ہمارا نظام اور نصاب تعلیم
ملک کو معرض وجود میں آئے اب 67 سال ہوگئے ہیں، لیکن ابھی تک ہم نہ تو ذریعہ تعلیم کے بارے میں کوئی فیصلہ کر پائے ہیں
ملک کو معرض وجود میں آئے اب 67 سال ہوگئے ہیں، لیکن ابھی تک ہم نہ تو ذریعہ تعلیم کے بارے میں کوئی فیصلہ کر پائے ہیں اور نہ ہی پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم مقرر کر پائے ہیں۔ کہنے کو تو اردو ہماری قومی زبان ہے ، لیکن فروغ پا رہے ہیں انگریزی میڈیم اسکول اور وہ بھی پرائیویٹ۔ ہمیں یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ ہماری قومی زبان اس قابل ہے، بلکہ مقتدرہ قومی زبان نے اسے اتنا خود کفیل بنا دیا ہے کہ ہمیں انگریزی میں تعلیم دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس سمت میں کوئی پیش رفت ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔
اردو کو مکمل طور پر ذریعہ تعلیم نافذ نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ ہمارے باہر جانے والے طلبا کو اگر انگریزی پر عبور نہیں ہوگا تو ان کو باہر کے ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے میں دشواری ہوگی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جرمنی، جاپان، چین، فرانس اور دیگر بہت سارے ممالک میں ذریعہ تعلیم ان کی اپنی زبانیں ہیں، حالانکہ انھوں نے سائنس کی دنیا میں نمایاں ایجادات بھی کی ہیں۔ ان کے بچے او اور اے لیول والے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے جاپان کو شکست بھی دی، جس کے نتیجے میں اس کے شہنشاہ نے امریکی جنرل میک آرتھر کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ شہنشاہ نے امریکی جنرل سے کہا کہ ہم نے شکست تو کھائی ہے اور آپ اب مختار کل ہیں کہ ہمارے ساتھ جو بھی سلوک کریں، لیکن ہماری زبان کے ساتھ کوئی دست برد نہ کیجیے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکن لوگوں نے ازراہ تفنن کہا کہ آپ تو صرف کھلونے ہی بنا سکتے ہیں اور کیا کرسکتے ہو۔ جاپانیوں نے یہ طعنہ سن تو لیا، لیکن اس کا اتنا بڑا اثر لیا کہ انھوں نے کھلونوں کے ساتھ ساتھ سائنسی ایجادات بھی کیں۔ ان کی ایجادات اور تجارت کی وجہ سے بہت سارے ملک (جن میں امریکا بھی شامل ہے) ان کے مقروض ہیں۔
میرا سوال ہے کہ کیا جاپان نے یہ پوری ترقی اپنے ذریعہ تعلیم جاپانی سے کی یا انگریزی سے؟ اسی طرح چین جو ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا اس نے بھی ہر میدان میں ترقی کی ہے ، تو کیا انھوں نے بھی اپنے بچوں کو او اور اے لیول کے اسکولوں میں بھیجا؟ جرمنی، جاپان، چین اور فرانس نے دونوں عالمی جنگوں میں بہت نقصان اٹھائے، لیکن انھوں نے ٹھان لی کہ انھیں نہ صرف واپس اپنا مقام حاصل کرنا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے جانا ہے۔ بیشک ہم نے بھی ملک کے بننے پر بہت تکلیفیں اٹھائیں، لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم ان ممالک کا بھی مطالعہ کریں کہ وہ کیسے آگے نکل گئے۔
ہر ملک کی بنیادی ضرورتیں ہوتی ہیں، تعلیم، صحت، مواصلات، دفاع، زراعت، صنعت جن کی ترقی بجلی کے مرہون منت ہوتی ہے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ ہم پہلے دن سے ہی بجلی کا کوئی خاطر خواہ انتظام کرتے، جس سے تعلیم کو بھی فروغ ملتا، جس سے لوگوں میں مثبت سوچ پیدا ہوتی، صحت کی اہمیت کا بھی ادراک ہوتا (آج ہمارا ملک پولیو میں اول نمبر اور ٹی بی میں دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے اور کچھ ممالک تو ہم پر ان بیماریوں کی وجہ سے اپنے ملک میں آنے پر پابندی عائد کرنے کا سوچ رہے ہیں)۔ بجلی سے مواصلات کا نظام بنتا، جس سے شاہراہیں بنتیں، ٹیلیفون کا نظام بنتا، دیگر صنعتوں کے ساتھ ساتھ دفاع کی صنعت، زرعی اوزار بنتے اور تجارت کے لیے سہولیات فراہم ہوتیں۔
میں اپنے موضوع سے ہٹ نہیں رہا ہوں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زبان کو خودکفیل بنائیں تاکہ ہر شخص تعلیم حاصل کرسکے اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ انگریزی میں تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ ہر شخص کی تعلیم تک رسائی ناممکن ہے۔ آج ہماری گلیوں، کوچوں اور سڑکوں پر جو بچے الف، ب، ج سے محروم پھر رہے ہیں، کیا ان میں بہت سارے ڈاکٹر عبدالقدیر، عبدالحفیظ کاردار یا دیگر ہیرو نہیں ہوسکتے؟
بورڈ اور جامعات کا نصاب یکساں نہیں ہے۔ جس سے جو طلبا ایک بورڈ یا جامعہ کے علاقے سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو انھیں وہاں نئے نصاب اورکتابوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ انٹرمیڈیٹ کا کوئی طالب علم اگر کسی ایسے ملک میں چلا جائے، جہاں ہمارے سفارتخانے اسکول چلارہے ہوتے ہیں، تو وہ اسکول فیڈرل بورڈ سے منسلک ہوتے ہیں اور ان کا نصاب اور کتابیں صوبوں کے اسکولوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب بورڈوں اور جامعات کے نصاب اور کتابیں یکساں ہوں۔
اس پوری تمہید کا مقصد تھا کہ تعلیم کو سستا اور آسان ہونا چاہیے، تاکہ اس تک سب کی رسائی ہو اور وہ تب تک ہی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی زبان میں ہو۔ ہمارے ملک میں تعلیم 70 فیصد سے بھی کم ہے، جب کہ ہمارے ایک دوست ملک جس سے ہم کرکٹ تو بہت کھیلتے ہیں، لیکن اس کی اور خوبیوں سے ناواقف ہیں، وہ ہے سری لنکا، جس میں تعلیم کی سطح 98 فیصد ہے۔ انھوں نے بھی بدترین دہشتگردی کا 28 سال تک سامنا کیا، لیکن تعلیم میں کوئی کمی آنے نہیں دی۔
تعلیم کو معیاری بھی ہونا چاہیے۔ جس طرح ڈاکٹری ایک پیشہ ہے اور ڈاکٹر بننے کے لیے پروفیشنل تعلیم ضروری ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح اساتذہ کو بھی مکمل طور پر تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں اس بات کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ بڑے بڑے نام والے اسکولوں میں کم تنخواہ پر غیر تربیت یافتہ ٹیچر 'بھرتی' کیے جاتے ہیں۔ البتہ ان اسکولوں میں ظاہری رکھ رکھاؤ بہت ہوتا ہے۔
لوگ ان اسکولوں میں اپنے بچوں کے داخلے کو ترستے ہیں، لیکن پڑھائی کا عالم یہ ہے کہ اسکول میں توبچے صبح میں پتہ نہیں کیا کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ان کی شامیں انھی استادوں کے گھروں یا ٹیوشن کے مراکز میں گزرتی ہیں۔ میرے گھر کے ساتھ والے گھر میں ٹیوشن سینٹر ہے، میں اکثر بچوں سے ان کے اسکولوں کا نام پوچھتا ہوں تو وہ بڑے بڑے اسکولوں کے نام بتاتے ہیں، پھر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اتنے بڑے اسکول میں پڑھنے کے باوجود تمہیں ٹیوشن کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، تو وہ بیچارے لاجواب ہوجاتے ہیں۔ کچھ بچے اعتراف کرتے ہیں کہ اسکول میں پڑھائی تو برائے نام ہوتی ہے، ہمیں شام کو ٹیوشن کے لیے آنے کو کہا جاتا ہے۔
ویسے سرکاری اسکول، جن کو پیلا اسکول کہا جاتا ہے، میں صرف غربا کے بچے ہی پڑھتے ہیں۔ ان پیلے اسکولوں کی حالت زار ہوتی ہے۔ اول تو اساتذہ ہی اسکول میں نہیں آتے، دوئم یہ کہ ان اسکولوں میں نہ توبنچیں بیٹھنے کے لائق ہوتی ہیں، نہ پینے کا پانی دستیاب ہوتا ہے اور نہ ہی واش روم قابل استعمال ہوتے ہیں۔ویسے نامور انگریزی اسکولوں میں بھی بچے پانی اپنے گھر سے ہی لے جاتے ہیں۔ واش روم بھی کوئی اتنے صاف نہیں ہوتے، لیکن چونکہ ان کے ناموں سے بڑے دم چھلے لگے ہوتے ہیں، ان کے بارے میں کسی کو بھی لب کشائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب تک ہمارے صدر، گورنر، وزرا، سیاستدان اور بیوروکریٹ صاحبان اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں میں نہیںبھیجیں گے، تب تک اردو کے قومی زبان ہونے کا خیال ادھورا ہی ادھورا رہے گا، بھلے ان اسکولوں میں انگریزی بھی پڑھائی جائے۔