آہ اداکار شکیل بھی دنیا سے رخصت ہوا آخری حصہ
شکیل کے یوں تو سارے ڈرامے ہی لاجواب اور بے مثال تھے مگر چند ڈراموں کی بازگشت آج بھی ناظرین کے دلوں میں موجود ہے
1969 میں کراچی ٹیلی وژن پر فیملی ڈراموں کا آغاز کیا گیا تھا اور حسینہ معین صاحبہ نے ٹیلی وژن کے لیے ایک ڈرامہ سیریل '' شہ زوری'' لکھا تھا جس کے ہدایت کار محسن علی تھے نیلوفر علیم اور شکیل اس ڈرامے کے مرکزی کردار تھے جب کہ دیگر آرٹسٹوں میں عشرت ہاشمی، جمشید انصاری، قاضی واجد اور محمود علی وغیرہ شامل تھے۔
اس ڈرامے میں باصلاحیت آرٹسٹوں کی ایک ٹیم شامل تھی۔ اس ڈرامے کا ہر ہفتہ ناظرین بڑی بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ اس ڈرامے میں نیلوفر علیم (بعد کی نیلوفر عباسی) نے بڑی بے باک اداکاری کی تھی۔ ڈرامہ سیریل میں خاص طور پر شکیل، نیلوفر علیم اور جمشید انصاری کی اداکاری کو بے حد پسند کیا جاتا تھا۔
شکیل کے مکالمے بولنے کا انداز بڑا جداگانہ ہوتا تھا۔ شکیل نے ڈرامہ '' انکل عرفی'' میں بھی اپنی کردار نگاری سے ہزاروں ناظرین کے دل موہ لیے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب شکیل شہرت کے آسمان پر تھا ہر ٹی وی پروڈیوسر کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کے ڈرامے میں شکیل مرکزی کردار ادا کرے یہ بھی بڑی عجیب بات تھی کہ جس اداکار کو لاہور کے فلمسازوں نے اس قابل نہیں گردانا تھا کہ وہ ان کی فلموں کی زینت بنے پھر وہی اداکار ٹیلی وژن کی دنیا پر چھا گیا تھا، اس کا ہر آنے والا ڈرامہ اس کے پچھلے ڈرامے سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔
شکیل کے یوں تو سارے ڈرامے ہی لاجواب اور بے مثال تھے مگر چند ڈراموں کی بازگشت آج بھی ناظرین کے دلوں میں موجود ہے اور وہ ڈرامے تھے انتظار فرمائیے، چمن اپارٹمنٹ، افشاں، عروسہ، کرن کہانی، زیر زبر پیش اور آنگن ٹیڑھا اس ڈرامے کے رائٹر انور مقصود تھے اور یہ ڈرامہ بھی اپنے وقت کا انتہائی خوبصورت اور پسندیدہ ڈرامہ تھا، اس ڈرامے میں مزاح اور طنز کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
اس ڈرامے میں بشریٰ انصاری، دردانہ بٹ، ارشد محمود، خالد نظامی اور سلیم ناصر کے جاندار کرداروں نے اس ڈرامے کا حسن کچھ اور بڑھا دیا تھا پھر انور مقصود کے دلچسپ مکالموں کی تو بات ہی اور تھی برجستگی اور شگفتگی ہر ہر منظر میں محسوس ہوتی تھی۔
میں یہ اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ٹیلی وژن کے بعض ڈراموں کی تھیم ہماری بے شمار فلموں کی کہانیوں سے بہتر ہوتی تھی اور جتنی توجہ اور دلچسپی سے لوگ ٹیلی وژن کے ڈرامے دیکھتے تھے وہ ذوق و شوق فلمیں دیکھنے کا کم سے کم ہوتا جا رہا تھا۔
پاکستان کے ٹی وی ڈرامے ہندوستان میں بھی بڑے شوق سے دیکھے جاتے تھے اور ہمارے ٹی وی آرٹسٹوں کو ہندوستان میں بھی بہت پسند کیا جاتا تھا یہاں میں ایک اور دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ ڈرامہ شہ زوری کی اداکارہ نیلوفر علیم کو اس دور کے مشہور فلمساز و ہدایت کار پرویز ملک نے اپنی ایک فلم انمول کے لیے کاسٹ کرنا چاہا تھا جب پرویز ملک اس مقصد کے لیے کراچی آئے اور فلم میں کام کرنے کی آفر کی تھی تو نیلوفر علیم کے گھر والوں نے فلم میں کام کرنے سے انکار کردیا تھا اور نیلوفر علیم کو بھی فلموں سے زیادہ ٹیلی وژن کے لیے کام کرنا پسند تھا پھر پرویز ملک نے اپنی فلم انمول میں اداکارہ شبنم کو کاسٹ کیا تھا اور اسے نیلوفر عباسی جیسی اداکاری کرنے کے لیے ڈرامہ شہ زوری بھی دکھایا تھا۔
اسی طرح اداکار شکیل کو بعد میں ایک دو فلمسازوں نے اپنی فلم میں کام کی آفر بھی کی تھی جسے شکیل نے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ فلمی دنیا ریس کے گھوڑے کو پسند کرتی ہے آرٹسٹ کو نہیں جو جیت گیا اسے لے لیا جو ہار گیا اسے بھلا دیا جاتا ہے۔
امریکا آنے سے پہلے میری اداکار شکیل سے کئی بار طارق روڈ کی دوپٹہ گلی میں ملاقات ہو جاتی تھی میں وہاں ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے منسلک تھا شکیل جب بھی ملتا مسکراہٹ اس کے چہرے پر ہوا کرتی تھی، وہ بہت ہی خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھا اس نے زندگی میں سب کے ساتھ اچھا ہی کیا تھا وہ جتنا اچھا آرٹسٹ تھا اس سے کہیں زیادہ اچھا انسان تھا۔
اس کی زندگی کا مقصد کام اور بس کام تھا اس نے اپنا ذاتی کاروبار بھی کیا ہوا تھا وہ ہمیشہ خوشحال رہا اور دوستوں کے کام بھی آتا رہا اس میں بناوٹ اور دکھاوا نہیں تھا وہ ایک سچا اور کھرا آرٹسٹ تھا جب تک وہ کام کرتا رہا اس کا سکہ چلتا رہا ہماری دعا ہے اللہ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین۔)
اس ڈرامے میں باصلاحیت آرٹسٹوں کی ایک ٹیم شامل تھی۔ اس ڈرامے کا ہر ہفتہ ناظرین بڑی بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ اس ڈرامے میں نیلوفر علیم (بعد کی نیلوفر عباسی) نے بڑی بے باک اداکاری کی تھی۔ ڈرامہ سیریل میں خاص طور پر شکیل، نیلوفر علیم اور جمشید انصاری کی اداکاری کو بے حد پسند کیا جاتا تھا۔
شکیل کے مکالمے بولنے کا انداز بڑا جداگانہ ہوتا تھا۔ شکیل نے ڈرامہ '' انکل عرفی'' میں بھی اپنی کردار نگاری سے ہزاروں ناظرین کے دل موہ لیے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب شکیل شہرت کے آسمان پر تھا ہر ٹی وی پروڈیوسر کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کے ڈرامے میں شکیل مرکزی کردار ادا کرے یہ بھی بڑی عجیب بات تھی کہ جس اداکار کو لاہور کے فلمسازوں نے اس قابل نہیں گردانا تھا کہ وہ ان کی فلموں کی زینت بنے پھر وہی اداکار ٹیلی وژن کی دنیا پر چھا گیا تھا، اس کا ہر آنے والا ڈرامہ اس کے پچھلے ڈرامے سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔
شکیل کے یوں تو سارے ڈرامے ہی لاجواب اور بے مثال تھے مگر چند ڈراموں کی بازگشت آج بھی ناظرین کے دلوں میں موجود ہے اور وہ ڈرامے تھے انتظار فرمائیے، چمن اپارٹمنٹ، افشاں، عروسہ، کرن کہانی، زیر زبر پیش اور آنگن ٹیڑھا اس ڈرامے کے رائٹر انور مقصود تھے اور یہ ڈرامہ بھی اپنے وقت کا انتہائی خوبصورت اور پسندیدہ ڈرامہ تھا، اس ڈرامے میں مزاح اور طنز کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
اس ڈرامے میں بشریٰ انصاری، دردانہ بٹ، ارشد محمود، خالد نظامی اور سلیم ناصر کے جاندار کرداروں نے اس ڈرامے کا حسن کچھ اور بڑھا دیا تھا پھر انور مقصود کے دلچسپ مکالموں کی تو بات ہی اور تھی برجستگی اور شگفتگی ہر ہر منظر میں محسوس ہوتی تھی۔
میں یہ اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ٹیلی وژن کے بعض ڈراموں کی تھیم ہماری بے شمار فلموں کی کہانیوں سے بہتر ہوتی تھی اور جتنی توجہ اور دلچسپی سے لوگ ٹیلی وژن کے ڈرامے دیکھتے تھے وہ ذوق و شوق فلمیں دیکھنے کا کم سے کم ہوتا جا رہا تھا۔
پاکستان کے ٹی وی ڈرامے ہندوستان میں بھی بڑے شوق سے دیکھے جاتے تھے اور ہمارے ٹی وی آرٹسٹوں کو ہندوستان میں بھی بہت پسند کیا جاتا تھا یہاں میں ایک اور دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ ڈرامہ شہ زوری کی اداکارہ نیلوفر علیم کو اس دور کے مشہور فلمساز و ہدایت کار پرویز ملک نے اپنی ایک فلم انمول کے لیے کاسٹ کرنا چاہا تھا جب پرویز ملک اس مقصد کے لیے کراچی آئے اور فلم میں کام کرنے کی آفر کی تھی تو نیلوفر علیم کے گھر والوں نے فلم میں کام کرنے سے انکار کردیا تھا اور نیلوفر علیم کو بھی فلموں سے زیادہ ٹیلی وژن کے لیے کام کرنا پسند تھا پھر پرویز ملک نے اپنی فلم انمول میں اداکارہ شبنم کو کاسٹ کیا تھا اور اسے نیلوفر عباسی جیسی اداکاری کرنے کے لیے ڈرامہ شہ زوری بھی دکھایا تھا۔
اسی طرح اداکار شکیل کو بعد میں ایک دو فلمسازوں نے اپنی فلم میں کام کی آفر بھی کی تھی جسے شکیل نے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ فلمی دنیا ریس کے گھوڑے کو پسند کرتی ہے آرٹسٹ کو نہیں جو جیت گیا اسے لے لیا جو ہار گیا اسے بھلا دیا جاتا ہے۔
امریکا آنے سے پہلے میری اداکار شکیل سے کئی بار طارق روڈ کی دوپٹہ گلی میں ملاقات ہو جاتی تھی میں وہاں ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے منسلک تھا شکیل جب بھی ملتا مسکراہٹ اس کے چہرے پر ہوا کرتی تھی، وہ بہت ہی خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھا اس نے زندگی میں سب کے ساتھ اچھا ہی کیا تھا وہ جتنا اچھا آرٹسٹ تھا اس سے کہیں زیادہ اچھا انسان تھا۔
اس کی زندگی کا مقصد کام اور بس کام تھا اس نے اپنا ذاتی کاروبار بھی کیا ہوا تھا وہ ہمیشہ خوشحال رہا اور دوستوں کے کام بھی آتا رہا اس میں بناوٹ اور دکھاوا نہیں تھا وہ ایک سچا اور کھرا آرٹسٹ تھا جب تک وہ کام کرتا رہا اس کا سکہ چلتا رہا ہماری دعا ہے اللہ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین۔)