پاک فوج اور وطن عزیز کی سالمیت
اک فوج کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کی جتنی اس وقت ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے یوم شہدا پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل تمام عناصر غیر مشروط طور پر ملک کے آئین اور قانون کی مکمل اطاعت کریں اور قومی دھارے میں واپس آئیں بصورت دیگر ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کے معاملے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔
پاک فوج کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کی جتنی اس وقت ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس سے بڑی اس قوم کی اور کیا بدنصیبی ہو گی کہ کوئی فرد یا گروہ پاک فوج کے جوانوں کی دفاع پاکستان میں دی جانے والی قربانیوں کو متنازع بنانے کی کوشش کرے اور ان کو شہید ماننے سے انکار کر دے اس حوالے سے جنرل راحیل شریف کا بیان اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ اس موقع پر قوم کے ذہن کو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک کیا جائے۔ یہ پاک فوج ہی ہے جو شدت پسندوں کے سامنے چٹان بنی ہوئی ہے۔ اس موقع پر فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو متنازعہ بنانا پاک فوج سے غداری ہے۔ حالت امن میں اگر ایسی حرکت ہوتی تو اس کا نقصان اتنا بڑا نہ ہوتا لیکن یہ ایک ایسی جنگ ہے جس سے ہمیں کبھی سابقہ نہیں پڑا۔
دشمن واضع نہیں اس نے نقاب (مذہب) اوڑھا ہوا ہے جس کے ذریعے پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کو گمراہ کر کے اپنے ہمدرد پیدا کر چکا ہے۔ صورت حال کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمارے دشمن کے ہمدرد اس وقت ہمارے گلی محلوں سے لے کر پاکستان کے تمام اہم اور غیر اہم اداروں اور تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں پائے جاتے ہیں۔ جب کسی ملک کو ایسی جنگ اور دشمن سے پالا پڑ جائے تو اس ملک کا بچ جانا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے۔ یہ معجزہ ہو سکتا ہے اگر پاکستانی قوم اپنے دشمن کے حوالے سے دھوکہ و فریب سے باہر نکل کر اس کی واضح نشان دہی حاصل کر لے۔ دشمن واضح ہو تو جنگ جیتنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ جنگ آسان نہیں بلکہ بہت ہی مشکل جنگ ہے۔
حامد میر سے میرا رابطہ آج سے 22 سال قبل ہوا جب وہ ایک رپورٹر تھے۔ اس وقت وہ خبر کی تلاش میں مجھے اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر عوامی نیشنل پارٹی کے مرحوم صدر اجمل خٹک سے ملنے گلبرگ گئے۔ انھی دنوں جب انھوں نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا تو میں نے بے ساختہ کہا کہ یہ تو مشہور شخص کا ہاتھ ہے۔ ان کے ہاتھ میں کچھ نشانات ایسے بھی تھے جو وسط عمر کو پہنچ کر ان کی زندگی کو لاحق خطرات کی نشان دہی کرتے تھے۔ اب یہ خطرات ان کو لا حق ہی رہیں گے۔ کیونکہ انھوں نے اپنے ہم پیشوں کو پچھاڑنے کی ریس میں تمام ریڈ لائنز عبور کر لی ہیں۔ دشمن ان کے بہت سے ہیں۔ ان کو نقصان پہنچا کر الزام کسی پر بھی لگانا بہت آسان ہے۔
جس ادارے میں وہ ملازم ہیں اسے بادشاہ گر بننے کا بہت شوق ہے۔ یعنی حکومتیں گرانے اور بنانے کا شوق۔ اپنی مرضی کی حکومتیں لانا۔ اپنی ناپسندیدہ شخصیت کو گرانا اور پسندیدہ شخصیت کو حکومت میں لانے کے لیے میڈیا کے ہتھیار کے ذریعے عوام کے اذہان کا برین واش کرنا۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جو سب نشوں سے بڑھ کر ہے۔ جس کی لت ایک دفعہ اگر کسی کو الگ جائے تو جان کے ساتھ ہی جاتی ہے۔ ماضی میں زرداری حکومت کا 5 سال میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ یہ میڈیا ٹرائل زرداری حکومت کا نہیں بلکہ جمہوریت کا میڈیا ٹرائل تھا۔ جس میں سیاست دانوں کو گالی بنا دیا گیا۔ جمہوریت اور سیاستدانوں کے حوالے سے عوام کے ذہنوں کو زہر آلود کر دیا گیا کہ عوام جمہوریت سے بیزار اور سیاستدانوں سے نفرت کرنے لگیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عوام کسی بھی غیر جمہوری تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ اس ''کارنامے'' کا سب سے بڑا حصہ دار جنگ جیو گروپ ہے۔ حالیہ معاملے میں آئی ایس آئی چیف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ آخر یہ مطالبہ کیوں کیا گیا؟ اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ آئی ایس آئی اور ان کے سربراہ شدت پسندوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اگر فوج آئی ایس آئی ان کے راستے کی رکاوٹ نہ ہوتے تو شدت پسند اور ان کے ہمدرد اب تک پاکستان پر قبضہ کر چکے ہوتے۔
شدت پسند اور ان کے ہمدرد قیام پاکستان کی مخالفت میں ناکامی کے بعد اپنے طویل ایجنڈے کی تکمیل کے آخری مرحلے میں ہیں۔ پاکستانی تاریخ کے ہر اہم موڑ پر ان قوتوں نے پاکستانی عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے اپنے خفیہ عزائم کامیابی سے آگے بڑھاتے رہے۔
بے شک جمہوریت بہت اہم ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ اہم پاکستان کو شدت پسندوں کے قبضے میں جانے سے روکنا ہے۔ اگر اس گروہ اور مکتبہ فکر کا اس ملک پر قبضہ ہو جاتا ہے تو کہاں کی جمہوریت کہاں کے انسانی حقوق؟ شدت پسند اور ان کے ہمدرد اس وقت اپنی قوت کے انتہا پر ہیں۔ اندازہ لگائیں پاک فوج کے مقابلے میں ان کی اپنی (فوج) عسکری قوت ہے۔ ہماری روشن خیال جمہوری قوتوں کو ان شدت پسند قوتوں کا لاشعوری طور پر آلہ کار نہیں بننا چاہیے جن کا پاکستان پر قبضہ مکمل ہونے والا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟
یہ وہی لوگ ہیں جو مشرف کے حوالے سے تو وزیر اعظم کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن ضیا آمریت کی مذمت کرنے کو تیار نہیں جس کا وہ وہ خود حصہ اور پیداوار ہیں۔ جو بات پاکستانی عوام کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آج پاکستان سمیت مسلم دنیا جس تباہی و بربادی کا سامنا کر رہی ہے اس کی بنیاد ضیا آمریت نے ہی رکھی تھی۔ اس لیے ہمیں شدت پسندوں کا لاشعوری طور پر آلہ کار بن کر فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے ہر ممکن بچنا چاہیے۔ خطہ بے پناہ اتھل پتھل سے دو چار ہے۔ صورت حال وہ نہیں جو ہمیں بظاہر نظر آ رہی ہے۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
اگست ستمبر سے پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے خطرناک وقت میں داخل ہو جائے گا۔
سیل فون 0346-4527997
پاک فوج کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کی جتنی اس وقت ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس سے بڑی اس قوم کی اور کیا بدنصیبی ہو گی کہ کوئی فرد یا گروہ پاک فوج کے جوانوں کی دفاع پاکستان میں دی جانے والی قربانیوں کو متنازع بنانے کی کوشش کرے اور ان کو شہید ماننے سے انکار کر دے اس حوالے سے جنرل راحیل شریف کا بیان اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ اس موقع پر قوم کے ذہن کو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک کیا جائے۔ یہ پاک فوج ہی ہے جو شدت پسندوں کے سامنے چٹان بنی ہوئی ہے۔ اس موقع پر فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو متنازعہ بنانا پاک فوج سے غداری ہے۔ حالت امن میں اگر ایسی حرکت ہوتی تو اس کا نقصان اتنا بڑا نہ ہوتا لیکن یہ ایک ایسی جنگ ہے جس سے ہمیں کبھی سابقہ نہیں پڑا۔
دشمن واضع نہیں اس نے نقاب (مذہب) اوڑھا ہوا ہے جس کے ذریعے پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کو گمراہ کر کے اپنے ہمدرد پیدا کر چکا ہے۔ صورت حال کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمارے دشمن کے ہمدرد اس وقت ہمارے گلی محلوں سے لے کر پاکستان کے تمام اہم اور غیر اہم اداروں اور تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں پائے جاتے ہیں۔ جب کسی ملک کو ایسی جنگ اور دشمن سے پالا پڑ جائے تو اس ملک کا بچ جانا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے۔ یہ معجزہ ہو سکتا ہے اگر پاکستانی قوم اپنے دشمن کے حوالے سے دھوکہ و فریب سے باہر نکل کر اس کی واضح نشان دہی حاصل کر لے۔ دشمن واضح ہو تو جنگ جیتنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ جنگ آسان نہیں بلکہ بہت ہی مشکل جنگ ہے۔
حامد میر سے میرا رابطہ آج سے 22 سال قبل ہوا جب وہ ایک رپورٹر تھے۔ اس وقت وہ خبر کی تلاش میں مجھے اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر عوامی نیشنل پارٹی کے مرحوم صدر اجمل خٹک سے ملنے گلبرگ گئے۔ انھی دنوں جب انھوں نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا تو میں نے بے ساختہ کہا کہ یہ تو مشہور شخص کا ہاتھ ہے۔ ان کے ہاتھ میں کچھ نشانات ایسے بھی تھے جو وسط عمر کو پہنچ کر ان کی زندگی کو لاحق خطرات کی نشان دہی کرتے تھے۔ اب یہ خطرات ان کو لا حق ہی رہیں گے۔ کیونکہ انھوں نے اپنے ہم پیشوں کو پچھاڑنے کی ریس میں تمام ریڈ لائنز عبور کر لی ہیں۔ دشمن ان کے بہت سے ہیں۔ ان کو نقصان پہنچا کر الزام کسی پر بھی لگانا بہت آسان ہے۔
جس ادارے میں وہ ملازم ہیں اسے بادشاہ گر بننے کا بہت شوق ہے۔ یعنی حکومتیں گرانے اور بنانے کا شوق۔ اپنی مرضی کی حکومتیں لانا۔ اپنی ناپسندیدہ شخصیت کو گرانا اور پسندیدہ شخصیت کو حکومت میں لانے کے لیے میڈیا کے ہتھیار کے ذریعے عوام کے اذہان کا برین واش کرنا۔ یہ ایک ایسا نشہ ہے جو سب نشوں سے بڑھ کر ہے۔ جس کی لت ایک دفعہ اگر کسی کو الگ جائے تو جان کے ساتھ ہی جاتی ہے۔ ماضی میں زرداری حکومت کا 5 سال میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ یہ میڈیا ٹرائل زرداری حکومت کا نہیں بلکہ جمہوریت کا میڈیا ٹرائل تھا۔ جس میں سیاست دانوں کو گالی بنا دیا گیا۔ جمہوریت اور سیاستدانوں کے حوالے سے عوام کے ذہنوں کو زہر آلود کر دیا گیا کہ عوام جمہوریت سے بیزار اور سیاستدانوں سے نفرت کرنے لگیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عوام کسی بھی غیر جمہوری تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ اس ''کارنامے'' کا سب سے بڑا حصہ دار جنگ جیو گروپ ہے۔ حالیہ معاملے میں آئی ایس آئی چیف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ آخر یہ مطالبہ کیوں کیا گیا؟ اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ آئی ایس آئی اور ان کے سربراہ شدت پسندوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اگر فوج آئی ایس آئی ان کے راستے کی رکاوٹ نہ ہوتے تو شدت پسند اور ان کے ہمدرد اب تک پاکستان پر قبضہ کر چکے ہوتے۔
شدت پسند اور ان کے ہمدرد قیام پاکستان کی مخالفت میں ناکامی کے بعد اپنے طویل ایجنڈے کی تکمیل کے آخری مرحلے میں ہیں۔ پاکستانی تاریخ کے ہر اہم موڑ پر ان قوتوں نے پاکستانی عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے اپنے خفیہ عزائم کامیابی سے آگے بڑھاتے رہے۔
بے شک جمہوریت بہت اہم ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ اہم پاکستان کو شدت پسندوں کے قبضے میں جانے سے روکنا ہے۔ اگر اس گروہ اور مکتبہ فکر کا اس ملک پر قبضہ ہو جاتا ہے تو کہاں کی جمہوریت کہاں کے انسانی حقوق؟ شدت پسند اور ان کے ہمدرد اس وقت اپنی قوت کے انتہا پر ہیں۔ اندازہ لگائیں پاک فوج کے مقابلے میں ان کی اپنی (فوج) عسکری قوت ہے۔ ہماری روشن خیال جمہوری قوتوں کو ان شدت پسند قوتوں کا لاشعوری طور پر آلہ کار نہیں بننا چاہیے جن کا پاکستان پر قبضہ مکمل ہونے والا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟
یہ وہی لوگ ہیں جو مشرف کے حوالے سے تو وزیر اعظم کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن ضیا آمریت کی مذمت کرنے کو تیار نہیں جس کا وہ وہ خود حصہ اور پیداوار ہیں۔ جو بات پاکستانی عوام کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آج پاکستان سمیت مسلم دنیا جس تباہی و بربادی کا سامنا کر رہی ہے اس کی بنیاد ضیا آمریت نے ہی رکھی تھی۔ اس لیے ہمیں شدت پسندوں کا لاشعوری طور پر آلہ کار بن کر فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے سے ہر ممکن بچنا چاہیے۔ خطہ بے پناہ اتھل پتھل سے دو چار ہے۔ صورت حال وہ نہیں جو ہمیں بظاہر نظر آ رہی ہے۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
اگست ستمبر سے پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے خطرناک وقت میں داخل ہو جائے گا۔
سیل فون 0346-4527997