عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مڈل کلاس طبقے میں خاندانی زندگی میں مسائل کی بڑی وجہ کم آمدنی کا ہونا ہے، کیونکہ کم آمدنی کی وجہ سے وہ تمام آسائشیں، جو اُس کا خاندان اُس سے توقع کررہا ہوتا ہے، نہیں ملتیں تو اُس کی زندگی میں مسائل آجاتے ہیں۔
عام مشاہدے کے مطابق انسان لاتعداد خواہشیں رکھتا ہے اور ایک خواہش کے پورا ہونے پر وہ دوسری خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتا ہے۔ اس طرح اس کی زندگی میں خواہشیں پوری کرنے کا لامتناہی سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا جبکہ وہ انسان اپنی طبعی عمر پوری ہونے کے بعد خود ختم ہوجاتا ہے۔ کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی انسان یا خاندان بہتر زندگی کی خواہشیں نہ رکھے۔ ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خاندان کو بہتر سے بہتر زندگی دینے کےلیے ہر ممکن کوشش کرے۔ مگر وہ خواہشیں ایسی ہوں جن کو پورا کرنا اس کےلیے ممکن ہو اور جس کےلیے اسے کسی دوسرے کا گلہ نہ کاٹنا پڑے، کسی دوسرے کا استحصال نہ کرنا پڑے، کسی کا حق نہ مارنا پڑے اور کوئی ایسی خلاف ورزی نہ کرنی پڑے جو اپنے ملک کے آئین اور قانون کے متصادم ہو۔
ہمارے ملک میں دو طرح کے خاندانی نظام موجود ہیں، مشترکہ خاندانی نظام اور اکائی خاندانی نظام۔ ہمارے ہاں اکثریت مشترکہ خاندانی نظام میں رہنا پسند کرتی ہے اور اس کےلیے بہت سی دلیلیں اور مثالیں دی جاتی ہیں۔ صدیوں سے مشترکہ خاندان میں رہنے والے تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے انہیں چھوڑ کر علیحدہ رہیں۔ وہاں رہ کر بھلے ان خاندانوں میں ساس بہو کے جھگڑے، نند بھابھی کے جھگڑے، بھائیوں کے جھگڑے ہوتے رہیں لیکن اس کے باوجود پورا خاندان، اُس خاندان سے باہر جانے والے کو مشترکہ طور پر رہنے کےلیے مجبور کرتا ہے۔ اُسے مختلف قسم کے واسطے دیے جاتے ہیں۔ ماں اپنے اس بچے کی جدائی میں بیمار پڑجاتی ہے۔ پورا خاندان اس سے ناراض ہو جاتا ہے اور اس سے سماجی رابطہ منقطع کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرض بہت سی تاویلیں دی جاتی ہیں کہ مشرق میں مشترکہ خاندان ہی بہتری کا ضامن ہے، علیحدہ رہنے کا تصور مغربی سوچ ہے لیکن اگر اس کے باوجود بھی وہ علیحدہ ہوجائے تو اس کا سارا الزام اس کی بیوی کے سر دھر دیا جاتا ہے اور اگر آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ وہی بہو جو اس وقت ان کےلیے ولن سمجھی جارہی ہوتی ہے وہ اس خاندان کے ماموں، چچا، پھوپھو یا خالہ کی بیٹی ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مشترکہ نظام کے ذریعے خاندانی زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے یا علیحدہ رہنے کے نظام کے ذریعے؟ میرا مشاہدہ ہے کہ یہ کوئی ایسا فارمولہ نہیں جسے آپ ہر خاندان پر اپلائی کرسکتے ہیں۔ مشترکہ نظام کے جن خاندانوں میں خاندان والوں کے رویے مثبت ہیں، جہاں ہر ایک کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے، جہاں خاندان کی بہوؤں کو بیٹیوں کی طرح سمجھا جاتا ہے، جہاں یوٹیلٹی بلوں کے کم یا زیادہ دینے پر بھائی ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوجاتے، جہاں میاں بیوی کے ساتھ ان دونوں خاندانوں میں ہم آہنگی ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے تو وہ مشترکہ خاندانی نظام صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور ان کے درمیان کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔
اسی طرح جو خاندان علیحدہ رہتے ہیں، اگر اُن دونوں (میاں، بیوی) کے درمیان ہم آہنگی ہے تو ان کے درمیان کبھی مسائل نہیں ہوں گے، ورنہ وہ علیحدہ ہوکر اور زیادہ مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں اور چونکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرتے ہیں اور خاندان کا کوئی بزرگ ان کے فیصلوں میں شامل نہیں ہوتا تو ان خاندانوں میں کشیدگی کا ابھرنا لازمی امر ہے، جو اکثر واقعات میں طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ اس لیے میری رائے میں آپ چاہے مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہوں یا علیحدہ رہتے ہوں۔ آپ ایک مثبت سوچ کو پروان چڑھائیں۔ اپنی شریک حیات کو خاندان کے فیصلوں میں شریک کریں۔ اپنے خاندان میں اسے اہمیت دلوائیں اور اسے یہ احساس نہ مت ہونے دیں کہ وہ اس خاندان کےلیے اجنبی ہے۔ اسی طرح ایک شادی شدہ عورت کےلیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے خاندان میں عزت دلوائے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جن خاندانوں میں داماد کو تسلیم نہیں کیا جاتا اُن خاندانوں میں بھی ہمیشہ کشیدگی رہتی ہے۔
آپ اپنے بچوں کی شادی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیجیے کیونکہ بچوں کی شادی محض شادی نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان جڑت پیدا ہونا ہوتا ہے اور اس جڑت کو قائم رکھنے کےلیے میاں، بیوی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ بہت سے خاندانوں میں داماد کو جو عزت دی جاتی ہے وہ اس سے زیادہ کے متمنی ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ اپنے سسرال میں خوشی، غمی کے موقع پر ایسا ڈرامہ کرتے ہیں کہ سسرال والے پریشان ہوجاتے ہیں اسے ہینڈل کیسے کریں۔ بالکل اسی طرح بہوؤں کو بھی یہی شکوہ رہتا ہے کہ انہیں وہ احترام نہیں مل رہا جس کی وہ حقدار ہیں۔ بہو اس خاندان کو اپنے اصولوں کے مطابق چلانا چاہتی ہے جبکہ خاندان چاہتا ہے کہ بہو اس خاندان کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارے اور یہاں سے ہی خاندان اور بہو کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے جو اس بہو کی علیحدگی پر ہی ختم ہوتی ہے۔
موجودہ دور میں تو ان رشتوں کی سوچ میں اور بھی تبدیلی آئی ہے۔ ماضی میں بیٹیوں کو شادی کے وقت سمجھایا جاتا تھا کہ اب سے وہ آپ کا گھر ہوگا، آپ کے ساس سسر آپ کے والدین ہوں گے اور آپ نے مرتے دم تک ان کی اور اُس گھر کی وفادار رہنا ہے لیکن آج کے دور میں بیٹی کو سمجھایا جاتا ہے کہ اگر تجھے وہاں کوئی بات کرے تو ہمیں بتانا پھر ہم دیکھ لیں گے۔ اس لیے آج کے دور میں ماضی کی نسبت طلاق کی شرح زیادہ ہوگئی ہے۔ خاندانوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ لوگ اپنے نجی مسئلوں کو بزرگوں کی مشاورت کے بغیر حل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ خاندان خواہشوں کے لامتناہی چکر میں اچھے اور برے کی تمیز بھول چکے ہیں اور اس ضمن میں اپنے مشترکہ خاندانوں کی روایات، اصول اور اقدار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
اگر آپ خاندانی زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو نہ صرف میاں، بیوی بلکہ خاندان کے تمام افراد اپنے رویوں کو مثبت بنائیں۔ آپ مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہیں یا علیحدہ، آپ کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے اور خاندان کے فیصلے باہمی مشاورت سے حل کیے جانے چاہئیں۔ اپنے خاندان کی روایات اور اقدار کو ملحوظ خاطر رکھیں اور کوئی ایسی غلطی نہ کریں جس کی وجہ سے آپ کے خاندان کی نیک نامی پر حرف آئے۔ خصوصاً آج کے دور میں جب موجودہ دنیا ''ٹیکنالوجی کی دنیا'' کہلانے لگی ہے، جہاں لوگ سوشل میڈیا کے چنگل میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں آپ کوخود فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی خاندانی زندگی کو بہتر بنانے کےلیے آپ خود کیا کرسکتے ہیں اور کیسے اپنے خاندان کےلیے مثال قائم کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔