الیکشن کے بارے میں اتنی بے اعتباری کیوں ہے

یورپ کے بڑے برانڈز ہمارے ملک کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں

ایکسپورٹ وزٹ تو ٹھیک رہا ،آرڈرز میں کچھ کمی ہے لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے؟

وہ کیا؟

یورپ کے بڑے برانڈز ہمارے ملک کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ انھیں اندیشہ ہے کہ ملک میں اگر عدم استحکام بڑھ گیا تو ان کے آرڈرز کیسے فراہم ہو سکیں گے؟ آئی ایم ایف کی ڈیل سے پہلے وہ ڈیفالٹ کے خدشے کا اظہار کرتے تھے۔

ایکسچینج ریٹ پر وہ ہم سے ڈسکاؤنٹ مانگتے ہیں کہ دیکھو تمہارا روپیہ تو گر رہا ہے۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دسمبر کے بعد دستیاب ہو سکے گا یا نہیں۔ اب بتائیں ان سوالوں کے جواب کاروباری آدمی کیا دے؟ نتیجہ یہ کہ آرڈرز آدھے ملے ہیں۔

خریدار سال بھر میں ایک بار بھی پاکستان آنے سے کتراتا ہے لیکن بنگلہ دیش اور بھارت سال بھر میں تین تین مرتبہ ہنس کے جاتا ہے۔ ہمارے ملک کو بے اعتباری یعنی Trust deficitکا سامنا ہے۔

یہ گفتگو ایک بہت بڑے ایکسپورٹ ہاؤس کے سینئر اہلکار سے ہوئی۔ بات تو سچ ہے مگر یہ بات ہماری رولنگ اشرافیہ کو یا تو سمجھ نہیں آ رہی یا انھیں اس سے غرض نہیں کہ دنیا پاکستان کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ عام پاکستانی اور کاروباری کو جاری سیاسی محاذ آرائی اور پے درپے مالیاتی بحرانوں سے کس طرح نبرد آزما ہونا پڑتا ہے؟

انھیں اندازہ ہی نہیں کہ انھیں تو اپنی پڑی ہے اور عوام کو اپنی، بجلی کے بلز میں مزید اضافے کی نوید ہے، مہنگائی نے پہلے ہی بے حال کر رکھا ہے بلکہ اب تو پکا پکا بستر بھی ہمارے ہاں لگا لیا ہے۔ عوام جائے تو کدھر؟دیکھے تو کس طرف؟

لے دے کر پانچ سال بعد عوام کو امید ہوتی ہے کہ نئے الیکشن میں شاید ان کی سنی جائے لیکن اس مجوزہ الیکشن پر اعتبار و بے اعتباری اور یقین اور بے یقینی کی دھند چھائی ہوئی ہے۔ ذہن کو ٹٹولا کہ یہ دھند صرف اب کی بار ہی چھائی ہے یا ماضی میں بھی یہ صورت حال رہی۔ اپنے پچھلے کالمز کھنگالے تو انکشاف ہوا کہ ؎

یہ تو وہی جگہ ہے

گذرے تھے ہم جہاں سے

7 جون 2018 کے ایک کالم کا ابتدائی پیرا پیش ہے، انداز ہو بہو تیری آواز پا والا معاملہ پایا ۔''الیکشن وقت پر ہو سکیں گے یا نہیں ، اس موضوع پر چہ میگوئیاں گزشتہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے قبل اس قدر تھیں کہ اکثر احباب الیکشن ہوتے ہوئے نہیں ' دیکھ ' رہے تھے۔ مگر وفاق میں نگران حکومت کے اعلان کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول جاری کر دیا۔

اس اعلان کے باوجود الیکشن کے انعقاد کے بارے میں شکوک کی دھند حد بندیوں اور نامزدگی فارم وغیرہ کے عدالتی مراحل کی وجہ سے بدستور قائم رہی۔ اس دوران چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ الیکشن 25جولائی کو ہی ہوں گے۔''


ماضی قریب کے چند دوسرے الیکشنز کو کھنگالا تو اندازہ ہوا کہ منیر نیازی والا معاملہ ہے ؎

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی

جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

یادش بخیر2002کے الیکشن میں دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں پر عتاب نازل تھا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو جلا وطن تھیں، پی پی پی کو پی پی پی پارلیمینٹیرینز کے نام سے رجسٹر ہونا اور الیکشن لڑنا پڑا۔

سیاسی منظر نامے پر اچانک شوکت عزیز نمودار ہوئے اور سیاہ و سفید میں پرویز مشرف کے دست راست بن گئے۔ ق لیگ اس سارے سیاسی منظر میں شاہ سے وفاداری بشرط استواری کی تصویر بنی۔ ق لیگ تو پرویز مشرف کو وردی سمیت دس بار منتخب کروانا چاہتی تھی لیکن 2007 میں بے نظیر کی شہادت نے منظر بدل دیا۔

الیکشن ہوا تو منظر نامے پر آصف زرداری کی گرفت سے پی پی پی کے ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوا۔ میثاق جمہوریت کا ثمر تھا کہ پی پی پی کی حکومت نے اپنی طبعی مدت پوری کی۔

2013 کا الیکشن ہوا تو اس کے فوراً بعد دھاندلی کا شور و غوغا دھرنے سے ہوتا ہوا ایک منفرد سیاسی محاذ آرائی کی طرف چل نکلا۔ اس دوران پاناما کی چھناکے سے انٹری ہوئی تو رت ہی بدل گئی۔ نواز شریف پاناما لیکس کی بنیاد پر کٹہرے میں لائے گئے مگر سزا اقامے کے نتیجے میں وصول نہ کی جانے والی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر ہوئی۔

2018 کا الیکشن ہوا تو عین الیکشن کی شام آر ٹی ایس بیٹھ گیا ۔ اگلی صبح جب آر ٹی ایس اٹھا تو جو نتائج سامنے آئے ان پر سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا لیکن طوعاً وکرہاً تسلیم کرتے ہی بنی۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی ۔

اگر قائم رہتی تو ان کے ارادے تھے کہ سب ٹنٹا ختم کرکے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو موقع دیا جائے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی ووٹنگ میں شریک کیا جائے لیکن ایک بار پھر منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہوا۔

اب الیکشن 2023 کا شہرہ ہے لیکن یوں کہ یقین کم اور بے یقینی زیادہ ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا پر تجزیاتی سونامی اپنی جگہ اقتدار کے ایوانوں میں بھی یا تو بے یقینی ہے یا جان کر بے یقینی کی دھند قائم رکھی جا رہی ہے کہ اصل پتے اور چال وقت سے پہلے آشکار نہ ہو جائیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ چاروں الیکشنز سے پہلے اور دوران کوئی نہ کوئی انہونی اور غیر فطری امر ایسا ظہور پذیر ہوا کہ رت ہی بدل گئی۔ پانچواں الیکشن بھی ہماری بیس سالہ روش سے مختلف نظر نہیں آتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے انداز سیاست ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف ۔۔ my way or highway کا لازمی نتیجہ کسی حادثے کی صورت میں نکلنا تھا، وہ شکار ہوتے یا کوئی اور۔۔۔ نو مئی کے تکلیف دہ واقعات کے بعد پھر ماضی اپنا آپ دوہرانے کو ہے۔

اب کی بار عین موقعے پر سائفر کی 'عصمت دری ' کی بنیاد پر منظر بدلنے کے آثار ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ایک بار پھر ایسے الیکشن ہوں جن میں پاور پالیٹکس کی موجیں ہوں اور عوام نرے تماشائی۔
Load Next Story