سمیہ جبارتی سعودی عرب کی پہلی خاتون مدیر
روایت پسند معاشرے کے کسی شعبہ ہائے زندگی میں صنف نازک کی شمولیت کی ضرورت اور اہمیت کہیں زیادہ ہوتی ہے
بنی نوع انسان کو بہ لحاظ جنس دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، تناسب کے لیے کسی اعدادوشمار کا سہارا لیے بغیر بات کی جائے تو دونوں ایک دوسرے سے وابستہ اور حقیقتاً ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بہت سے شعبوں میں بطور خاص ان کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے، تاکہ اس شعبے کے وظائف صحیح طور پر ادا ہو سکیں
طب و تدریس سے لے کر سماجیات اور جرمیات سے وابستہ مختلف شعبوں تک، صنف نازک کی شمولیت کے بغیر کام یابی کا تصور خام خیالی ہی کے زمرے میں آئے گا۔ خواتین کو تو ان شعبوں سے الگ کیا جائے، جہاں پہلے تو یہ بات طے کی جائے کہ کیا یہ صرف مردوں کے مسائل ہیں، خواتین کے نہیں یا معاشرے میں خواتین کی شمولیت غیر ضروری ہے۔
بالائی سطروں میں ذکر کیے گئے شعبے تو کسی حد تک تخصیصی کہے جا سکتے ہیں، جیسے تعلیم، صحت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ۔ ان شعبوں کے وظائف ایک وقت، ضرورت، مجبوری یا حادثے کی صورت میں ہی سامنے آتے ہیں، لیکن معاشرے کا ایک شعبہ ایسا ہے، جو براہ راست حالات و واقعات اورلوگوں کے مسائل سے ہی جڑا ہے۔۔۔ اور سماج سے منسلک کسی بھی شعبے کے لیے بھلا ایسا کیوں کر ممکن ہے کہ کسی ایک صنف کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ معاشرتی شعبوں میں تو ہر طبقہ ہائے فکر اور عمر کے گروہ کے چھوٹے سے چھوٹے فعل اور مسئلے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ پھر یہ شعبہ تو زندگی اور معاشرے کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ ذکر ہے روزمرہ امور اور حالات حاضرہ سے جڑی صحافت کی نگری کا۔۔۔
صحافت ہو یا اور کوئی شعبہ، جب ہم کسی روایت پسند معاشرے کی بات کریں تو اس میں صنف نازک کی شمولیت کی ضرورت اور اہمیت تو اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے، تاکہ وہ خواتین کے حوالے سے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکے۔ معاشرے میں کسی بھی واقعے کی خواتین سے جڑی جزیات زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کر سکے، لیکن بد قسمتی سے صورت حال اس کے برعکس رہی۔
سعودی عرب کا شمار بھی دنیا کے ایک کٹر روایت پسند معاشرے میں ہوتا ہے۔ جہاں اگرچے اب دیگر شعبوں کی طرح صحافت میں بھی خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے، لیکن اب بھی خاصی کم ہے۔ تاہم اب بتدریج صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اس بہتری کی جانب ایک واضح اشارہ اس وقت ملا جب سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون سمیہ جبارتی ایک اخبار ''سعودی گزٹ'' کے مدیر کے عہدے پر فائز ہوئیں، یوں جدہ شہر سے شایع ہونے والے اس انگریزی اخبار نے سعودی عرب میں ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔
سعودی گزٹ نامی انگریزی اخبار گزشتہ 30 برس سے زاید عرصے سے شایع ہو رہا ہے۔ یہ اخبار خبروں اور معلومات کی پیشکش کے ایسے طریقے اختیار کرتا ہے، جس سے اخبار کے قارئین لطف اندوز ہو سکیں۔ سعودی گزٹ براہ راست ہمہ وقت متحرک ویب سائٹ سے جڑا ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر تازہ ترین خبروں کے علاوہ روزانہ کا اخبار بھی دست یاب ہوتا ہے۔ سعودی گزٹ وہاں کے ایک صاحب ثروت خاندان ''عکاظ'' کی ملکیت ہے۔ یہ اخبار نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر عرب ممالک میں بھی خاصا مقبول ہے۔
اخبار کے سابق مدیر اعلا خالد المینا کہتے ہیں کہ سمیہ کو یہ عہدہ ان کی قابلیت پر ملا ہے اور وہ ایک پرعزم اور محنتی صحافی ہیں۔ سمیہ جبارتی کہتی ہیں کہ انہوں نے اس اخبار میں بہت اچھے اور پرسکون ماحول میں کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے اس عہدے پر آنے سے یقیناً دیگر سعودی خواتین پر بھی اثر پڑے گا۔ بقول ان کے کہ یہ ایک شگاف بن گیا ہے، جس کے جلد ایک دروازے کی شکل اختیار کرنے کی امید ہے۔ سمیہ جبارتی کہتی ہیں کہ سعودی عرب میں خواتین صحافت میں بہت دل چسپی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اخبار میں بھی خواتین نامہ نگاروں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔
سمیہ جبارتی سنہ 2011ء میں سعودی گزٹ سے بطور نائب مدیر اعلا وابستہ ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ سعودی گزٹ کے ہی ایک حریف اخبار ''عرب نیوز'' سے منسلک تھیں۔ وہاں انہوں نے 13 سال کام کیا۔ اس دوران وہاں خالد المینا مدیر رہے، جو بعد میں سعودی گزٹ کے بھی مدیر بنے اور سمیہ جبارتی کی تعیناتی سے پہلے تک اسی عہدے پر فائز رہے۔
سعودی عرب میں بھی اب یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ خبروں اور آگہی کا یہ سفر محض مردوں کے سہارے مکمل نہیں ہو سکتا۔ معاشرے کے روایت پسند حلقے جس طرح معاشرے کے دیگر میدانوں میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں، اسی طرح انہوں نے میدان صحافت میں بھی خواتین کی اہمیت کو ماننا شروع کر دیا ہے، کیوں کہ یہ شعبہ تو درس وتدریس اور طب سے بھی زیادہ خواتین سے متعلق ہے۔ اس کا تعلق روزانہ کی زندگی اور روز مرہ کے واقعات سے ہے۔ جو تعلیم اور صحت کی طرح محدود نہیں، بلکہ کافی وسیع ہیں۔ اس میں خواتین کا حصہ اتنا ہی ہے، جتنا کہ ایک مکمل معاشرے میں ہونا چاہیے۔
روزانہ بہت سے سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیاں، تقریبات اور واقعات ہوتے ہیں۔ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جس میں کسی مرد سے زیادہ ایک خاتون زیادہ بہتر طریقے سے خبری لوازمات حاصل کر سکتی ہے۔ ایک طرف اس میں ہم اپنی ثقافتی ضروریات اور مجبوریوں کو رکھ سکتے ہیں، تو دوسری طرف منطقی اعتبار سے سماج سے نتھی اس شعبے میں نصف حصے کو بھلا کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
سمیہ جبارتی کا ایک اخبار کا مدیر بننا اسی سمت اشارہ ہے کہ سعودی معاشرے میںبھی خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔ صحافت میں خواتین کی یہ موثر اور منظم شرکت وہاں کی مجموعی صحافت کو بہتر کرنے کے ساتھ خواتین کے مسائل حل کرنے میں بھی معاون ہو گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ سمیہ جبارتی کی ترقی سے سعودی عرب کی دیگر خواتین کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔ بالخصوص صحافت میں آنے والی خواتین اور زیادہ پُر اعتماد ہوں گی اور انہیں مزید بہتر مواقع میسر آئیں گے۔
طب و تدریس سے لے کر سماجیات اور جرمیات سے وابستہ مختلف شعبوں تک، صنف نازک کی شمولیت کے بغیر کام یابی کا تصور خام خیالی ہی کے زمرے میں آئے گا۔ خواتین کو تو ان شعبوں سے الگ کیا جائے، جہاں پہلے تو یہ بات طے کی جائے کہ کیا یہ صرف مردوں کے مسائل ہیں، خواتین کے نہیں یا معاشرے میں خواتین کی شمولیت غیر ضروری ہے۔
بالائی سطروں میں ذکر کیے گئے شعبے تو کسی حد تک تخصیصی کہے جا سکتے ہیں، جیسے تعلیم، صحت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ۔ ان شعبوں کے وظائف ایک وقت، ضرورت، مجبوری یا حادثے کی صورت میں ہی سامنے آتے ہیں، لیکن معاشرے کا ایک شعبہ ایسا ہے، جو براہ راست حالات و واقعات اورلوگوں کے مسائل سے ہی جڑا ہے۔۔۔ اور سماج سے منسلک کسی بھی شعبے کے لیے بھلا ایسا کیوں کر ممکن ہے کہ کسی ایک صنف کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ معاشرتی شعبوں میں تو ہر طبقہ ہائے فکر اور عمر کے گروہ کے چھوٹے سے چھوٹے فعل اور مسئلے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ پھر یہ شعبہ تو زندگی اور معاشرے کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ ذکر ہے روزمرہ امور اور حالات حاضرہ سے جڑی صحافت کی نگری کا۔۔۔
صحافت ہو یا اور کوئی شعبہ، جب ہم کسی روایت پسند معاشرے کی بات کریں تو اس میں صنف نازک کی شمولیت کی ضرورت اور اہمیت تو اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے، تاکہ وہ خواتین کے حوالے سے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکے۔ معاشرے میں کسی بھی واقعے کی خواتین سے جڑی جزیات زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کر سکے، لیکن بد قسمتی سے صورت حال اس کے برعکس رہی۔
سعودی عرب کا شمار بھی دنیا کے ایک کٹر روایت پسند معاشرے میں ہوتا ہے۔ جہاں اگرچے اب دیگر شعبوں کی طرح صحافت میں بھی خواتین کی شرکت بڑھ رہی ہے، لیکن اب بھی خاصی کم ہے۔ تاہم اب بتدریج صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اس بہتری کی جانب ایک واضح اشارہ اس وقت ملا جب سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون سمیہ جبارتی ایک اخبار ''سعودی گزٹ'' کے مدیر کے عہدے پر فائز ہوئیں، یوں جدہ شہر سے شایع ہونے والے اس انگریزی اخبار نے سعودی عرب میں ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔
سعودی گزٹ نامی انگریزی اخبار گزشتہ 30 برس سے زاید عرصے سے شایع ہو رہا ہے۔ یہ اخبار خبروں اور معلومات کی پیشکش کے ایسے طریقے اختیار کرتا ہے، جس سے اخبار کے قارئین لطف اندوز ہو سکیں۔ سعودی گزٹ براہ راست ہمہ وقت متحرک ویب سائٹ سے جڑا ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر تازہ ترین خبروں کے علاوہ روزانہ کا اخبار بھی دست یاب ہوتا ہے۔ سعودی گزٹ وہاں کے ایک صاحب ثروت خاندان ''عکاظ'' کی ملکیت ہے۔ یہ اخبار نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر عرب ممالک میں بھی خاصا مقبول ہے۔
اخبار کے سابق مدیر اعلا خالد المینا کہتے ہیں کہ سمیہ کو یہ عہدہ ان کی قابلیت پر ملا ہے اور وہ ایک پرعزم اور محنتی صحافی ہیں۔ سمیہ جبارتی کہتی ہیں کہ انہوں نے اس اخبار میں بہت اچھے اور پرسکون ماحول میں کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے اس عہدے پر آنے سے یقیناً دیگر سعودی خواتین پر بھی اثر پڑے گا۔ بقول ان کے کہ یہ ایک شگاف بن گیا ہے، جس کے جلد ایک دروازے کی شکل اختیار کرنے کی امید ہے۔ سمیہ جبارتی کہتی ہیں کہ سعودی عرب میں خواتین صحافت میں بہت دل چسپی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اخبار میں بھی خواتین نامہ نگاروں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔
سمیہ جبارتی سنہ 2011ء میں سعودی گزٹ سے بطور نائب مدیر اعلا وابستہ ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ سعودی گزٹ کے ہی ایک حریف اخبار ''عرب نیوز'' سے منسلک تھیں۔ وہاں انہوں نے 13 سال کام کیا۔ اس دوران وہاں خالد المینا مدیر رہے، جو بعد میں سعودی گزٹ کے بھی مدیر بنے اور سمیہ جبارتی کی تعیناتی سے پہلے تک اسی عہدے پر فائز رہے۔
سعودی عرب میں بھی اب یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ خبروں اور آگہی کا یہ سفر محض مردوں کے سہارے مکمل نہیں ہو سکتا۔ معاشرے کے روایت پسند حلقے جس طرح معاشرے کے دیگر میدانوں میں خواتین کی شمولیت کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں، اسی طرح انہوں نے میدان صحافت میں بھی خواتین کی اہمیت کو ماننا شروع کر دیا ہے، کیوں کہ یہ شعبہ تو درس وتدریس اور طب سے بھی زیادہ خواتین سے متعلق ہے۔ اس کا تعلق روزانہ کی زندگی اور روز مرہ کے واقعات سے ہے۔ جو تعلیم اور صحت کی طرح محدود نہیں، بلکہ کافی وسیع ہیں۔ اس میں خواتین کا حصہ اتنا ہی ہے، جتنا کہ ایک مکمل معاشرے میں ہونا چاہیے۔
روزانہ بہت سے سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیاں، تقریبات اور واقعات ہوتے ہیں۔ بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جس میں کسی مرد سے زیادہ ایک خاتون زیادہ بہتر طریقے سے خبری لوازمات حاصل کر سکتی ہے۔ ایک طرف اس میں ہم اپنی ثقافتی ضروریات اور مجبوریوں کو رکھ سکتے ہیں، تو دوسری طرف منطقی اعتبار سے سماج سے نتھی اس شعبے میں نصف حصے کو بھلا کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
سمیہ جبارتی کا ایک اخبار کا مدیر بننا اسی سمت اشارہ ہے کہ سعودی معاشرے میںبھی خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔ صحافت میں خواتین کی یہ موثر اور منظم شرکت وہاں کی مجموعی صحافت کو بہتر کرنے کے ساتھ خواتین کے مسائل حل کرنے میں بھی معاون ہو گی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ سمیہ جبارتی کی ترقی سے سعودی عرب کی دیگر خواتین کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی۔ بالخصوص صحافت میں آنے والی خواتین اور زیادہ پُر اعتماد ہوں گی اور انہیں مزید بہتر مواقع میسر آئیں گے۔