بجلی کا سیاپا

غصے میں رپورٹ کو ’’منفی پروپیگنڈہ‘‘ اور ’’زرد صحافت کا شاہکار‘‘ کے عنوانات بھی دیے گئے


Tanveer Qaisar Shahid May 04, 2014
[email protected]

نئے میلنیئم کا آغاز ہوا تو مَیں پشاور میں ایک اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ ایک روز میرے رپورٹروں نے بتایا کہ دریا کے آس پاس کا علاقہ جو ماربل فیکٹریوں کا گڑھ ہے وہاں بجلی کے بل دینے والوں کی تعداد کم ہی ہے۔ مَیں فوٹو گرافر اور ورٹروں کے ساتھ وہاں گیا۔ اپنی آنکھوں سے حیرت خیز مناظر دیکھے اور بجلی چوروں کو سینہ زوری کرتے ہوئے پایا۔ یہ رپورٹ اخبار کے چیف ایڈیٹر کو بھجوا دی جنہوں نے اسے سیکنڈ لِیڈ کی شکل میں شایع کیا۔ دوسرے روز اخبار آیا تو پشاور شہر، متعلقہ محکمے اور ماربل فیکٹری کے مالکان میں ہلچل مچی تھی۔ غصے میں رپورٹ کو ''منفی پروپیگنڈہ'' اور ''زرد صحافت کا شاہکار'' کے عنوانات بھی دیے گئے۔

اس واقعہ کو ایک عشرہ گزر گیا ہے۔ اب کیا احوال ہے، میں نہیں جانتا لیکن وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی جناب عابد شیر علی بتا رہے ہیں کہ چور کہاں اور کتنے ہیں۔ افسوس کی بات مگر یہ بھی ہے کہ ہماری قومی اسمبلی میں بیٹھا ایک منتخب نمایندہ یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ بجلی چوری کرنا جائز ہے۔ ''واپڈا'' میں جو اندھیر مچا ہوا ہے، اسے چانن بنانے کی از حد ضرورت ہے۔ کرپشن نے بلا شبہ اسے دیمک لگا دیا ہے۔ عابد صاحب کوسرکش لوگوں کا سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے انھیں زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن وہ پسپائی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حیرت خیز بات یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے کپتان صاحب بھی اپنے صوبائی وزیروں کے واویلے کا ساتھ دے رہے ہیں حالانکہ عوام تو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ خان صاحب انصاف کا ساتھ دیں گے۔

عمران خان کے ایک فدائی اور شیدائی اور خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر اطلاعات شاہ فرمان علی کو غصہ اس بات کا ہے کہ عابد شیر علی کیوں آگے بڑھ بڑھ کر ''سارے صوبے کو بجلی چور'' کہہ رہے ہیں؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عابد شیر انفرادی طور پر بجلی چوروں کا ذکر کر رہے ہیں۔ ایسے میں شاہ فرمان صاحب کا تازہ ''فرمان'' یوں سامنے آیا ہے: ''ہم تربیلا ڈیم اور وارسک ڈیم سے پنجاب کو بجلی کی ترسیل منقطع کر دیں گے۔ مجھے اس کی قطعی پروا نہیں کہ اس کے بعد ہماری صوبائی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے یا صوبے میں گورنر راج لگتا ہے یا مجھے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔'' خدا کا شکر ہے کہ شاہ فرمان صاحب نے ابھی اپنی دھمکی پر عمل نہیں کیا، وگرنہ ہم اب تک اندھیروں میں ڈوب چکے ہوتے۔ ہمیں امید ہے آیندہ بھی وہ صبر سے کام لیں گے اور جنگجوئوں کی طرح شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

شاہ فرمان صاحب دراصل خود بھی بجلی چوروں کے تعاقب میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں تین تھانے ہم نے ''پیسکو'' (پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی) کے حوالے کر دیے ہیں تا کہ بجلی چوروں پر ہاتھ ڈالا جائے۔ ان کے مطابق اب تک تھانے دو ہزار بجلی چوروں کے خلاف مقدمے قائم کر چکے ہیں اور گیارہ سو بجلی چور حوالہ زنداںکر دیے گئے ہیں۔ شاہ فرمان صاحب کو اس حوالے سے شاباش ملنی چاہیے لیکن اس کا کریڈٹ بھی دراصل عابد شیر علی ہی کو جاتا ہے۔ ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ شاہ فرمان صاحب کو (اور عابد شیر علی صاحب کو بھی) ''واپڈا'' کے ان سارے ملازمین کا بھی احتساب کرنا چاہیے جنھیں مفت بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ مدتوں سے جاری ہے اور اس سے ''واپڈا'' کے چپڑاسی اور لائن مین سے لے کر انتہائی اوپر کے افسر برابر مستفید ہو رہے ہیں۔

''واپڈا'' کے بعض ملازمین نے اپنے گھر کرائے پر دے رکھے ہیں۔ ان کے میٹر تو مفت چل رہے ہیں لیکن وہ کرائے داروں سے بجلی کے اخراجات مسلسل وصول کر رہے ہیں۔ سارے پاکستان کے لوگ بجلی کے ایک ایک یونٹ کو ترس رہے ہیں اور ہر یونٹ کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں اور حیرانی ہے ''واپڈا'' کے ملازمین مفت بجلی کی عیاشی کر رہے ہیں۔ ہم ''واپڈا'' کے نئے چیئرمین جناب ظفر محمود سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ بھی اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دیں اور اس عیاشی کا خاتمہ کریں۔ بہت ہو چکا۔ ''واپڈا'' کے نئے چیئرمین ظفر محمود صاحب سے ایک اور سوال بھی پوچھا جانا چاہیے۔ اس سوال کی جرأت خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک رکن فضل الٰہی کے انکشاف سے ہے۔

فضل الٰہی کا کہنا ہے کہ میرے حلقے میں کسی بھی گھر میں بجلی کے میٹر نصب نہیں کیے گئے: ''گزشتہ چالیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ پھر واپڈا کے حکام اور عابد شیر علی ایسے لوگ ہمیں ذمے دار ٹھہرا کر بجلی چوری کا فتویٰ بھی سنا دیتے ہیں۔'' اگر یہ انکشاف مبنی بر حقیقت ہے اور اس کا سلسلہ پچھلے چار عشروں سے جاری ہے تو حکام کو شرم آنی چاہیے۔ چنانچہ ہم ظفر محمود صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں فضل الٰہی صاحب کے حلقے میں پہنچیں اور اس شکایت کی تحقیق کر کے متعلقہ ذمے داران کی ذرا گو شمالی تو کریں۔ ویسے خیبر پختون خوا کے وزراء، مثلاً شوکت یوسف زئی اور شاہ فرمان صاحبان، کو عابد شیر علی کی باتوں کا برا نہیں ماننا چاہیے کہ وہ تو بلا تخصیص صوبہ و شخصیت پر اس ادارے، گروہ اور حکومتی محکموں کا تعاقب کر رہا ہے جس پر بجلی چوری کا ہلکا سا شک و شبہ بھی ہو۔

ممکن ہے وہ بعض طاقتور بجلی چوروں کے خلاف عملی اقدام نہ کر سکیں لیکن مذمت میں ان کی زبان بہر حال روکی نہیں جا سکتی۔ عابد صاحب سندھ کے دورے پر گئے اور وہاں بھی بجلی چور پائے گئے تو ضبط نہ کر سکے اور یوں بیان دیا: ''سندھ میں ووٹوں کے لیے لوگوں میں بجلی چوری کی عادت ڈالی گئی۔'' اس پر سندھ اسمبلی نے عابد شیر علی کے خلاف قرارداد منظور کی ہے لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ قرارداد تو بجلی چوروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔

عابد شیر علی کے تحرک کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن یہ منظر عوام کے لیے بڑا ششدر انگیز ہے کہ عابد صاحب بجلی چوروں کو پکڑ بھی رہے ہیں، کروڑوں اربوں روپے کے پرانے بل بھی وصول کر رہے ہیں اور ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک، ورلڈ بینک اور جاپان کی طرف سے پاکستان کو بجلی کا بحران ختم کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر کی امداد بھی مسلسل مل رہی ہے لیکن ان تمام مساعئی جمیلہ کے باوجود ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہونے کے بجائے اس میں گرمی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وحشتناک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ بلک رہے ہیں اور نواز حکومت کے وعدے ہوا ہو رہے ہیں۔

لوگوں کا غصہ بھی بڑھ رہا ہے۔ احتجاج میں اس کی ایک تازہ اور انوکھی مثال بنوں میں سامنے آئی ہے۔ گزشتہ روز بنوں میں لوڈ شیڈنگ میں بے پناہ اضافہ ہوا تو لوگوں نے غصے میں آ کر مقامی اسپتال میں داخل اپنے بیمار عزیزوں کے بیڈ اٹھائے اور سڑک پر رکھ دیے۔ ٹریفک گھنٹوں رکی رہی اور لوگوں کے لیے عذابِ جاں بنی رہی۔ سوال یہ ہے کہ بجلی کے بحران کا خاتمہ کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر کی ملنے والی امداد کس کھوہ کھاتے میں جا رہی ہے؟ جناب شہباز شریف کی پھرتیاں رنگ کیوں نہیں لا رہیں؟ ''واپڈا'' کے نئے اور لائق فائق چیئرمین جناب ظفر محمود اس کا جواب دینا پسند کریں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں