بھارتی افواج کو گورکھا سپاہی دستیاب نہیں ہوں گے

بھارتی پیدل فوج یعنی انفنٹری میں گورکھا رجمنٹس بھارتی انفنٹری کا سب سے بڑا حصہ ہیں


عبد الحمید July 21, 2023
[email protected]

جون1757 کی جنگِ پلاسی کے نتیجے میں بنگال پر قبضے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے ارد گرد کے علاقوں میں پیش قدمی کرنی شروع کی۔

سکم، دارجلنگ اور ملحقہ علاقے نیپال کی عملداری میں تھے۔ انگریزوں نے متعدد چھوٹی بڑی لڑائیوں میں نیپالی فوج کو بہتر حکمتِ عملی سے مار بھگایا اور ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔1816میں انگریزوں نے اپنے مقاصد حاصل ہو جانے کے بعد نیپال کے ساتھ سوگالی معاہدہ کیا۔

اس معاہدے کے مطابق انگریزوں نے نیپال کے مقبوضہ علاقوں کو اپنی عملداری میں شامل کر کے باقی نیپال کی ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کر لیا تاکہ یہ خود مختار ریاست برٹش انڈیا اور چین کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کا کام دے۔وہ سارے علاقے جن کو نیپال سے ہتھیا کر انگریز عملداری میں شامل کیا گیا، انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھارتی ریاست کا حصہ بن گئے۔

نیپال ان علاقوں پر اپنا حقِ ملکیت جتاتا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ بھارت یہ علاقے نیپال کو واپس کرے۔ نیپال سے ہتھیائے گئے علاقوں میں بھی گورکھا قبیلے آباد ہیں جو بھارتی گورکھا کہلاتے ہیں۔1816 کے سوگالی معاہدے کے بعد انگریزوں نے نیپال سے دوستی کر لی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نیپالی گورکھا افراد کو بڑے پیمانے پر اپنے فوجی دستوں میں شامل کرنا شروع کردیا۔

1857کی جنگِ آزادی میں ان گورکھا دستوں نے کمپنی کی فتح میں بڑا کردار ادا کیا۔میرٹھ اور دہلی میں آزادی کے متوالوں کو کچلنے کے لیے گورکھا دستوں کو بھی استعمال کیا گیا۔ان دو شہروں میں تو قابو پا لیا گیالیکن لکھنو میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔لکھنو میں کمپنی افواج محاصرے میں تھیں اور کمپنی کی تمام چالیں ناکارہ ثابت ہو رہی تھیں۔ایسے میںنیپال کا حکمران اپنی 11 رجمنٹس گورکھا فوج لے کر انگریزوں کی مدد کے لیے خود آ گیا۔

یہ گورکھا بہت بہادری سے لڑے اور لکھنو کا میدان کمپنی کے ہاتھ رہا۔1857کے بعد ہندوستان براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہو گیا۔انگریزوں نے گورکھا فوجیوں کی ریکروٹمنٹ جاری رکھی اور انھیں برٹش انڈین آرمی کا مستقل بازو بنا دیا۔

بھارتی پیدل فوج یعنی انفنٹری میں گورکھا رجمنٹس بھارتی انفنٹری کا سب سے بڑا حصہ ہیں جو سات گورکھا رجمنٹس پر مشتمل ہے۔ان سات رجمنٹس میں 39بٹالین ہیں۔ 39بٹالین انفنٹری کے علاوہ ایک گورکھا آرٹلری رجمنٹ بھی ہے۔اس طرح کل ملا کر 40گورکھا بٹالین بھارتی فوج میں شامل ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ گورکھا بہت اچھے لڑاکا ہیں۔

ان کا ڈسپلن بھی مثالی ہے اور یہ تنخواہ کے عوض اپنی جان کی بھی بازی لگا دیتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے ملک نیپال میں ان کے لیے ملازمت یا روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ 1947میں بھارت کی آزادی کے موقع پر ایک ٹرائی پار ٹائیٹ یعنی سہ فریقی معاہدہ ہوا جس میں نیپال کی حکومت،برطانوی حکومت اور حکومتِ ہند فریق تھے۔

اس معاہدے میں نیپال نے اس بات کا اقرار کیا کہ نیپالی گورکھا،برطانوی اور بھارتی افواج کا حصہ بنتے رہیںگے۔اسی معاہدے کے مطابق برٹش آرمی کی گورکھا رجمنٹس کو اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو یو کے میں برطانوی افواج کا حصہ بنیں اور چاہیں تو بھارتی افواج کا حصہ بنیں۔آزادی کے وقت 10گورکھا رجمنٹس تھیں اور ہر رجمنٹ دو بٹالین پر مشتمل تھی۔

دس میں سے 4گورکھا رجمنٹس نے برطانوی فوج کا حصہ بننے اور 6رجمنٹس نے بھارتی افواج کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔ برطانوی فوج میں شامل ہونے والے گورکھوں کو وہ تنخواہ اور مراعات نہ ملیں جو برطانوی شہریوں کو فوج میں ملازمت کرنے پر ملتی ہیں،اس لیے برطانوی گورکھا رجمنٹس میں ریکروٹمنٹ کم ہوتی چلی گئی اور اب دو بٹالین پر مشتمل صرف ایک گورکھا رجمنٹ برطانوی فوج کا حصہ ہے۔

2019تک گورکھا رجمنٹس بھارتی انفنٹری کا سب سے اہم حصہ تھیں۔2019کے آخر میں بھارتی افواج یعنی بری،بحری اور فضائی افواج میں نئی بھرتیاں بند کر دی گئیں۔کہا گیا کہ یہ کورونا وبا کے سرعت سے پھیلنے پر حفظِ ماتقدم کے طور پر کیا گیا ہے۔

14جولائی 2022کو بھارتی افواج میں بھرتی کے لیے ایک نئی اسکیم جسے اگنی پت کا نام دیا گیا، کی منظوری دی گئی اور اسے ستمبر 2022کو لاگو کر دیا گیا۔اگنی پت اسکیم کے مطابق کمیشنڈ آفیسرز سے نیچے تمام بھرتیاں صرف چار سال کے لیے ہوں گی اور بھرتی ہونے والے افراد اگنی وِیر کہلائیں گے۔ان میں سے ہر ایک 6مہینے کی ٹریننگ لے کر مزید ساڑھے تین سال سروس کرے گا۔

4سالہ سروس کے اختتام پر وہ فوج میں مستقل فوجی بننے کے لیے اپلائی کر سکے گا۔ہر اگنی ویر کو یک مشت 11لاکھ 70ہزار ادا کیے جائیں گے،البتہ اسے پنشن یا دیگر مراعات نہیں ملیں گی۔فوج میں بھرتی کے لیے عمر ساڑھے سترہ سے اکیس سال کے درمیان درکار ہو گی۔

اس طرح بھارتی فوج بہت جوان، تنومند، پھرتیلے اور جفا کش مرد و زن پر مشتمل ہو گی۔بھارتی اپوزیشن کی جماعتوں نے اس اسکیم پر شدید تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ابھی اس اسکیم کو ملتوی رکھا جائے اور اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے۔بھارتی فوج کے 50سے 60ہزار فوجی ہر سال ریٹائر ہو جاتے ہیں۔

اس طرح پچھلے تین سال میں کوئی ڈیڑھ لاکھ افراد ریٹائر ہو چکے ہیں جن کی جگہ اگنی پت اسکیم کے تحت بھرتی ہونی ہے۔ بھارتی اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ صرف چار سال کے لیے بھرتی ہونے والے فوجیوں میں قوم کے لیے جان لڑانے کا جذبہ مفقود ہو گا اور فوج کا مورال گرے گا۔

اگنی پات اسکیم کے لاگو ہوتے ہی بھارتی افواج کے لیے نیپالی گورکھا کی بھرتی نا ممکن بن گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے 1947کے سہہ فریقی معاہدے کا سہارا لیتے ہوئے نیپالی حکومت سے بات چیت کی ہے۔گفتگو کے کئی دور ہوئے جو تا حال نا کام رہے ہیں۔نیپالی حکومت کا کہنا ہے کہ اگنی پات اسکیم 1947کے معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔

جو گورکھا جوان اس اسکیم کے تحت بھارتی گورکھا رجمنٹس کا حصہ بنیں گے اور صرف چار سالہ سروس کے بعد فارغ ہو جائیں گے وہ باقی ساری زندگی کس سہارے گزاریں گے۔نیپال کی معیشت اس قابل نہیں کہ بھارتی افواج سے فارغ ہونے والوں کو روزگار دے سکے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو ابھی اوائل عمری میں ہوں گے۔

انھوں نے لڑائی کی بہترین تربیت حاصل کی ہو گی۔ان کو ہر قسم کے جدید مہلک ہتھیار استعمال کرنے آتے ہوں گے۔وہ بے روزگاری کی وجہ سے شر پسندوں کے ہاتھ چڑھ کر نیپالی ریاست کی سیکیورٹی کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں۔نیپال نے ابھی ابھی ماؤ باغیوںسے جان چھڑائی ہے ایسے میں وہ کوئی نیا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

نیپالی وزیرِ اعظم کے پچھلے دنوں بھارت کے دورے میں بھارتی وزیرِ اعظم نے انھیں اپنا فیصلہ واپس لینے کا کہا لیکن نیپالی وزیرِ اعظم نے ہاں نہیں کی۔گزشتہ تین سال میں بارہ تیرہ ہزار گورکھا ریٹائر ہوئے ہیں۔بھارتی گورکھا رجمنٹس کی نفری کم ہو چکی ہے۔اگر جلدی تازہ بھرتی نہ ہوئی تو بھارتی افواج میں گورکھا رجمنٹس کو فعال رکھنا محال ہو جائے گا۔

اگنی پت اسکیم تمام بھارتیوں اور گورکھا قبائل پر یکساں لاگو کی گئی ہے۔بھارتی حکومت نے اس تجویز کو رد کر دیا کہ گورکھا کو اس اسکیم سے exceptionدے دی جائے۔کہا گیا کہ فوجی بھرتی کے لیے دہرا معیار نہیں اپنایا جا سکتا۔جیسا کہ پہلے بتایا گیا گورکھا رجمنٹس بھارتی انفنٹری کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ان رجمنٹس نے 4بھارتی آرمی چیفس اور 2 چیف آف ڈیفنس اسٹاف پیدا کیے ہیں۔

فیلڈ مارشل مانک شا 12ایف ایف کے تھے جنھیں 8thگورکھا رجمنٹ سے وابستہ کیا گیا۔26ویں بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ5ویں گورکھا رجمنٹ سے تھے،جب کہ جنرل راوت اورموجودہ سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان کا تعلق 11ویں گورکھا رجمنٹ سے ہے۔گورکھا اور سکھ بھارتی آرمی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

بھارت سکھوں پر اب پورا اعتماد نہیں کرتا اور گورکھا دستیاب نہیں۔گورکھا کی غیر موجودگی میں بہترین لڑاکا رجمنٹس کے لیے اپنے وجود کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ریاستِ پاکستان خاص طور پر پاکستانی افواج کو ان تمام developmentsپر گہری نظر رکھنی ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں