سرکاری و غیر سرکاری مراعات یافتہ اشرافیہ عوام دشمن
قومی اسمبلی کی طاقتور اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے بھی اِس کیس کا فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا ہے
9جولائی 2023کو تمام اخبارات نے یہ المناک خبر نمایاں طور پر شائع کی۔ سرگودھا کے نزدیکی شہر بھلوال سے ایک وین کوٹ مومن جا رہی تھی۔
وین میں 21مسافر سوار تھے ۔ راستے ہی میں مذکورہ وین میں آگ بھڑ ک اُٹھی کہ گیس سلنڈر سے چلنے والی وین میں گیس لِیک ہو گئی تھی۔ چند ہی لمحوں میں لیک ہونے والی گیس نے آگ پکڑ لی ۔ وین میں ایک خوفناک دھماکہ ہُوا جس نے 7بد قسمت مسافروں کی جان لے لی۔14مسافر شدید زخمی ہو گئے ۔
روزنامہ ''ایکسپریس'' کے مقامی نمایندہ نے قارئین کو بتایا ہے کہ مقامی کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، ڈی پی او اور آر پی او نے اِس سانحہ بارے ایک کمیٹی بٹھا دی ہے ۔ اپنی نوعیت کا یہ المناک سانحہ پہلا نہیں ہے۔ پہلے بھی گیس سلنڈروں سے چلنے والی کئی بسیں اور ویگنیں سلنڈروں کو آگ پکڑنے کے کارن کئی جانوں کو ہڑپ کر چکی ہیں ۔
مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل پنجاب ہی کے مشہور شہر، گجرات، میں بھی ایسا ہی سانحہ رُونما ہُوا تھاجس نے 17لیڈی ٹیچرز اور معصوم طالبعلم بچوں کی زندگیاں ہڑپ کر لی تھیں ۔ مگر کسی ذمے دار کے خلاف کوئی پرچہ کٹا نہ وین مالک کو حوالہ زندان کیا گیا ۔
ہمیں مقامی بیوروکریسی اور ٹریفک پولیس ذمے داران کی جانب سے بتایا تو یہ جاتا ہے کہ تمام بسوں اور مسافر ویگنوں سے گیس سلنڈرز اُتروا لیے گئے ہیں ۔ فی الحقیقت مگر ایسا نہیں ہے ۔ سرکاری مراعات یافتہ اشرافیہ کی جانب سے یہ جھوٹ بے تکان اس لیے بولا جاتا ہے کہ اِن کے خلاف اِن سانحات کے پرچے نہیں کٹتے ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اب بھی 9جولائی 2023 کو بھلوال میں وقوع پذیر ہونے والے المناک سانحہ کی ایف آئی آر مقامی کمشنر ، ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او اور آر پی او کے خلاف کٹتی کہ درحقیقت اِنہی سرکاری مراعات یافتہ طبقات کی سہل پسندی کی وجہ سے یہ سانحہ وقوع پذیر ہُوا ہے ۔ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر اِن سرکاری مراعات یافتہ اشرافیہ کے پیٹ پالتے اور اِن کے ناز نخرے اُٹھاتے ہیں مگر جواب میں اِن کی طرف سے عوام کو غفلتیں، دھمکیاں اور دھکے ملتے ہیں۔
کب تک پاکستان کی اِس بے تحاشہ مراعات یافتہ اشرافیہ کے بے تحاشہ اخراجات اور ناز نخرے عوام اُٹھاتے رہیں گے؟ کیا ابھی اِس اشرافیہ کا کڑا احتساب کرنے کا وقت نہیں آیا؟ اگر ا ن عوامی مسافر ویگنوں میں کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں، ڈی پی اوز ، آر پی اوز، ججوں، مجسٹریٹوں، صوبائی و وفاقی سیکریٹریوں اور صوبائی و وفاقی وزرا کے بیوی بچے بھی سفر کررہے ہوتے تو پھر ہم دیکھتے کہ اِن ویگنوں اور بسوں میں ہلاکت خیز گیس سلنڈرزکیسے استعمال ہوتے! اگر پاکستانی سماج کے باطن کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ پاکستان کی سرکاری و غیر سرکاری اور ریٹائرڈ بے تحاشہ مراعات یافتہ اشرافیہ کے خلاف، ہر سطح پر، شدید ناپسندیدگی اور نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں ۔
پاکستان کے غریب ، متوسط اور زیریں متوسط طبقات میں متفقہ طور پر یہ گہرا احساس پایا جاتا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سماج ، سیاست اور معیشت پر کسی ہشت پا تیندوے (Octopus) کی مانند اپنی آہنی گرفت مضبوط کررکھی ہے ۔ اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یہ بے تحاشہ سرکاری، غیر سرکاری اور ریٹائرڈ اشرافیہ اپنے اور اپنی آل اولادوں کے سوا کسی دوسرے کو آگے بڑھنے کی راہ نہیں دیتی۔ یہ اشرافیہ طبقات اپنے گروہی مفادات کے حصول کے لیے معاشرے کو جونکوں کی طرح چُوس رہے ہیں ۔
حساس دل والے ہمارے کئی تجزیہ نگار پاکستانی سماج میں پنپنے والے اِن حقائق و احساسات کو سامنے بھی لا رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر 9جولائی2023 کو انگریزی میں شائع ہونے والا ایک دلکشا آ رٹیکل۔ اِسے ممتاز دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف، جناب ندیم ایف پراچہ، نے لکھا ہے اور اِس کا عنوان ہے A Cluster of Elitesیہ آ رٹیکل ہمیں بتاتا ہے: ''پاکستان میں پائی جانے والی ہر قسم کی اشرافیہ باطنی طور پر ایک ہی نظریئے اور مسلک پر متفق ہے اور وہ ہے ذاتی ، مالی اور سماجی مفادات کا تحفظ و حصول۔ پاکستان کی یہ اشرافیہ دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی، اسلامسٹوں کی ہو یا سیکولرسٹوں کی، سوشلسٹوں کی ہو یا لبرلز کی،اندر سے یہ سب ایک ہیں۔
باطنی طور پر یہ سب بے تحاشہ سرکاری ، غیر سرکاری اور ریٹائرڈ اشرافیہ ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ کیے ہُوئے ہے۔ یہ سب پاکستان کے غریب، متوسط اور زیریں متوسط طبقات کے مخالف ہیں۔پاکستانی اشرافیہ کے اِن سبھی طبقات کو زیڈ اے بھٹو کی پالیسیاں اور کئی اقدامات اس لیے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے کہ بھٹو صاحب غریب پروری کی بات بھی کرتے تھے۔
پاکستان کی اِس مفادات زدہ اشرافیہ نے جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ ادوار میں خوب خوب مفادات سمیٹے۔ ڈکٹیٹروں کے درباروں میں پہنچ کر اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے پاکستان کی ہر قسم کی اشرافیہ ایک ہو جاتی ہے ۔''
واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی سماج کو پاکستان کی سرکاری و غیر سرکاری اور ریٹائرڈ بے تحاشہ مراعات یافتہ اشرافیہ نے جس وحشت و شقاوت سے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ، اِس اشرافیہ کے خلاف ہمارے سماج میں نفرت روز افزوں ہے۔
اِس ہمہ قسم کی اشرافیہ کو اُس وقت سے ڈرنا چاہیے جب یہ نفرت ایک دھماکے سے پھٹ جائیگی ۔میرے سامنے جولائی2023 کا ''عالمی ترجمان القرآن '' کا شمارہ رکھا پڑا ہے ۔اِس میں وطنِ عزیز کے ممتاز اسکالر جناب ڈاکٹر طاہر کامران کا آرٹیکل شائع کیا گیا ہے اور اِس کا عنوان ہے : '' اشرافیہ قبضہ، ایک سماجی شکنجہ۔''
اِس ذہن کشا آرٹیکل میں مصنف نے اِس امر کا جائزہ لیا ہے کہ '' ( پاکستان سمیت) معاشروں میں بد عنوانیاں اُس وقت جنم لیتی ہیں جب طبقہ اشرافیہ کے لوگ عوام کے لیے مختص وسائل کو عوام پر خرچ کرنے کی بجائے ایسے منصوبوں پر خرچ کرنے لگتے ہیں جن سے اُن کے ذاتی اور گروہی مفادات وابستہ ہوں'' ۔ہم اگر اپنے ارد گرد بروئے کار ''ترقیاتی منصوبوں '' کا بغور جائزہ لیں تو یہ تجزیہ عین حقیقت معلوم ہوتا ہے ۔
پاکستان کے نحیف و نزار بدن سے جونکوں کی طرح چمٹی پاکستان کی اِس بے تحاشہ سرکاری و غیر سرکاری اور ریٹائرڈ ظالم و استحصالی اشرافیہ کے ظلم و استحصال کی ایک تازہ مثال حالیہ ایام ہی میں سامنے آئی ہے : پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دَور میں 3ارب ڈالرز کی خطیر اور بے تحاشہ رقوم پاکستان کی چنیدہ اشرافیہ کو ، بے سُود قرض کے نام پر، بانٹ دی گئیں۔
ایک ایک ڈالر کے حصول کے لیے خوار ہونے والے پاکستان کی موجودہ حکومت کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم جاری کیا کہ 3ارب ڈالر لینے والے اِن چنیدہ اشرافیہ خاندانوں اور ان افراد کے نام بتائے جائیں تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اشرافیہ نے نام بتانے اوراِنہیں پبلک کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ قومی اسمبلی کی طاقتور اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے بھی اِس کیس کا فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ہے پاکستان کے کمزور بدن سے جونکوں کی طرح چمٹی اشرافیہ کی طاقت!!