کیسی انوکھی بات ہے
وکالت کے اس پیشے میں ایک چیز خوب سیکھی، وہ یہ کہ Fact کو بے رحم آنکھ سے دیکھو،
وکالت کے اس پیشے میں ایک چیز خوب سیکھی، وہ یہ کہ Fact کو بے رحم آنکھ سے دیکھو، انگریزی میں اس مظہر کو Detached ہوکے دیکھنا کہتے ہیں۔ بھلا جنرل مشرف سے مجھے کیا غرض تھی، وہ نہ میرے تایا ہیں نہ تایا کے بیٹے۔ اور یہ کہ ایک ایسے گھر میں آنکھ کھلی جو آمریتوں کے خلاف جنگ میں اپنا مقام رکھتا تھا اور میں نے اپنی جوانی، سرخ انقلاب کی نذر کردی۔ اسی صفحے پر ایک نہیں پانچ مضمون رقم کیے کہ مرکزی حکومت یہ ٹرائل چلانے سے اجتناب کرے، وہ اس لیے کرے کہ وہ ''منزل ابھی نہیں آئی'' اور اگر کرے تو پھر 12 اکتوبر 1998 سے کرے، اور اس سے بھی آگے جانے کی بات ہے تو پھر 5 جولائی 1977 سے کرے۔ وہ 1973 کے آئین سے پیچھے جا نہیں سکتے تھے کیونکہ 1962 کا یا 1956 کا جب آئین ہی نہیں رہا تو آئین سے غداری کاہے کی؟
ہوا کیا، مسلم لیگ کے رہنما Detached ہوکے حقیقت کو نہ دیکھ سکے، وہ یہ بھی نہ دیکھ سکے کہ جمہوریت ابھی پک کے راس نہیں ہوسکی کہ جس کا ثمر ہم سب پا سکیں۔ وہ یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ گاڑی راستوں پر اور جیپ پہاڑوں پر چلتی ہے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اور سندھی میں کہتے ہیں ''زور آور کی لاٹھ کے دو سر ہوتے ہیں''۔
زرداری صاحب یہ سب کچھ بھانپ گئے تھے، مشرف پر بے نظیر کے قتل کا الزام ہونے کے باوجود بھی وہ یہ پینڈورا بکس کھولنے سے پرہیز کرتے رہے، کہ جنرل مشرف پر غداری کا مقدمہ آرٹیکل 6 کے تحت چلایا جائے۔ پورے پانچ سال وہ حنیف محمد کی طرح ٹک ٹک کرکے بیٹنگ کرتے رہے۔ میاں صاحب کے لیے بھی وہی پچ تھی۔ ہوا میں نمی تھی بال سوئنگ کر رہی تھی۔ اور یہ کوئی ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا میچ نہ تھا، جینے کو ایک عمر پڑی تھی۔ جلدی آمریتی قوتوں کو تھی کہ ''بہت ہوگیا بس پاکستان کی پہلی جمہوریت جو پانچ سال پورے کرگئی اور دوسری کو نہیں کرنے دیں گے۔
میاں صاحب سمجھتے رہے کہ ایک جنرل کو اگر سزا آگئی تو ایک مثال قائم ہوجائے گی اور آیندہ ایسی جرأت کوئی بھی نہیں کرسکے گا۔ اس کے برعکس زرداری صاحب کی حکمت عملی مختلف تھی۔ وہ سمجھتے تھے چاہے کتنے بھی چینل خرید کر پروپیگنڈہ کیا جائے، میموگیٹ اسکینڈل آجائیں، وزیراعظم کو باہر پھینکا جائے، لیکن اس آندھی، طوفان، بادل بجلی والی بالنگ کے سامنے جم کر ٹک ٹک کرنا ہے۔ کیونکہ جمہوریت ایک دن کا گیم نہیں ہے، ایک طویل سفر ہے، جتنا آہستہ آہستہ چلیں گے اتنا ہی وہ جمے گی۔
حکومت کا تو یہ عالم تھا کہ وہ غداری کے اس مجرم کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کر پا رہی تھی۔ کس میں تھی اتنی طاقت کہ وہ اسپتال جس کو قلعے میں تبدیل کردیا گیا تھا، اس سے وہ اسے نکال سکے۔ اور یوں کرتے کرتے، سول و ملٹری تعلقات میں کشیدگی آگئی، ادھر طالبان سے حکومت کی دوستیاں بھی کشیدگی کا سبب بنیں۔ اور بات ایک صحافی پر قاتلانہ حملے تک پہنچی۔ پھر پتہ چلا کہ وہ جو چھکے اور چوکے مارنے کی بات کرتے تھے، بال ان کے سر پر لگی۔ خدا کا شکر ہوا کہ ہیلمٹ پہنا ہوا تھا کہ بچ گئے ورنہ اب کی بار "Bloody Coup" آنے کے خطرے تھے، جس کی طرف عاصمہ جہانگیر بار بار اشارے کر رہی تھی۔ ٹھیک ہے ''کیری لوگر بل'' آمریتوں کے سامنے ڈھال بن کے کھڑا ہے، لیکن جمہوریت کی اصل ڈھال یہ ہے کہ عوام ڈھال بن کر کھڑے ہوجائیں۔
ایک طرف بجلی کا شدید بحران ہے، تو دوسری طرف مہنگائی کے بادل گرج رہے ہیں، کوئی بھی چیز صحیح سمت پہ نہیں ہے۔ کورٹوں میں کیسوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ دور دور تک امید کی کوئی کرن نہیں ہے۔
اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت مشرف کے ٹرائل سے منسلک ہے؟ ان کو سزا ہوگی تو جمہوریت چلے گی ورنہ نہیں چلے گی؟ اس پورے غلط زاویے سے حقیقتوں کو دیکھنے کا عمل اب درست ہونا چاہیے۔ اب بھی جمہوریت اس ملک میں اس Toddler کی مانند ہے جسے راستے پر اکیلا چھوڑا نہیں جایا جاسکتا۔ راستوں پر اب بھی لوگ ٹریفک سگنلز کا احترام نہیں کرتے، ابھی ادارے بن کے مضبوط نہیں ہوئے۔ ابھی ملک میں ایک خانہ جنگی بھی چل رہی ہے۔
خدارا! آپ جلد بازی نہ کریں۔ بات یہ نہیں کہ وہ آمریتیں کیوں لاتے ہیں، بات یہ ہے کہ ایسی آمریتوں کے آنے کے آپ بہانے کیوں بنتے ہیں؟
Rule of Law کے لیے جس طرح لوگ سڑکوں پر نکلیں گے وہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ جو اس تحریک نے جوہر دکھانے تھے وہ نہ دکھا سکی۔ لوگوں کی امیدوں پر بھی اس تحریک نے پانی پھیر دیا۔ پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین لیڈر بھٹو صاحب سے بڑا کون ہوگا۔ وہ بے چارے ایک تو سرد جنگ کے مخصوص حالات کی پیداوار تھے اور بہت Over Confident بھی تھے۔ اسلامی سربراہوں کی کانفرنس منعقد کردی۔ تیسری دنیا کے لیڈر بننے کا شوق رکھتے تھے۔ آئے وہ امریکا کی آشیرباد سے تھے، فوج کے ساتھ اس وقت بنگالیوں کے خلاف آپریشن میں کھڑے ہوگئے۔ اور پھر ایٹمی پروگرام اس ملک کو دینے کے عزم پر ڈٹ گئے۔ شیخ مجیب، اندرا، بھٹو CIA کے ناپسندیدہ تھے، مارے گئے۔ ان ہی زمانوں کی بات ہے اب تو CIA کے کاغذات بھی منظر عام پر آگئے ہیں، کس طرح چلی میں صدر ایلنڈے کا 1973 میں تختہ الٹا گیا۔
خدا کا شکر جانیے اب سرد جنگ نہیں ہے، اب امریکا سمجھتا ہے کہ اسی کے دیرینہ پارٹنرز ہم جیسے ممالک میں جمہوریت ہے۔ ملک بیرونی قرضوں میں اس قدر جکڑا جاچکا ہے کہ اب مارشل لا سوائے امریکا کی آشیرباد سے آ نہیں سکتا۔ جنرل ضیا الحق و جنرل مشرف کے ادوار میں جتنا ورلڈ بینک، آئی ایم ایف و دیگر ڈونرز نے دیا ہوگا، وہ شاید ہی کسی اور دور میں دیا ہو۔ اب آمریت کو پیسے ملنے کے بجائے، جو کچھ بھی وہ دے رہے ہیں وہ بھی بند کردیں گے۔
ہاں مگر بھٹو صاحب اگر دھاندلی نہ کرواتے، دو تہائی اکثریت والی اسمبلی نہ چاہتے اور مسلم لیگ ن کے رہنما بھی اس بھاری مینڈیٹ کے نشے میں نہ ڈوبے ہوئے ہوتے تو کم ازکم یہ بہانہ تو نہ ملتا۔
میاں صاحب خوش نصیب ہیں کہ وہ زمانے گئے مگر اب کی بار وہ طاہر القادری کو سڑکوں پر لے آئیں گے۔ مستقل روڑے اٹکائیں گے کہ کہیں میاں صاحب کی خود اعتمادی بحال نہ ہو پائے اور اسی طرح وقت گزر جائے یا مڈٹرم انتخابات ہوجائیں۔
دکھ تو اس بات کا ہے حکومت نے جناح کے پیروکاروں کو بھی راستے پہ اکیلا چھوڑ دیا۔ ایسے لوگوں کو بدظن کردیا۔ حکومت کے وزیر دفاع نے ملک کے وزیر دفاع لگنے سے طالبان کے وزیر دفاع لگنے کو ترجیح دی۔ یوسف رضاگیلانی کے بیٹے ہوں یا سلمان تاثیر کے بیٹے، طالبان سے مذاکرات میں ان کو رہا کرنے کی کوئی شرط نہیں رکھی۔
''ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے چہرے پر رونق، وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے'' ایسا بھی نہیں ہے۔ جب تک ادارے مضبوط نہیں ہوں گے اور آہستہ آہستہ جمہوریت کے اس نوعمر شجر کو، گرم و تیز ہواؤں سے بچا کر نہیں رکھیں گے، تب تک کتنی جمہوریت کہا جائے کہ ٹھیک ہے، وہ ٹھیک نہیں ہوا کرتی۔ کتنے مشرف سزا یافتہ ہوجانے کے خیال میں کیوں نہ غلطاں ہوں وہ حقیقت میں بلی کے خواب میں چھیچھڑوں کی مانند ہوتے ہیں۔
میں تو اس سے بھی آگے جا کے کہتا ہوں کہ پہلے Fact کو دشمن کی آنکھ سے دیکھو، پھر دوست کی آنکھ سے پھر بیچ میں آکے ایک حکمت عملی بناؤ۔ ابھی آمریتوں کے بادل منڈلا رہے ہیں، ابھی چھتری لے کے گھر سے نکلنے کے دن ہیں۔ ابھی شب میں گرانی باقی ہے اور ہوا میں نمی بھی ہے، بال بھی سوئنگ بہت کر رہی ہے۔