قتیل شفائی تیسرا اور آخری حصہ
قتیلؔ شفائی کی شاعری شعری محاسن سے معمور اور اندازِ بیاں کی نزاکتوں سے بھرپور ہے
جب ہماری ترقی کے بعد ہمیں حیدرآباد میں ریڈیو پاکستان کا اسٹیشن ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تو گویا سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔
اس وقت صوبہ سندھ میں لسانی محاذ آرائی کی وجہ سے حیدرآباد شہر میں بھی کشیدگی اپنے عروج پر تھی جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سندھی زبان کی اپنی مادری و قومی زبان اردو کی طرح بے لوث خدمت اور آبیاری کرنے والے عظیم شاعر، ادیب، دانشور اور تعصب سے ناآشنا ریڈیو پاکستان، حیدرآباد کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، الیاس عشقی کو قاسم آباد سے نقل مکانی کر کے لطیف آباد میں مقیم ہونے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی تھا کہ لفظ تعصب ہماری ڈکشنری میں کبھی بھی شامل نہیں رہا۔ چنانچہ ہماری مشکل یہ تھی کہ بقولِ شاعر:
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
مگر دنیا انسان دوست اور امن و آشتی پسند دوستوں سے چونکہ کبھی خالی نہیں رہی، اس لیے ہم نے اپنے ہم خیال اور مخلص دوستوں کے تعاون سے شہر حیدرآباد کی فضا کو خوشگوار اور پرامن بنانے کا قصد کیا اور کمشنر حیدرآباد عبد الغفار سومرو، وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی جی الانہ، سرگرم رکن فاران کلب حیدرآباد نذر محمد قریشی، انجینئر و سماجی کارکن کے تعاون سے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے زیرِ سایہ کل پاکستان عظیم الشان بین الصوبائی اور کل لسانی محفل مشاعرے کا دیال داس کلب حیدرآباد میں انعقاد کیا جس کے مہمان خصوصی جنرل (ر) معین الدین حیدر، گورنر سندھ اور صدر مشاعرہ قتیلؔ شفائی تھے۔
اِس خاکسار کی دعوت پر قتیلؔ صاحب نے نہایت عنایت و شفقت کے ساتھ لبیک کہا اور یوں ہمیں اپنے ممدوح کے ساتھ چند یادگارگھڑیاں گزارنے کا بہانہ اور سنہری موقع میسر آیا۔ اس وقت ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ قتیلؔ شفائی سے یہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوگی۔
اِس مختصر سے قیام کے دوران نہ صرف بہت سی دل کی باتیں بھی ہوئیں اور قتیلؔ صاحب کی زندگی اور شخصیت کے بہت سے گوشے بھی وا ہوئے۔ قتیلؔ بہت ہشاش بشاش اور صحت مند تھے۔ خوش مزاجی، سادگی، ملنساری، پابندی سے ورزش اور کوئی غم نہ پالنا ان کی صحت اور طویل عمری کا راز تھا۔ شانِ بے نیازی اُن کی شخصیت کا بنیادی وصف تھا۔ سُرورؔ بارہ بنکوی کا یہ شعر قتیلؔ کی عظیم شخصیت کی ترجمانی و عکاسی کرتا ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
قتیل صاحب ہو بہ ہو ایسے ہی تھے۔ خلیق و شفیق، مرنجان مرنج اور درویش صفت۔ ان سے ملاقات میرا گرانقدر سرمایہ حیات ہے۔ قتیلؔ صاحب نے اپنی علمی اور فلمی شاعری سے ادبی اور فلمی دنیا میں ایک دھوم مچا دی۔ انھیں خواص و عوام میں یکساں پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے دنیائے سخن میں اپنا ایک انوکھا اور منفرد مقام پیدا کیا۔
وہ اپنے اسلوب اور لب و لہجے کی بنا پر اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے علمی اور فلمی دنیا کو ایک نئے انداز اور آہنگ سے روشناس کرایا جو حسن بیان اور غنائیت کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ نغمگی اور موسیقیت ان کے کلام کا جوہر خاص اور اصل روح ہے جو سننے والے کے دل کو موہ لیتی ہے۔
دھن چونکہ ان کی شاعری کے خمیر میں شامل ہوتی ہے اس لیے کمپوزر کو ان کے تخلیق کیے ہوئے نغموں کی طرز بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ گلوکار یا گلوکارہ کی سریلی آواز سونے پر سہاگہ کا کام کرتی ہے۔ نئے کلام کو دو آتشہ بنا دیتی ہے۔
چنانچہ اقبال بانو جیسی سریلی گلوکارہ کی آواز نے ان کے کلام کو چار چاند لگا دیے جس میں '' الفت کی نئی منزل کو چلا ، پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ'' اور ''حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں'' جیسے جادو بھرے سدا بہار شاہکار شامل ہیں جنھوں نے نہ صرف پاکستان میں دھوم مچا دی بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے اور لتا منگیشکر جیسی نابغہ روزگارگلوکارہ کو بھی خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور کردیا۔
قتیلؔ شفائی کی شاعری شعری محاسن سے معمور اور اندازِ بیاں کی نزاکتوں سے بھرپور ہے جسے بار بار سننے اور پڑھنے کے بعد بھی تشنگی میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ انگریزی کے ممتاز شاعر جون کیٹس نے اِس حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ:thing of beauty is a joy forever A
ترجمہ: حُسن کا ایک شاہکار سدا بہار مسرت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔'' مثال کے طور پر قتیلؔ صاحب کے یہ لازوال اشعار ملاحظہ فرمائیں اور داد پر داد دیتے چلے جائیں:
حُسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
...............
گرمی حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے تِرا نام مرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیلؔ شفائی ایک قادر الکلام شاعر تھے جنھیں صرف غزل گوئی اور نغمہ نگاری ہی پر نہیں بلکہ دیگر اصناف سخن مثلاً دوہا نگاری، نظم گوئی، قطعہ نگاری اور مزاحیہ شاعری پر بھی یکساں عبور حاصل تھا۔