کامریڈ ساقی ایک ماہ تک ایک ہی کمرے میں بند رہے تاکہ وہ اپنی داڑھی بڑھا سکیں۔ جب ان کی داڑھی بڑھ گئی تو انھوں نے کام شروع کیا۔ انڈر گراؤنڈ رہنا ایک مشکل ہی نہیں بلکہ اذیت ناک زندگی ہوتی ہے جس میں تقریباً سوشل لائف یہاں تک فیملی لائف بھی نہیں ہوتی۔
وسائل کی کمی بہت بڑا چیلنج تھا۔ جام ساقی جیسے عوامی شخص کا حیدرآباد جا کر اپنی فیملی چھوڑ کر سندھ کے کسی دوسرے شہر میں روپوش ہونا اور سیاسی کام جاری رکھنا بہت کٹھن کام تھا۔ چند روز چند ماہ کی روپوشی اتنا مشکل نہیں جتنی کہ مسلسل روپوشی ہوتی ہے۔''
سہیل سانگی نے 80ء کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی کے دفاتر پر چھاپے، اپنی گرفتاری، نذیر عباسی کی شہادت کا بھی ذکر کیا ہے۔ معروف صحافی مجاہد بریلوی نے '' میں انڈر گراؤنڈ نہیں رہا'' کے عنوان سے لکھا ہے کہ '' سب سے پہلے یہ اعتراف کہ 1942ء میں نویں جماعت میں ہی ماسکو نواز تنظیم این ایس ایف کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ اگلی تین دہائی تک پہلے این ایس ایف اور پھر ماسکو نواز نیپ کے تنظیمی ڈسپلن میں رہا مگر خود کبھی انڈرگراؤنڈ رہنے کی نوبت نہیں آئی۔
ہاں زیرِ زمین کامریڈوں کی سہولت کاری ضرور کی۔ پارٹی ڈسپلن میں اگر آپ ہیں تو انڈر گراؤنڈ ہونے کے پابند ہوتے ہیں یا پھر پارٹی کے ماس فرنٹ میں رہ کر پارٹی لائن کو بڑھاتے ہیں۔'' مجاہد بریلوی لکھتے ہیں کہ '' اس دوران ہمیں اتنی معلومات تو مل چکی تھی کہ امام علی نازش جو مولانا کہلاتے تھے زیرِ زمین ہیں جن کی غیر موجودگی میں پروفیسر جمال نقوی قائم مقام سیکریٹری جنرل کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ایک اور صحافی عامر ضیاء نے جو این ایس ایف کے رہنماؤں میں تھے زمانہ طالب علمی کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اشرف شاد نے یہ کتاب تحریر کر کے نہ صرف بائیں بازو کے لٹریچر میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے بلکہ جو نوجوان پاکستان میں بائیں بازو کی تاریخ پر تحقیق کرنے کے خواہش مند ہیں، انھیں ایک پرکشش موضوع دیا ہے۔
صحافت کا پیشہ اختیار کیا تو صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے فعال کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔آزادئ صحافت کا علم اٹھائے لاہور، کراچی اور حیدرآباد کی جیلوں میں قید کیے گئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں جب روزگار کے دروازے بند ہوئے تو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی، پہلے امریکا ، پھر آسٹریلیا چلے گئے مگر ترقی پسند مظلوم طبقات کے ساتھ یکجہتی اور تخلیق ان کی زندگی کا حصہ ہیں۔
ان کی حالیہ کتاب '' انڈر گراؤنڈ '' پاکستانی انقلابی پارٹیوں کی کہانیاں ہیں۔ کتاب میں اشرف شاد اور سہیل سانگی کے تجربات شامل کیے گئے ہیں۔ مجاہد بریلوی اور عامر ضیاء کے مشاہدات بھی شامل ہیں ۔
کتاب کا انتساب '' انقلابی تحریکوں کے گمنام کارکنوں کے نام'' ہے۔ اشرف شاد پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ کیمبرج یونیورسٹی کے تاریخ دان پروفیسر ٹم ہاربر نے حال ہی میں تقریباً دو سال قبل اپنی کتاب ایشیا انڈر گراؤنڈ شایع کی ہے جسے پروفیسر ہاربر نے بیسویں صدی کی ان انقلابی تحریکوں کی جدوجہد کا احاطہ کیا ہے، جس نے ایشیا کے پسے ہوئے نادار لوگوں میں اجتماعی انقلابی شعور بیدار کر کے نوآبادیاتی اور استحصالی نظام کے شکنجہ سے آزادی حاصل کرنے کی راہ ہموار کی جس کے نتیجہ میں چین، کوریا اور انڈونیشیا جیسی ریاستوں پر مشتمل جدید ایشیا کا ظہور ہوا۔ اشرف شاد لکھتے ہیں کہ زیرِ نظر کتاب انڈر گراؤنڈ بھی ایک نامکمل کام ہے۔
یہ کوئی علمی اور تحقیقی کام ہے بھی نہیں، یہ چند دوستوں کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے باب 1کا عنوان '' انقلاب و انقلاب'' ہے۔ اشرف شاد لکھتے ہیں کہ '' میں 1969 میں طفیل عباس کی قیادت میں انقلابی جدوجہد کرنے والی زیر زمین کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوا اور میں نے پارٹی کے صحافیوں والے سیل میں کام کرنا شروع کیا۔
60ء کی دہائی میں جب کمیونسٹ تحریک ماسکو نواز اور چین نواز گروپوں میں تقسیم ہوئی تو پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر کام کرنے والی جماعتیں بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئیں۔
طفیل عباس اور ان کی پارٹی کو چین کی کمیونسٹ پارٹی تسلیم کرتی تھی۔'' وہ لکھتے ہیں کہ '' میرے کئی دوست طفیل عباس کی پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ شبر اعظمی طلبہ محاذ پر تھے۔ نقاش کاظمی ادبی محاذ پر سرگرم تھے، نعیم آروی پہلے سے پارٹی سے منسلک تھے۔
جب صحافیوں کے زیرِ زمین سیل نے کام کرنا شروع کیا تو اس میں ارشاد راؤ، ظفر رضوی اور نعیم آروی شامل تھے۔ محمود شام ابتدائی ایک دو اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ عبدالحمید چھاپرا کے بارے میں یہ تاثر غلط تھا کہ وہ پارٹی کے کارکن تھے۔
ظفر رضوی اصول پسند صحافی تھے۔ صحافیوں کے سیل کے انچارج شبر نقوی تھے۔ پارٹی کا اجلاس ایوب صاحب کے گھر میں ہوتا تھا جو شبر نقوی کے سسر تھے۔
پارٹی کے صحافیوں والے سیل میں عابد زبیری کا اضافہ حیرت انگیز تھا۔'' اشرف شاد نے لکھا ہے کہ '' منہاج برنا کا کسی کمیونسٹ پارٹی سے شاید تعلق رہا ہو لیکن وہ میرے زمانہ میں طفیل عباس کی پارٹی میں نہیں تھے۔ '' (کمیونسٹ پارٹی کے ایک سابق کارکن کا کہنا ہے کہ اشرف شاد کی منہاج برنا کے بارے میں یہ بات مصدقہ نہیں ہے۔) اشرف شاد نے اس باب میں کمیونسٹ پارٹی اور پیپلز پارٹی کے تعلق کا سیر حاصل تجزیہ کیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی نے اپنے اراکین اور ہمدردوں کو 1970 کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر کے تاریخی غلطی کی تھی۔ حسن ناصر زیرِ زمین رہ کر کام کرتے تھے اور انھیں زیرِ زمین رکھنے کی ذمے داری طفیل عباس کی تھی جو پارٹی کے کراچی کے سیکریٹری تھے۔
جام ساقی مقدمہ میں برسوں اسیری میں گزارنے والے صحافی سہیل سانگی نے لکھا ہے کہ برصغیر میں کمیونسٹ تحریک کا آغاز ہی روپوشی سے ہوتا ہے۔
جب بیرون ملک سے آنے والے کمیونسٹ نظریات کے حامل لوگوں کو گرفتار کیا جاتا تھا۔ متحدہ ہندوستان میں پارٹی پر کم از کم تین مرتبہ پابندی عائد کی گئی۔ سرد جنگ کے دوران تقریباً نصف دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں انڈر گراؤنڈ رہیں۔
سہیل سانگی نے پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل نازش امروہوی سے اپنی پہلی ملاقات کی خوبصورت منظر کشی کی ہے،انھوں نے کامریڈ جام ساقی کی روپوشی کو بہت قریب سے دیکھا۔ سہیل لکھتے ہیں کہ '' شروع میں ان کے کوریئر کے طور پر کام کررہا تھا۔
جام ساقی کے انڈر گراؤنڈ جانے کا فیصلہ ہوا اور ان کو انڈر گراؤنڈ زندگی گزارنے کے بارے میں پارٹی ہدایات دی جارہی تھیں۔ یہ میٹنگ میری رہائش گاہ پر ہوئی تھی جس میں کامریڈ نازش امروہوی اور پروفیسر جمال نقوی انڈر گراؤنڈ رہنے کے آداب بتانے کے لیے آئے تھے۔ اس میٹنگ میں طے ہوا کہ جام ساقی عا م مولانا کا روپ اختیار کریں گے جو تبلیغی قسم کا ہوگا۔ تبلیغی اس لیے کہ انھیں سندھ بھر کے دورے کرنے تھے اور سفر میں رہنا تھا۔
انڈر گراؤنڈ کا ایک پورا کوڈ تھا۔ کیا لباس ہوگا، کیا حلیہ رکھا جائے گا، سفر کس وقت میں اور کس طرح سے کرنا ہے، دورانِ سفر یا دیگر عام مقامات پر لوگوں سے بات چیت کرنی پڑے تو زبان کا لہجہ کیا ہوگا۔ لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑنا، عام مقامات پر ایک عام مولوی جیسا برتاؤ کرنا ہے۔ جذباتی نہیں ہونا ہے۔ عام مقامات پر جتنا ممکن ہوسکے اکیلے نہیں جانا ہے۔
کامریڈ ساقی ایک ماہ تک ایک ہی کمرے میں بند رہے تاکہ وہ اپنی داڑھی بڑھا سکیں۔ جب ان کی داڑھی بڑھ گئی تو انھوں نے کام شروع کیا۔ انڈر گراؤنڈ رہنا ایک مشکل ہی نہیں بلکہ اذیت ناک زندگی ہوتی ہے جس میں تقریباً سوشل لائف یہاں تک فیملی لائف بھی نہیں ہوتی۔
وسائل کی کمی بہت بڑا چیلنج تھا۔ جام ساقی جیسے عوامی شخص کا حیدرآباد جا کر اپنی فیملی چھوڑ کر سندھ کے کسی دوسرے شہر میں روپوش ہونا اور سیاسی کام جاری رکھنا بہت کٹھن کام تھا۔ چند روز چند ماہ کی روپوشی اتنا مشکل نہیں جتنی کہ مسلسل روپوشی ہوتی ہے۔''
سہیل سانگی نے 80ء کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی کے دفاتر پر چھاپے، اپنی گرفتاری، نذیر عباسی کی شہادت کا بھی ذکر کیا ہے۔ معروف صحافی مجاہد بریلوی نے '' میں انڈر گراؤنڈ نہیں رہا'' کے عنوان سے لکھا ہے کہ '' سب سے پہلے یہ اعتراف کہ 1942ء میں نویں جماعت میں ہی ماسکو نواز تنظیم این ایس ایف کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ اگلی تین دہائی تک پہلے این ایس ایف اور پھر ماسکو نواز نیپ کے تنظیمی ڈسپلن میں رہا مگر خود کبھی انڈرگراؤنڈ رہنے کی نوبت نہیں آئی۔
ہاں زیرِ زمین کامریڈوں کی سہولت کاری ضرور کی۔ پارٹی ڈسپلن میں اگر آپ ہیں تو انڈر گراؤنڈ ہونے کے پابند ہوتے ہیں یا پھر پارٹی کے ماس فرنٹ میں رہ کر پارٹی لائن کو بڑھاتے ہیں۔'' مجاہد بریلوی لکھتے ہیں کہ '' اس دوران ہمیں اتنی معلومات تو مل چکی تھی کہ امام علی نازش جو مولانا کہلاتے تھے زیرِ زمین ہیں جن کی غیر موجودگی میں پروفیسر جمال نقوی قائم مقام سیکریٹری جنرل کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ایک اور صحافی عامر ضیاء نے جو این ایس ایف کے رہنماؤں میں تھے زمانہ طالب علمی کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اشرف شاد نے یہ کتاب تحریر کر کے نہ صرف بائیں بازو کے لٹریچر میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے بلکہ جو نوجوان پاکستان میں بائیں بازو کی تاریخ پر تحقیق کرنے کے خواہش مند ہیں، انھیں ایک پرکشش موضوع دیا ہے۔