خارجہ پالیسی کے اہم چیلنجز
خارجہ پالیسی سمیت علاقائی سیاست کی دوستی کی جڑیں سیاسی اور معاشی مفادات پر مبنی ہوتی ہیں
پاکستان داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر کئی طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے ۔عمومی طور پر خارجہ پالیسی یا علاقائی سیاست سے جڑے مسائل کا ایک بڑا تعلق خود ہماری داخلی سیاست یا داخلی عدم استحکام سے جڑا ہوتا ہے ۔
خارجہ پالیسی سمیت علاقائی سیاست کی دوستی کی جڑیں سیاسی اور معاشی مفادات پر مبنی ہوتی ہیں ۔جو بھی بڑا یا چھوٹا ملک ہم سے بہتر تعلقات استوار کرے گا تو اس کے پیچھے معیشت کا ہی کھیل نمایاں ہوتا ہے۔
ہماری قومی سیکیورٹی پالیسی کا بنیادی نقطہ بھی اب معیشت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ہمارے بقول اب ہم جیو تعلقات اور جیو معیشت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ہم اس بنیادی نقطہ پر کھڑے ہیں کہ اب ہمارے عالمی یا علاقائی تعلقات کی بنیاد تنازعات ، جنگیں یا ٹکراؤ نہیں بلکہ دو طرفہ معیشت پر ہوگی ۔
خارجہ پالیسی کے بارے میں یہ ابہام ختم ہونا چاہیے کہ اس کی بنیاد دوستی ، مذہب یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ خارجہ پالیسی کی بڑی بنیاد دو طرفہ مفادات کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور جہاں آپ تعلقات کی دنیا میں ایک دوسرے کے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں یا کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات کو آگے بڑھاتے ہیں تو وہیں دنیا کے بڑے اور مضبوط ممالک بھی آپ کے لیے راستہ فراہم کرتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی اہمیت، افادیت اور وسائل یا طاقت سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
ہم نے اپنی سیکیورٹی پالیسی میں اس نقطہ کو بھی بڑی اہمیت دی ہے کہ ہم علاقائی سیاست کے استحکام میں کنجی یا کلیدی کردار ادا کریں گے اور کسی بڑے طاقت ور ملک کی پراکسی پر مبنی جنگ یا تنازعات میں نہیں الجھیں گے ۔
ایک بڑی جنگ یا طاقت کے توازن میں امریکا اور چین سامنے آئے ہیں ۔ دونوں کی طاقت کے سامنے نئے عالمی اور علاقائی بلاک بن بھی رہے ہیں اور ان کی اہمیت بھی بڑھ رہی ہے ۔پاکستان کا ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی میں ان دونوں بڑی طاقتوں میں خود کو ایک توازن کے طور پر پیش کرنا ہے ۔
امریکا سے تعلقات چین دشمنی یا ناراضگی یا چین دوستی امریکا ناراضگی کی بنیاد سے گریز کرکے دونوں کے ساتھ اس انداز میں آگے بڑھنا ہے کہ توازن بھی قائم رہے اور ٹکراؤ بھی پیدا نہ ہو۔ اسی طرح مڈل ایسٹ میں بھی سعودی عرب ، ایران ، قطر اور یو اے ای میں بھی جو بڑی سطح کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہونے کا جو عمل ہے وہ بھی اسی عالمی اور گلوبل سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جانا چاہیے ۔
کیونکہ امریکا کی ناراضگی سے ہمیں آئی ایم ایف اور یورپی یونین اور معیشت کے معاملات میں اہم مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔اس لیے پاکستان کو بھی عالمی ، گلوبل اور علاقائی سطح پر ہونے والی بڑی تبدیلیوںکے تناظر میں اپنی داخلی ، علاقائی اور عالمی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں۔ہماری خارجہ پالیسی محض خواہشات ، ضد یا کسی کی پسند و ناپسند کی بنیاد کی بجائے ایک بڑے مشاورتی فریم ورک کے طور پر طے ہونا چاہیے۔
پاکستان کو اس وقت جو چند بڑے چیلنجز ہیں ان میں پانچ مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے یا ان مسائل کی روشنی میں اپنی ترجیحات کا تعین درست سمت میں کرنا ہوگا۔ اول داخلی حکمرانی اور گورننس سے جڑے مسائل میں ایک بڑی سرجری درکار ہے اور یہ روائتی یا فرسودہ طور طریقے ہماری آج کی ضرورت کو پورا نہیں کرتے۔ دوئم، ہمیں بھارت اور افغانستان کے معاملات پر نہ صرف توجہ دینا ہے بلکہ اپنی موجودہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی درکار ہے۔
بھارت سے بہتر تعلقات اور تجارتی تعلقات کی بحالی ہمارا ترجیحی ایجنڈا ہونا چاہیے ۔ کشمیر کے مسئلہ پر اپنی پالیسی کو مدنظر رکھ کر تجارت سمیت دیگر معاملات پر پیش رفت ہی ہماری ضرورت ہے ۔ خود بھارت کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے جو اس وقت خود بھی بہتر تعلقات میں رکاوٹ ہے ، مگر اس کے باوجود ہماری سفارتی اور ڈپلومیسی جنگ کا بنیادی نقطہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات ہی ہونا چاہیے۔
کیونکہ افغان بحران کا ایک حل بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات سے ہی جڑا ہوا ہے وگرنہ بھارت افغانستان کو بنیاد بنا کر ہمیں غیر مستحکم کرنے اور افغان حکومت کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی حکمت عملی کو برقرار رکھے گا۔ افغان بحران خود پاکستان کے لیے ایک نیا مسئلہ بن گیا ہے اور طالبان حکومت کے باوجود ہماری مشکلات بڑھ رہی ہیں اور خود طالبان کا اپنا جھکاؤ بھی معاشی مفادات کے تحت بھارت کے ساتھ جڑا نظر آتا ہے۔
ٹی ٹی پی کا ہمیں کوئی مستقل علاج تلاش کرنا ہے ۔ بھارت و افغان تعلقات میں بہتری کے ساتھ ہی ٹی ٹی پی کو کمزور یا ختم کیا جاسکتا ہے ۔ دہشت گردی سے جڑے داخلی ، علاقائی اور خارجی معاملات میں درست سمت، عملی اور شفاف اقدامات یا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ باہمی تعاون ہی ہماری حکمت عملی ہونی چاہیے ۔ہمیں وزارت خارجہ ، سفارت کاری سمیت مختلف نوعیت کے مقامی ، علاقائی اور عالمی تھنک ٹینک قائم کرنے ہیں اور ان کی مدد سے اپنے پرامن بیانیہ کو بنیاد بنا کر ایک بڑی سفارتی ، سیاسی جدوجہد درکار ہے۔
خارجہ یا علاقائی پالیسی میں ایڈہاک ازم کا خاتمہ درکار ہے اور ہمیں گلوبل سیاست یا فورم کے ساتھ جڑ کر اس میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے ۔ہمیں غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں اور بہت سے معاملات کو پہلے سے موجود طریقہ کار کو تبدیل کرکے آوٹ آف باکس مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔
ردعمل کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کے مقابلے میں مستقل بنیادوں پر عملی اقدامات اور پہلے سے حالات کا تجزیہ کرکے کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے۔ چین پاکستان معاشی کوری ڈور یا سی پیک جیسے منصوبے ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ ہم زیادہ بہتر معاشی امکانات پیدا کرسکیں۔
پاکستان کو محض الزامات کی بنیاد پر اپنا دامن نہیں چھڑانا ،بلکہ اپنی سابقہ اور حال کی غلطیوں کا اعتراف کرکے کچھ بہتر اور نیا کچھ سیکھنا ہے۔ لیکن جب تک اپنے گھر کی اصلاح نہیں کریں گے تو اس وقت تک ہم خارجہ پالیسی میں وہ کچھ حاصل نہیں کرسکیں گے، جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔لیکن کیا ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھ سکیںگے ، یہ سوال ہی سنجیدہ ہے اور ہم سے نئی سوچ اور فکر کے تقاضے کرتا ہے۔