آئی ٹی سیکٹر کا فروغ نئی نسل کا مستقبل تابناک
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کو مزید افرادی قوت کی ضرورت ہے
وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ٹی سیمینار اور آئی ٹی منصوبوں کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ٹی برآمدات کو بیس ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں، ہمارے ملک کے ذہین نوجوان با ہمت اور محنتی ہیں، ان نوجوانوں نے فری لائنسر، اسٹارٹ اپس سمیت دیگر کاروبار کے ذریعے ترقی کی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر اس منصوبہ کے تحت زراعت، آئی ٹی، معدنیات اور دفاعی پروڈکشن کے شعبوں پر توجہ مرکوز کریں۔ تقریب میں پاکستانی فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے اعزازی مہمان کے طور پر شرکت کی۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی آئی ٹی سیکٹر میں پاکستانیوں کی ترقی کی خواہش خوش آیند ہے۔ سب سے بہترین بات یہ ہے کہ پاکستان کا آئی ٹی سیکٹر بلین آف ڈالرز کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے ساتھ ابھر رہا ہے۔
بزنس کمیونٹی کو خوب سمجھنا چاہیے کہ انویسٹمنٹ صرف رئیل اسٹیٹ پر نہیں ہوتی، انویسٹمنٹ آئی ٹی پر بھی ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں پالیسی کے لحاظ سے بہت مثبت پیش رفت ہوئی ہے، تاہم گروتھ کے رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی میں تسلسل ہونا چاہیے۔
پاکستان میں صنعتی، کاروباری، تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کے لیے آئی ٹی کو فروغ دے کر ترقی کے زینے طے کیے جاسکتے ہیں۔
آئی ٹی سیکٹر کے فروغ سے برآمدات بڑھانے کے مواقعے ملیں گے، جب کہ آئی ٹی میں پالیسیوں کے تسلسل سے برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ صنعتی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے اور خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کے لیے آئی ٹی سلوشنز کے لیے مستند اداروں کے قیام سے مجموعی ترقی کی سمت مثبت پیشرفت ہے، جیسا کہ ٹیکسٹائل اداروں میں چلنے والی لومز بھی آئی آٹومیٹڈ ہیں۔
آج دنیا بھر میں 26 ہزار سے زائد کمپنیاں اینڈرائیڈ کا سافٹ ویئر استعمال کر رہی ہیں۔ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے کارپوریٹ ماحول میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) تبدیلی کی ایک اہم سہولت کار ہے۔
آئی ٹی انقلاب کے نتیجے میں پوری دنیا میں لوگوں کا طرز زندگی بدل گیا ہے۔ پاکستانی حکومت نے ملک میں آئی ٹی سرمایہ کاروں کو کئی فوائد فراہم کیے ہیں، جس کے نتیجے میں آئی ٹی سیکٹر کی ترقی ہوئی ہے۔ دنیا میں چوتھا صنعتی انقلاب جاری ہے، جس میں روبوٹس، مصنوعی ذہانت، نینو ٹیکنالوجی، کوانٹم کمپیوٹنگ، بائیوٹیکنالوجی، انٹرنیٹ آف تھنگز، (آئی او ٹی) 3D پرنٹنگ، اور خود مختارگاڑیاں جیسے شعبوں میں ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی روزگار کی اگلی لہر ہے۔ حکومت اسکالر شپ اور کورسز کے ذریعے موجودہ مہارتوں کو فروغ دینے پر توجہ دے رہی ہے تاکہ نوجوانوں کو آمدنی اور کاروبار کے لحاظ سے خود کفیل بنایا جا سکے۔
ریگولیٹری قوانین مختلف طریقوں سے آئی ٹی سیکٹر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹوں میں سے ایک ہیں۔ اسٹارٹ اپ ہولڈرز، فری لانسرز کے لیے بینک اکاؤنٹ حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ دوسرا، غیر ملکی کرنسی کے کنٹرول کے طریقہ کار فری لانسرز کو غیر ملکی کرنسی کو آزادانہ طور پر منتقل کرنے سے روکتے ہیں۔
گورنمنٹ کے اقدامات کے باوجود اس طرح کے معاملات آئی ٹی سیکٹر کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کی اکثریت نے متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور امریکا میں بینک اکاؤنٹس کھولے ہیں۔ وفاقی وزیر امین الحق کہتے ہیں کہ پالیسی سازی اور فری لانسرز کو سہولیات کی فراہمی کے لیے وزارت آئی ٹی اقدامات کر رہی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں فری لانسرز کو بینک اکاؤنٹ کھولنے سے لے کر ایف بی آر کے نوٹسز تک کئی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا گیا ہے اور اس ضمن میں فری لانسرز پالیسی بھی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد حتمی مراحل میں ہے۔ اسی طرح آئی ٹی ایکسپورٹ میں نمایاں کارکردگی کے حامل فرد یا کمپنی کو نقد انعامات دینے کے لیے حکومت نے وزارت کی تجویز پر چار ارب روپے کا فنڈ مختص کیا ہے جو ایکسپورٹرز کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے اور زرمبادلہ پاکستان لانے کی جانب ترغیب دینے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ کاروبار جتنا آئی ٹی سے ہم آہنگ ہوگا، وہ کلاؤڈ کی طاقت کو استعمال کر سکتا ہے۔ عنقریب ایسا ہونے جارہا ہے کہ پاکستان میں بینکنگ سیکٹر کے اندر شفٹ آئے گا، جہاں جہاں آئی ٹی اسٹرکچر موجود ہے، وہ سب کرے گا، جابز کٹ ڈاؤن ہوں گی۔ بینکس اپنے پاس کلاؤڈ کو ڈپلائے کریں گے۔ بینکنگ سیکٹر کے بعد یہ سلسلہ گورنمنٹ کے اداروں میں جائے گا۔ اسی طرح ٹیلی کمیونیکیشن جن کے ملین آف ڈالرز انفرا اسٹرکچر پر لگے ہوئے ہیں، وہ اپنے آپ کو رڈیوس کریں گے۔
یونیورسٹیز اور ہوسٹنگ کمپنیز اب اسی جانب رخ کر رہی ہیں۔ کلاؤڈ پر منتقل ہونے کے براہِ راست دو فائدے ہیں۔ کے پکس بھی رڈیوس ہوگا، ریونیو ایکسپنڈیچر بھی رڈیوس ہوگا۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں گرتی معاشی صورت حال نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ بے روزگاری بڑھے گی اور اس کے حل کے طور پر ٹیکنالوجی کے ذریعے چھوٹے بڑے کاروبار اور تجارت کو فروغ دینا ہوگا۔ اس وقت ملک میں تین ہزار سے زائد کمپنیاں لارج، میڈیم اور اسمال سطح پر اس شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ اس شعبے کو سب سے بڑا مسئلہ سپلائی سائیڈ کا ہے۔
آئی ٹی کی خدمات کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہے کہ ہم اسے پورا ہی نہیں کر پا رہے، پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ آئی ٹی گریجویٹس کی ضرورت ہے لیکن تعلیمی اداروں سے صرف 25 ہزار لوگ ہی نکل رہے ہیں، اگر 25 ہزار طلبا تعلیمی اداروں سے پاس آوٹ ہو بھی رہے ہیں تو ان میں سے صرف 2500 ایسے ہیں کہ جن کے اندر وہ مہارت اور ہنر ہے جو کہ آئی ٹی کے شعبے میں درکار ہوتی ہے۔ اس شعبے میں طلب اتنی زیادہ ہے کہ ایک لاکھ قابل گریجویٹس دو مہینوں میں ملازمتوں پر لگے ہوں گے۔
دراصل اس شعبے کو انفرا اسٹرکچر کی نہیں بلکہ پالیسی سطح پر مدد چاہیے اور اسے حکومت کی ترجیحات میں زیادہ جگہ ملنی چاہیے جیسے کہ حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کو دیتی ہے، اگر اس شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے تو یہ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکال سکتا ہے۔
اس شعبے کو انفرا اسٹرکچر کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پالیسی کی ضرورت ہے جس میں کاروبار میں آسانی جیسے مسائل شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے موجودہ پالیسی جاری رہتی ہے اور مزید معاونت ملتی ہے تو اس شعبے کی برآمدات 2025 تک مطلوبہ اہداف تک پہنچ سکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر لوگوں کی ضروری اشیائ، کپڑے، جوتے، سبزیاں، فاسٹ فوڈ، ٹرانسپورٹ سروس، بائیک ڈیلیوری سمیت کئی کاروبار آن لائن جاری ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے شہر اور قصبوں میں بھی موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جا رہا ہے، ٹیکسی، بائیک، ایئر ٹریول، پبلک ٹرانسپورٹ وینز کی سہولت عام شہری آن لائن بکنگ سروس سے باآسانی حاصل کر رہا ہے، ان سروسز سے بالواسطہ اور بلاواسطہ لاکھوں لوگ روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ عام لوگ بلوں کی ادائیگی، پیسوں کی منتقلی اور فیسوں کی ادائیگی کے لیے بھی آن لائن سروسز سے استفادہ کر رہے ہیں، سفر، سڑکوں پر رش اور طویل قطاروں سے بچنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کو مزید افرادی قوت کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بھر میں آن لائن کاروبار کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور پاکستان بھی اس کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔آئی ٹی سیکٹر کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر توجہ دی جا رہی ہے لیکن نجی شعبہ تعلیم نے اس پر زیادہ توجہ دی ہے، ملک اور بیرون ملک کمپیوٹر سائنس، سافٹ اور ہارڈ وئیر انجینئرز کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے لیکن ساتھ اس سے منسلک سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کورسز کرنے والے افراد بھی بہتر روزگار حاصل کر رہے ہیں۔
شعبہ طب، تعلیم، ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجی سے منسلک کئی کاروبار چلانے کے لیے باقاعدہ کال سینٹرز، ڈیسک اور کنٹرول روم 24 گھنٹے کام کرتے ہیں جہاں سیکڑوں نوجوان مختلف شفٹوں میں امور انجام دے رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کام کرنے والی کمپنیاں عام آدمی کو کاروبار اور باعزت روزگار دینے کے لیے بڑے پلیٹ فارمز فراہم کر رہی ہیں جب کہ دوسری جانب صارفین کے مسائل میں کمی بھی ہو رہی ہے کہ انھیں دروازے پر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
ان ہائی ٹیک بزنس کمپنیز کو اپنے کاروبار کو چلانے کے لیے بڑی تعداد میں آئی ٹی ماہرین کی خدمات بھی درکار ہیں جس کی بناء پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم انتہائی اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔
سافٹ وئیر اور اپلیکیشنز پر تربیت پانے والے ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کال سینٹرز میں باعزت اور بہتر روزگار حاصل کر رہے ہیں، ملک بھر میں یہ ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال سے منسلک کاروبار کی جانب راغب کیا جائے اور ساتھ ہی انھیں آئی ٹی کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر اس منصوبہ کے تحت زراعت، آئی ٹی، معدنیات اور دفاعی پروڈکشن کے شعبوں پر توجہ مرکوز کریں۔ تقریب میں پاکستانی فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے اعزازی مہمان کے طور پر شرکت کی۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی آئی ٹی سیکٹر میں پاکستانیوں کی ترقی کی خواہش خوش آیند ہے۔ سب سے بہترین بات یہ ہے کہ پاکستان کا آئی ٹی سیکٹر بلین آف ڈالرز کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے ساتھ ابھر رہا ہے۔
بزنس کمیونٹی کو خوب سمجھنا چاہیے کہ انویسٹمنٹ صرف رئیل اسٹیٹ پر نہیں ہوتی، انویسٹمنٹ آئی ٹی پر بھی ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں پالیسی کے لحاظ سے بہت مثبت پیش رفت ہوئی ہے، تاہم گروتھ کے رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی میں تسلسل ہونا چاہیے۔
پاکستان میں صنعتی، کاروباری، تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کے لیے آئی ٹی کو فروغ دے کر ترقی کے زینے طے کیے جاسکتے ہیں۔
آئی ٹی سیکٹر کے فروغ سے برآمدات بڑھانے کے مواقعے ملیں گے، جب کہ آئی ٹی میں پالیسیوں کے تسلسل سے برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ صنعتی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے اور خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کے لیے آئی ٹی سلوشنز کے لیے مستند اداروں کے قیام سے مجموعی ترقی کی سمت مثبت پیشرفت ہے، جیسا کہ ٹیکسٹائل اداروں میں چلنے والی لومز بھی آئی آٹومیٹڈ ہیں۔
آج دنیا بھر میں 26 ہزار سے زائد کمپنیاں اینڈرائیڈ کا سافٹ ویئر استعمال کر رہی ہیں۔ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے کارپوریٹ ماحول میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) تبدیلی کی ایک اہم سہولت کار ہے۔
آئی ٹی انقلاب کے نتیجے میں پوری دنیا میں لوگوں کا طرز زندگی بدل گیا ہے۔ پاکستانی حکومت نے ملک میں آئی ٹی سرمایہ کاروں کو کئی فوائد فراہم کیے ہیں، جس کے نتیجے میں آئی ٹی سیکٹر کی ترقی ہوئی ہے۔ دنیا میں چوتھا صنعتی انقلاب جاری ہے، جس میں روبوٹس، مصنوعی ذہانت، نینو ٹیکنالوجی، کوانٹم کمپیوٹنگ، بائیوٹیکنالوجی، انٹرنیٹ آف تھنگز، (آئی او ٹی) 3D پرنٹنگ، اور خود مختارگاڑیاں جیسے شعبوں میں ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی روزگار کی اگلی لہر ہے۔ حکومت اسکالر شپ اور کورسز کے ذریعے موجودہ مہارتوں کو فروغ دینے پر توجہ دے رہی ہے تاکہ نوجوانوں کو آمدنی اور کاروبار کے لحاظ سے خود کفیل بنایا جا سکے۔
ریگولیٹری قوانین مختلف طریقوں سے آئی ٹی سیکٹر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹوں میں سے ایک ہیں۔ اسٹارٹ اپ ہولڈرز، فری لانسرز کے لیے بینک اکاؤنٹ حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ دوسرا، غیر ملکی کرنسی کے کنٹرول کے طریقہ کار فری لانسرز کو غیر ملکی کرنسی کو آزادانہ طور پر منتقل کرنے سے روکتے ہیں۔
گورنمنٹ کے اقدامات کے باوجود اس طرح کے معاملات آئی ٹی سیکٹر کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کی اکثریت نے متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور امریکا میں بینک اکاؤنٹس کھولے ہیں۔ وفاقی وزیر امین الحق کہتے ہیں کہ پالیسی سازی اور فری لانسرز کو سہولیات کی فراہمی کے لیے وزارت آئی ٹی اقدامات کر رہی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں فری لانسرز کو بینک اکاؤنٹ کھولنے سے لے کر ایف بی آر کے نوٹسز تک کئی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا گیا ہے اور اس ضمن میں فری لانسرز پالیسی بھی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد حتمی مراحل میں ہے۔ اسی طرح آئی ٹی ایکسپورٹ میں نمایاں کارکردگی کے حامل فرد یا کمپنی کو نقد انعامات دینے کے لیے حکومت نے وزارت کی تجویز پر چار ارب روپے کا فنڈ مختص کیا ہے جو ایکسپورٹرز کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے اور زرمبادلہ پاکستان لانے کی جانب ترغیب دینے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ کاروبار جتنا آئی ٹی سے ہم آہنگ ہوگا، وہ کلاؤڈ کی طاقت کو استعمال کر سکتا ہے۔ عنقریب ایسا ہونے جارہا ہے کہ پاکستان میں بینکنگ سیکٹر کے اندر شفٹ آئے گا، جہاں جہاں آئی ٹی اسٹرکچر موجود ہے، وہ سب کرے گا، جابز کٹ ڈاؤن ہوں گی۔ بینکس اپنے پاس کلاؤڈ کو ڈپلائے کریں گے۔ بینکنگ سیکٹر کے بعد یہ سلسلہ گورنمنٹ کے اداروں میں جائے گا۔ اسی طرح ٹیلی کمیونیکیشن جن کے ملین آف ڈالرز انفرا اسٹرکچر پر لگے ہوئے ہیں، وہ اپنے آپ کو رڈیوس کریں گے۔
یونیورسٹیز اور ہوسٹنگ کمپنیز اب اسی جانب رخ کر رہی ہیں۔ کلاؤڈ پر منتقل ہونے کے براہِ راست دو فائدے ہیں۔ کے پکس بھی رڈیوس ہوگا، ریونیو ایکسپنڈیچر بھی رڈیوس ہوگا۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں گرتی معاشی صورت حال نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ بے روزگاری بڑھے گی اور اس کے حل کے طور پر ٹیکنالوجی کے ذریعے چھوٹے بڑے کاروبار اور تجارت کو فروغ دینا ہوگا۔ اس وقت ملک میں تین ہزار سے زائد کمپنیاں لارج، میڈیم اور اسمال سطح پر اس شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ اس شعبے کو سب سے بڑا مسئلہ سپلائی سائیڈ کا ہے۔
آئی ٹی کی خدمات کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہے کہ ہم اسے پورا ہی نہیں کر پا رہے، پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ آئی ٹی گریجویٹس کی ضرورت ہے لیکن تعلیمی اداروں سے صرف 25 ہزار لوگ ہی نکل رہے ہیں، اگر 25 ہزار طلبا تعلیمی اداروں سے پاس آوٹ ہو بھی رہے ہیں تو ان میں سے صرف 2500 ایسے ہیں کہ جن کے اندر وہ مہارت اور ہنر ہے جو کہ آئی ٹی کے شعبے میں درکار ہوتی ہے۔ اس شعبے میں طلب اتنی زیادہ ہے کہ ایک لاکھ قابل گریجویٹس دو مہینوں میں ملازمتوں پر لگے ہوں گے۔
دراصل اس شعبے کو انفرا اسٹرکچر کی نہیں بلکہ پالیسی سطح پر مدد چاہیے اور اسے حکومت کی ترجیحات میں زیادہ جگہ ملنی چاہیے جیسے کہ حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کو دیتی ہے، اگر اس شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے تو یہ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکال سکتا ہے۔
اس شعبے کو انفرا اسٹرکچر کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پالیسی کی ضرورت ہے جس میں کاروبار میں آسانی جیسے مسائل شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے موجودہ پالیسی جاری رہتی ہے اور مزید معاونت ملتی ہے تو اس شعبے کی برآمدات 2025 تک مطلوبہ اہداف تک پہنچ سکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر لوگوں کی ضروری اشیائ، کپڑے، جوتے، سبزیاں، فاسٹ فوڈ، ٹرانسپورٹ سروس، بائیک ڈیلیوری سمیت کئی کاروبار آن لائن جاری ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے شہر اور قصبوں میں بھی موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جا رہا ہے، ٹیکسی، بائیک، ایئر ٹریول، پبلک ٹرانسپورٹ وینز کی سہولت عام شہری آن لائن بکنگ سروس سے باآسانی حاصل کر رہا ہے، ان سروسز سے بالواسطہ اور بلاواسطہ لاکھوں لوگ روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ عام لوگ بلوں کی ادائیگی، پیسوں کی منتقلی اور فیسوں کی ادائیگی کے لیے بھی آن لائن سروسز سے استفادہ کر رہے ہیں، سفر، سڑکوں پر رش اور طویل قطاروں سے بچنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کو مزید افرادی قوت کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بھر میں آن لائن کاروبار کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور پاکستان بھی اس کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔آئی ٹی سیکٹر کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر توجہ دی جا رہی ہے لیکن نجی شعبہ تعلیم نے اس پر زیادہ توجہ دی ہے، ملک اور بیرون ملک کمپیوٹر سائنس، سافٹ اور ہارڈ وئیر انجینئرز کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے لیکن ساتھ اس سے منسلک سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کورسز کرنے والے افراد بھی بہتر روزگار حاصل کر رہے ہیں۔
شعبہ طب، تعلیم، ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجی سے منسلک کئی کاروبار چلانے کے لیے باقاعدہ کال سینٹرز، ڈیسک اور کنٹرول روم 24 گھنٹے کام کرتے ہیں جہاں سیکڑوں نوجوان مختلف شفٹوں میں امور انجام دے رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کام کرنے والی کمپنیاں عام آدمی کو کاروبار اور باعزت روزگار دینے کے لیے بڑے پلیٹ فارمز فراہم کر رہی ہیں جب کہ دوسری جانب صارفین کے مسائل میں کمی بھی ہو رہی ہے کہ انھیں دروازے پر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
ان ہائی ٹیک بزنس کمپنیز کو اپنے کاروبار کو چلانے کے لیے بڑی تعداد میں آئی ٹی ماہرین کی خدمات بھی درکار ہیں جس کی بناء پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم انتہائی اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔
سافٹ وئیر اور اپلیکیشنز پر تربیت پانے والے ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کال سینٹرز میں باعزت اور بہتر روزگار حاصل کر رہے ہیں، ملک بھر میں یہ ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال سے منسلک کاروبار کی جانب راغب کیا جائے اور ساتھ ہی انھیں آئی ٹی کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔