قتیل شفائی دوسرا حصہ
1970 میں قتیلؔ شفائی نے اپنی مادری زبان ’’ ہندکو ‘‘ کی پہلی فلم ’’ قصہ خوانی‘‘ پروڈیوس کی جو 1980 میں ریلیز ہوئی
برصغیر پاک و ہند میں دلی کے بعد بے مثل تاریخی، روحانی، ادبی اور ثقافتی اہمیت کا حامل اگر کوئی اور شہر ہے تو وہ لاہور ہی ہے۔ قومی زبان اردو کی پنجاب اور خصوصاً لاہور شہر نے جو خدمت کی ہے اور کر رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔
قتیلؔ شفائی کی سب سے پہلی غزل بھی قمر اجنالوی کے زیر ادارت شایع ہونے والے لاہور ہی کے ہفت روزہ میں چھپ کر منظر عام پر آئی اور مقبول خواص و عوام ہوکر ان کی شہرت کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔
قتیلؔ شفائی نے فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز بھی لاہور ہی کے ایک فلم پروڈیوسر دیوان سرداری لال کی ایک فلم سے کیا تھا جس کا سن 1947 جو تقسیم برصغیر کا سال ہے۔ پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' (1948) کے نغمے تحریر کرنے کا اعزاز بھی قتیلؔ شفائی ہی کو حاصل ہوا۔ پھر ان کی شہرت سرحد پار بولی ووڈ تک جا پہنچی جہاں ان کے فلم ساز مہیش بھٹ جیسے پرستاروں نے اُن کی شاعرانہ صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بھارت میں قتیلؔ صاحب کا ڈنکا بجایا اور اُن کے نام کو خوب خوب چمکایا۔
فلمی گیت کار کی حیثیت سے بھارت اور پاکستان میں قتیلؔ شفائی نے ایوارڈ پر ایوارڈ جیت کر اپنی خداداد صلاحیت کا بڑا زبردست لوہا منوایا۔ مجموعی طور پر انھوں نے 201 پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گیت لکھے جو کہ ایک بہت بڑی تعداد اور ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ اُن کے شعری مجموعوں کی تعداد 20 اور فلمی نغموں کی تعداد 2500 سے بھی زیادہ ہے۔
اُن کی شاعری کے تراجم بہت سی دیگر زبانوں بشمول ہندی، گجراتی، انگریزی، روسی اور چینی زبان میں شایع ہوکر اُن کی عظمت اور مقبولیت پر مہر ثبوت ثبت کر چکے ہیں۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے بین الاقوامی سطح کے نابغہ روزگار شہرہ آفاق سخنوروں میں ہوتا ہے۔
اُن کی ادبی اور شعری عظمت و خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1994 میں انھیں ''تمغہ حسن کارکردگی'' سے نوازا جب کہ انھیں وطن عزیز میں ''آدم جی ادبی ایوارڈ'' نقوش ایوارڈ اور بھارت میں ''امیر خسرو'' ایوارڈ جیسے عظیم ایوارڈ سے نوازا گیا۔
1970 میں قتیلؔ شفائی نے اپنی مادری زبان '' ہندکو '' کی پہلی فلم '' قصہ خوانی'' پروڈیوس کی جو 1980 میں ریلیز ہوئی۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی ناقابل فراموش خدمات انجام دینے کے اعتراف میں قتیلؔ شفائی کو 1999 میں '' صدی کے خصوصی نگار ایوارڈ'' سے بھی نوازا گیا۔
لاہور میں ان کی رہائش گاہ والی گلی کا نام '' قتیلؔ شفائی اسٹریٹ'' جب کہ ہری پور میں ان کے محلے کا نام ان کے نام پر ''محلہ قتیلؔ شفائی'' رکھ دیا گیا ہے۔
ہمارے ممدوح کا اصل نام محمد اورنگزیب تھا لیکن انھیں شہرت عام اور بقائے دوام اُن کے تخلص اور قلمی نام ''قتیل شفائی'' سے ہی حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں دنیا انھیں محمد اورنگزیب کے نام سے جاننے کے بجائے قتیل شفائی کے نام سے پہچانتی اور مانتی ہے۔
یہ قلمی نام انھوں نے 1938 میں اختیارکیا تھا جس نے ان کی شہرت کو بامِ عروج پر پہنچا کر لافانی بنا دیا ہے۔
قتیل صاحب نے مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شاعری میں تو خوب پیروی کی لیکن تخلص کی تبدیلی میں ان کی تقلید سے صریحاً انحراف کیا۔ مرزا غالب کو شاعری سے زیادہ اپنے آبا کے پیشہ سپہ گری پر ناز تھا حالانکہ انھیں تمام شہرت ان کی شاعری ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔
قتیل شفائی کا گھرانہ ایک عام سے تاجر کا گھرانہ تھا، جس میں دور پرے کا بھی کوئی شخص شاعرانہ ذوق تو کجا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، مگر قتیلؔ شفائی اس بات کے معترف رہے۔ شاعری نے ہی ان کے گھرکا چولہا بھی گرم رکھا اور اسی نے ہی ان کا نام بھی روشن کیا۔
1935 میں ان کے والد کی وفات کے بعد جب گھرکی کفالت کا بار ان کے کاندھوں پر آن پڑا تو حالات کے جبر کے تحت قتیل صاحب کو اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے کھیلوں کے سامان کی فروخت کا کاروبار شروع کرنا پڑا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔
جس کے بعد انھوں نے راولپنڈی شہر کا رخ کیا جہاں وہ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی سے منسلک ہوگئے لیکن ناکامی نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ انجام کار 1946 میں وہ لاہور سے 1936 سے شایع ہونے والے ماہنامہ '' ادب لطیف'' کے مدیر نذیر احمد کے اصرار پر اس ادبی رسالے کے نائب مدیر کے طور پر وابستہ ہوگئے بالآخر انھوں نے 1947 میں بہ حیثیت نغمہ نگار لاہورکی فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کر لی۔ گویا '' پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا '' فلمی دنیا انھیں بہت راس آئی اور بس پھر تا حیات وہ اس کے ہو کر رہ گئے۔
ہمارے ساتھ ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس کے لیے انٹرویو کے موقعے پر آف دی ریکارڈ غیر رسمی بے تکلف گفتگو کے دوران قتیلؔ شفائی نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ وہ اس بات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں گے کہ الیکٹرانک میڈیا سے نشرکیے جانے والے فلمی نغموں کی رائلٹی کی ادائیگی کا کوئی معقول نظام رائج نہیں جو نغمہ نگار،گلوکار اور سنگیت کار کے ساتھ سراسر حق تلفی اور ظلم ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے برملا اور برجستہ اپنا یہ مشہور شعر پرزور انداز میں پڑھا۔
دنیا میں قتیلؔ اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
(جاری ہے)