ریلوے کا رفیق کارکردگی کے آئینہ میں…

ایم ایل ون منصوبہ ریلوے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور جو ریلوے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے

پاکستان ریلوے کا سفر ہمیشہ سے محفوظ ترین، سستا، دلچسپ اور معلوماتی تصورکیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کا براہ راست عوام سے تعلق ہے اور عوام کا فیڈ بیک جس انداز سے ریلوے کو آتا ہے اس سے ہمیشہ بہتری کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ یقینا ریلوے اسٹیشن پر بڑھتی ہوئی گہما گہمی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ عوام ریلوے کے سفر کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

ریلوے اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں سیکیورٹی سمیت صفائی ستھرائی کا معیار بہتر ہوا ہے، جسے مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان ریلوے کا اپنے مسافروں کو جدید ترین سہولتیں بہم پہنچانا اور ان کے سفرکو محفوظ بنانا اور ریلوے کے ذریعے کاروبارکرنیوالے لوگوں کو بھی بزنس کے مناسب مواقع فراہم کرنا موجودہ انتظامیہ اور قیادت کی ترجیحات کا حصہ ہیں۔

موجودہ حکومت میں وزارتِ ریلوے کا قلمدان سنبھالنے کے بعد وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ ترقی کا کام وہیں سے شروع ہوگا جہاں سے 2018 میں رکا تھا۔ تمام منصوبے دیانتداری سے پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں گے، ریلوے کو پٹڑی پر بھی چڑھانا ہے اور اس کی رفتار بھی آگے بڑھانی ہے، ادارے کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پرکام کرنا ہوگا۔ ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک بار پھر نئے ولولے اور عزم کے ساتھ ریلوے حکام کے ساتھ کوششیں جاری تھیں کہ ملک میں بدترین سیلاب آ گیا اور اس نے ریلوے انفرااسٹرکچر کو بری طرح متاثرکیا۔

ملک بھر میں، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں شدید بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ سعد رفیق کی افسران کے ساتھ دن رات محنت اور کاوشوں سے ریلوے نے اپنے وسائل اور بغیرکسی بیرونی امداد کے صرف ایک ماہ میں پشاور تا کراچی ٹرین آپریشن بحال کیا اور ٹرین کا رکتا ہوا پہیہ رواں دواں کردیا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کو ملانے والا ہرک برج بھی جو کہ سیلاب کی نذر ہو گیا تھا اسے قلیل مدت میں از سر نو این ایل سی کے تعاون سے دوبارہ تعمیر کر کے ملک بھر کا رابطہ بذریعہ ریل کوئٹہ کے لیے بحال کیا گیا۔

ریلوے تنصیبات کی اتنے بڑے پیمانے پر بحالی کے لیے وزیر ریلوے نے ایک گینگ مین سے لے کر ریلوے کے سینئر افسران تک کے حوصلے بلند رکھے اور سندھ بھر سمیت بلوچستان کے ہنگامی دورے کیے جو ٹرین آپریشن کی بحالی میں معاون ثابت ہوئے۔ بلوچستان کے کوئٹہ، تفتان سیکشن کو اپ گریڈ کرنے کے لیے کام کا آغاز کروایا تاکہ ایران کے راستے تجارت کا پہیہ بذریعہ ریل جاری و ساری رہے۔

سبی، ہرنائی سیکشن جس پر کام رکا ہوا تھا تیزی سے تکمیل کی طرف چل پڑا، اور امید ہے کہ محنت رنگ لائے گی اور اگست 2023 میں انشاء اللہ اس سیکشن کا بحال ہونا وہاں کی عوام اور تاجر برادری کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں ہوگا جب پسنجر اور فریٹ آپریشن شروع ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ 2019 میں الیکٹرک آرک فرنس اسٹیل شاپ مغل پورہ میں پہنچ چکی تھی لیکن نصب نہیں کیا گیا تھا جسے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی خصوصی دلچسپی کے نتیجے میں رواں ماہ جولائی2023 کے آخر میں نصب کر کے کام شروع کر دیا جائے گا۔


اس فرنس کے چلنے سے ریلوے اسٹیل شاپ کی پیداوار میں اضافہ اور معیار میں بہتری آئے گی۔ ریلوے لینڈ کے شعبہ میں ریفارمزکا کام شروع کیا گیا۔ کابینہ سے ریلوے پراپرٹی اینڈ لینڈ رولز 2023 کی منظوری حاصل کی گئی۔ لینڈ رولز کی منظوری سے ریلوے زمینوں سے بھی آمدن بڑھے گی۔ ریلوے کے نیٹ ورک پر موجود قبضہ مافیا سے قیمتی زمینوں کو واگزار کروایا گیا۔ اختتام شدہ لیزز والی دکانوں کی نئی پالیسی کے تحت نیلامی کی گئی جس سے ریونیو میں اضافہ ہوا۔ ریلوے بورڈ میں ممبران کی تعیناتیاں مکمل کروا کر ریلوے بورڈ کو فعال بنایا گیا۔

ایم ایل ون منصوبہ ریلوے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور جو ریلوے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے تخمینہ میں کمی کے مختلف ماڈل تیار کروائے اور ادارے کے اندر سیر حاصل بحث کروائی گئی تاکہ تیزی سے یہ منصوبہ عملی طور پر آگے بڑھ سکے۔ امید ہے چین کے تعاون سے کراچی اور پشاور کے درمیان ریلوے لائن کے اہم منصوبے ایم ایل ون پر کام جلد شروع ہو جائے گا۔ ٹرینوں اور ریلوے تنصیبات پر برانڈنگ کے لیے پلان بنایا گیا تاکہ ریلوے کو ریونیو حاصل ہوسکے، جس پر رواں ماہ جولائی 2023 میں 15 کوچز،پانچ ریلوے اسٹیشن اور 3 بل بورڈ کے پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز ہوجائے گا۔

ریلوے کے انتظامی و مالی امورکو ڈیجیٹائزکیاجا رہا ہے جب کہ ریلوے میں ای ٹینڈرنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ وزیر ریلوے کے وژن کے مطابق کہ جو پرزے مقامی سطح پر تیار ہوسکتے ہیں، انھیں تیار کر کے زرمبادلہ بچایا جائے، اس بات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پاکستان ریلویز کے ماہر انجینئرز نے ریلوے انجنوں کے لیے استعمال ہونے والا وی ایچ ایف انٹینا مقامی طور پر تیار کر لیا جس کی کامیاب ٹیسٹنگ بھی مکمل ہو چکی ہے۔

موجودہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی وزارت میں چائنہ سے درآمد کی گئی 230 میں سے 46 کوچز پاکستان تیار شدہ حالت میں وصول کی گئیں اور باقی پارٹس کی شکل میں پاکستان موصول ہوئی، جنھیں کیریج فیکٹری اسلام آباد میں تیار کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ چین سے فریٹ سیکٹر کے لیے بھی 820 ویگنز جو درآمد کی گئی تھیں، ان میں سے 70 فریٹ ویگنیں پاکستان کو تیار شدہ حالت میں موصول ہوئیں اور باقی 750 ویگنیں ریلوے ورکشاپس میں تیار کی جائیں گی۔

ریلوے نیٹ ورک پر موجود ریلوے اسٹیشنوں اور تنصیبات کو آہستہ آہستہ شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اشتہارات جاری کیے جا چکے ہیں۔ ویلفیئر کے شعبوں میں اصلاحات لا کر انھیں مزید فعال بنایا جا رہا ہے۔ آئی جی ریلوے راؤ سردار علی خان کی تعیناتی کے بعد ریلوے پولیس میں اصلاحات کا عمل تیزکیا گیا۔ کووڈ اور ملک میں سیلاب کے بعد متعدد بند ٹرینیں بحال کی گئیں جن میں گرین لائن ایکسپریس کو نئی درآمد کی گئی چائنیز کوچز اور اے سی پارلر کے اضافہ کے ساتھ چلایا گیا۔

اس کے علاوہ جعفر ایکسپریس، شالیمارایکسپریس، بہاؤالدین زکریا ایکسپریس، فرید ایکسپریس، شاہ لطیف بھٹائی ایکسپریس، ہزارہ ایکسپریس، ملت ایکسپریس اور موہنجو داڑو ایکسپریس شامل ہیں۔

خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے کے اس دور میں حالات کچھ بہت کٹھن رہے کیونکہ معاشی حالات ملک کے بہتر نہیں رہے پھر بھی خواجہ سعد رفیق کی موجودہ وزارت میں ریلوے نے 23۔2022 کے مالی سال میں مجموعی آمدن 62 ارب 57 کروڑ سے زائد کما کر گزشتہ دہائیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے جوکہ بہت ہی خوش آیند بات ہے اور جس کا کریڈٹ وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق کو جاتا ہے اور وہ محنت پر یقین رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
Load Next Story