نگراں حکومت اور پاکستان کا مستقبل

ملک میں نگراں سیٹ اپ انتہائی سوچ سمجھ کر قائم کرنا بہتر ہوگا


شہریار شوکت August 01, 2023
اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں چند ہفتوں کا وقت رہ گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

نگراں وزیراعظم اور حکومت کے آنے کا وقت اب قریب آچکا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی نئے انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ موجودہ حکومت اور اداروں کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ نگراں وزیراعظم سیاسی پس منظر والی شخصیت ہوگی یا انتظامی امور کا کوئی ماہر۔ یقینی طور پر پی ڈی ایم کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ نگراں وزیراعظم ان کا من پسند شخص ہو، جو سیاسی بصیرت کا حامل ہو اور وقت پر انتخابات کرائے۔ نگراں وزیراعظم کے انتخاب کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی رائے اہم ہوگی۔


اطلاعات یہ کہتی ہیں کہ ملکی اداروں کی رائے یہ ہے کہ نگراں وزیراعظم جسے بھی بنایا جائے وہ انتظامی امور کا بھی ماہر ہو اور ملکی معاشی معاملات کو بھی بہتر انداز میں ہینڈل کرسکے۔ ملک میں سرمایہ کاری کو بھی فروغ دیا جائے تاکہ آئی ایم ایف سے کیے جانے والے معاہدے کو اچھے سے نبھایا جاسکے تاکہ ملکی معیشت اپنی سمت میں چلتی رہے۔ اصولی طور پر نگراں وزیراعظم کے نام پر وزیراعظم اور لیڈر آف اپوزیشن کا متفق ہونا لازمی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور راجہ پرویز اشرف اب تک ایک ہی پیج پر ہیں لہٰذا ان کا فیصلہ ایک ہی ہوگا۔ میاں شہباز شریف بھی ملکی معیشت کو بہتر کرنے کےلیے سنجیدہ ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نگراں وزیراعظم کے انتخاب میں بڑی حکومتی جماعتوں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن نام کس جماعت کی جانب سے آئے گا اور کس بنیاد پر آئے گا، یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔


بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ نگراں وزیراعظم 90 دن کے اندر اندر انتخابات کرا دے۔ حکومتی اتحاد اب حکومت چھوڑنا چاہتا ہے، کیوں کہ اب حکومت سے چمٹے رہنا انتہائی غلط ثابت ہوگا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اس حکومت میں کوئی گھاٹے کا فیصلہ نہیں کیا اور سیاسی طور پر اپنے لیے الیکشن کی فضا بھی بنا لی ہے۔ اب تک کی صورتحال یہ بھی بتا رہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ سیاسی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو تحریک انصاف پھر مشکل کا باعث بن سکتی ہے لیکن سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور نہ ہی سیاسی اتحاد ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔


اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں چند ہفتوں کا وقت رہ گیا ہے، جس کے بعد ملک کے وفاق میں نگراں سیٹ اپ قائم کردیا جائے گا۔ نگراں وزیراعظم کےلیے کئی نام سامنے آرہے ہیں جن میں سیاستدان اور معیشت کے ماہرین شامل ہیں۔ نئی مردم شماری و حلقہ بندیاں نہ ہونے کی وجہ سے عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی ظاہری خواہش کے باوجود ایسا ہوسکتا ہے کہ نگراں سیٹ اپ 90 روز میں انتخاب نہ کرائے اور نگراں حکومت کو کام کرنے کا وقت مل جائے۔ ایسے میں سیاستدانوں کے پاس ملک کو بہتر سمت میں گامزن کرنے کا موقع ہے۔ یہ کام ہے تو مشکل لیکن ملک کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ایک پیج پر ہوجانا چاہیے۔


ایسے وقت میں جبکہ ملک میں آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم موجود ہے، ملک میں نگراں سیٹ اپ انتہائی سوچ سمجھ کر قائم کرنا بہتر ہوگا۔ ذاتی پسند و ناپسند اور تعلقات کی بنیاد پر انتخاب کے بجائے نگراں سسٹم میں ان لوگوں کو منتخب کیا جائے جو اپنے شعبے کے ماہر ہوں۔ معیشت کے ماہرین چاہے ان کا جھکاؤ کسی بھی جماعت سے ہو یا وہ مکمل طور پر غیر سیاسی ہوں، کو سامنے لانا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو معیشت، کاروبار اور زراعت کے ماہرین کو منتخب کرنے کے بعد ان سے مکمل تعاون بھی کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کو مل کر ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کےلیے بین الاقوامی سطح پر اپنے تعلقات کا درست استعمال بھی کرنا ہوگا۔ نگراں حکومت کو ملکی معیشت کو بہتر کرنے کےلیے کچھ وقت بھی دینا ہوگا، اسی میں ہم سب کی اور اس ملک کی بقا ہے۔


اس کے برعکس اگر آئندہ انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کےلیے اپنے ہی لوگوں کو منتخب کیا گیا جو اہلیت اور میرٹ سے ہٹ کر ہوئے اور گلی کوچوں میں پھر نفرت بھرے نعرے لگائے گئے جو ماضی میں مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لوگ لگا چکے ہیں تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔


حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں اور اداروں کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ انتخاب شفاف ہوں۔ یہی واحد حل ہے پاکستان کو بحران سے نکالنے کا۔ ملک کے متعلق ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے۔ اب کی بار اس موڑ سے گزر جانے کا آخری موقع ہے۔ ذاتی انا کی خاطر اگر اس موقع کو ضائع کردیا گیا تو ہمیں بند گلی سے کوئی نہیں نکال سکے گا۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں