ایک بیٹی برآمد کروانی ہے
لڑکی نے بیان اپنی مرضی سے دیا ہوتا تو اسے اب تک کسی عدالت یا جرگے میں پیش کیاجاچکاہوتا
انصاف کی تحریک چلانے والے کہاں ہیں؟؟؟۔ فوٹو: فائل
آٹھ اکتوبر2005 کے ہول ناک زلزلے نے جہاں ایک عالم کو اجاڑا وہاں جبڑ دیولی (مانسہرہ) کے سید قادر شاہ اور ستارہ بی بی کی دنیا بھی تہ و بالا کردی۔
ان کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے منوں مٹی تلے دب گئے، دو بیٹاں اور ایک معذور بیٹا بچے، جن میں ایک تہمینہ بی بی تھی، جسے پیار سے شاہ بی بی پکارا جاتاتھا۔ بھونچال نے میاں بیوی کے ہوش وحواس گم کردیے تھے لیکن وقت کے مرہم اور ننھی شاہ بی بی کی معصوم حرکتیں ان کے زخموں کا مداوا بن گئیں۔ انہوں نے زندگی ایک بار پھر آغاز کرنے کے لیے بچی ہوئی پونجی اکٹھی کی، چند مخیر حضرات کی مدد سے داتا (مانسہرہ) میں زمین کا ایک ٹکڑا خریدا اور لاہور کے ایک نیک دل شخص کی مدد سے مکان کی تعمیر شروع کردی۔ ادھر شاہ بی بی نے تعلیم مکمل کی تو مارچ 2013 میں اس کا نکاح اس کے ماموں زاد سے کردیاگیا تاہم دگرگوں مالی حالات کی وجہ سے رخصتی کی کوئی حتمی تاریخ مقرر نہ ہوسکی لیکن رفتہ رفتہ جب زندگی اپنی ڈگر پر انے لگی تو ایک اور سانحہ ایسا رونما ہوا کہ سید قادر تو زندہ درگور ہی ہو گیا۔
اگست 2013 کو سید قادر شاہ کی اہلیہ کے پتے میں اچانک شدید درد اٹھا تو وہ اسے ایوب میڈیکل کمپلیکس لے گیا، جہاں اگلے روز آپریشن کردیا گیا، مریضہ کے پاس رات کو اس کی بیٹی تہمینہ (شاہ بی بی) رہی۔ سید قادر شاہ رات کو گھر واپس آگیا لیکن اسے علم نہ تھا کہ زلزلہ سے بڑی ایک اور قیامت اس کی منتظر تھی۔ ہوا یہ کہ ایوب میڈیکل کمپلیکس میں ٹیکنیشن کا کورس کرنے والے کوہستانی محمد زیب کی نظربد تہمینہ بی بی پر پڑ چکی تھی۔
اگلے چندروز میں مریضہ گھر آگئی لیکن تہمینہ کی دنیا بدلی ہوئی تھی، اس کی مسکراہٹیں کہیں غائب ہوچکی تھیں۔ محمد زیب اسے بار بار فون اور میسیج کرکے ملاقات کے لیے بلیک میل کرتا اورملاقات نہ کرنے کی صورت میں دھمکیاں دیتا۔ اس دوران لڑکی کی والدہ کے معائنے کی تاریخ آئی تو وہ اپنے والد اور والدہ کے ساتھ 9 نومبرکو ایک بار پھر ایوب میڈیکل کمپلیکس پہنچی۔ سید قادر شاہ بیوی اور بیٹی کو انتظار گاہ میں چھوڑ کر کچھ دوائیں خریدنے گیا، واپسی پر آدھے راستے ہی میںتھا کہ اچانک بیٹی کی کال آئی، وہ بس اتنا ہی کہ پائی ''ابّا بچائو ۔۔۔ !''۔
قادر شاہ دوڑتا ہانپتا پہنچا، دیکھا کہ اہلیہ موجودہے مگر شاہ بی بی غائب، کال ملائی تو فون بند۔ اِدھر اُدھر بہت بھاگا دوڑا لیکن بے سود؛ غیرت گوارہ نہ کرتی تھی کہ کسی سے پوچھے۔ اسی میںشام ہوگئی، تھکا ہارا، بیماری اور غم سے نڈھال بیوی کو لے کرگھرآگیا۔ تلاش جاری رکھی، کئی دن گزر گئے، بس اتنا ہی معلوم ہوپایا کہ کارستانی محمدزیب کی ہے۔ بالآخر 19ستمبر کو تھانہ میر پور میںرپورٹ درج کروا دی۔
گم شدگی کے 20 روز بعد سید قادر شاہ کو موبائل پر بیٹی کی کال موصول ہوئی لیکن بات پوری نہ ہو پائی کہ کال کٹ گئی۔ نمبر سے معلوم ہوا کہ کال فیصل آباد سے تھی۔ 7 اور 8 ستمبر کو بچی نے دوبار رابطہ کیا لیکن اب اسے بھی علم نہیں تھا کہ وہ کہاںہے؟ قادر شاہ اپنے چند عزیزوں کے ساتھ فیصل آباد پہنچا۔ معلوم ہوا کہ ملزم محمد زیب وہاںسے اپنے علاقے کے ایک شخص کے پاس گیا تھا اور ہاں ان کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی تھی۔ یہ لوگ مایوس لوٹ آئے۔
بیٹی سے اگلا رابطہ دو ماہ بعد ہوا لیکن یہ نمبر اس کا اپنا نہیں تھا البتہ لڑکی اتنا ضرور بتا پائی کہ وہ کوہستان میں ہے اور وہ لوگ اسے اپنے حق میں بیان دینے پر مجبور کررہے ہیں، لڑکی نے یہ بھی کہا کہ وہ خودکشی کرلے گی لیکن باپ نے تسلی دی اور اس کی بازیابی کے لیے ایک بار پھر کوششیں تیز کردیں۔ لگ بھگ تین ماہ قبل قادر شاہ اور خاندان کے دیگر افراد نے کوہستان میں عظمت اللہ خان، ملک سراج ، ملک سرتاج جیسے عمائدین کے جرگے کی مدد سے مغویہ بازیاب کرانے کی کوشش کی۔ جرگے نے فریقین کو پابند کیا کہ اگر لڑکی اپنی مرضی سے والدکے ساتھ جانا چاہے تو ملزم پارٹی 30 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرے گی اور انکار کرے تو والد کو اتنا ہی جرمانہ ہوگا۔ معاہدے پر دست خط تو ہوگئے مھر ملزم پارٹی نے لڑکی کو پیش کیا نہ اس کا بیان دلوایا۔
عظمت اللہ خان اوردیگر اراکین جرگہ نے بے بسی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ لڑکی مینگورہ میں ہے۔ جرگہ کے ایک سرکردہ رکن نے مبینہ طور پر لڑکی کے بدلے لڑکی اور پیسے دینے کی پیش کش بھی کی لیکن قادر شاہ نے سختی سے انکار کردیا۔ ایک رکن جرگہ عظمت اللہ خان نے بتایا کہ مذکورہ معاہدہ ان کے پاس محفوظ ہے اور جب کسی عدالت نے طلب کیا تو پیش کردیاجائے گا۔ اس جرگے کے بعد لڑکی کا آخری بار اپنے والد سے کچھ عرصہ پہلے ایک مسیج اورایک اجنبی موبائل نمبر کے ذریعے رابطہ ہو ا، جس میں اس نے بتایا کہ وہ لوگ اسے کہیں ایسی جگہ لے جارہے ہیں جہاں کالے پہاڑہیں اور اب شاید اس کا ان سے کبھی رابطہ نہ ہو۔ اس دوران غریب قادر شاہ کے لاکھوں روپے خرچ ہوچکے ہیں اور اب وہ اپنا مکان فروخت کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
مغویہ کے ایک قریبی عزیز سید شبیر شاہ نے بتایا کہ ملزم محمد زیب کے بڑے بھائی محمد عظیم نے 7 فروری کو فون پر رابطہ کیا اور پوچھا کہ آیا لڑکی کا پہلے کسی سے نکاح ہوچکا ہے؟ جس پراسے یقین دلایا گیا کہ وہ اپنے ماموں زاد کی منکوحہ ہے، جس پر محمد عظیم نے ''بیوی طلاق کی قسم'' اٹھا کر کہا کہ وہ ان دونوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا کیوںکہ ان کی وجہ سے پورا خاندان مصیبت میںہے اور اس کے بعد لڑکی کا ان سے کوئی رابطہ نہیںہوا۔ اندیشہ ظاہر کیاجارہاہے کہ لڑکی قتل کردی گئی ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ مقدمہ میں نام زد ملزموں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے لیکن کوئی ملزموں کو اس بات کا پابند نہیں بنا رہاکہ وہ لڑکی کو عدالت میں پیش توکریں تاکہ اس کے زندہ وسلامت ہونے کا یقین ہو۔
ملزم محمد زیب کا بڑا بھائی محمد عظیم پولیس میں ملازم ہے اور خاندان کے دوسرے افراد بھی مختلف سرکاری اداروںمیں اہم عہدوں پر فائز ہیں، جن کی وجہ سے پولیس بے بس ہے، مقامی عمائدین کی بھی نہیں سنی جارہی ہے۔ اس حوالے سے جب کیس کے تفتیشی افسر ایس پی انویسٹی گیشن شاہ نذر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا موقف تھا کہ ہم نے بارہا ڈی پی اوکوہستان کو لکھا لیکن کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ کیس میں ملزم کے بھائی محمد عظیم، والد آفرین اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی شامل تفتیش کیاگیاہے لیکن وہ سب ضمانت پر ہیں۔
ملزموں کا دعویٰ ہے کہ لڑکی نے کوہستان کی ایک عدالت میں پیش ہو کر نکاح کرلیاہے اور بیان بھی ریکارڈ کروا دیاہے، یہ ہی وجہ ہے کہ لڑکی کے خلاف بھی مقدمہ درج ہے لیکن ایس پی شاہ نذر بھی اس بارے میں تذبذب میں تھے کہ لڑکی نے یہ بیان اپنی مرضی سے دیاہوگا، ایسا ہوتا تو لڑکی کو کسی عدالت یا جرگے میں پیش کیاجاچکاہوتا۔ یہ موقف اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ملزموںکو بااثر افراد کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔
یہ بچی ایک بے بس، لاچار اور بے وسیلہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اس کا باپ نہ کہیں کا آئی جی ہے نہ وزیراعلیٰ، مال و منصب سے محروم ہونا ہی اس کی سزا ہے۔ اس ملکِ ناپرسان میں اس کے لیے نہ کوئی نواز شریف کھڑا ہوگا، نہ کوئی عمران خان! جہاں انصاف کی یہ صورت ہو اور دعویٰ مسلمانی کا بھی ہو تو وہاں تباہی کی شکل ایک دن یہ ہوگی کہ ہم ایک دوسرے کا گوشت نوچیں گے۔