حیات عبد اللہ کی ’’ کھوج ‘‘ کا سفر

زیرِ نظر کالموں کا مجموعہ ’’ کھوج ‘‘ یقینی طور پر دنیائے ادب میں ایک قابلِ قدر علمی و تخلیقی کاوش ہے


صدام ساگر July 23, 2023

جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے، وہ ہر وقت کسی نہ کسی کی تلاش میں سرگرم رہا، پُر تجسس اشیا کی کھوج اس کا بہترین مشغلہ رہا۔

تجسس سے مراد انسانوں میں پائی جانے والی ایک سوچ ہے، جس کے تحت کھوج بینی، تحقیق، حصولِ علم وغیرہ ممکن ہے۔ تجسس کا انسانی نشوونما سے گہرا تعلق ہے۔ ایک خاص تسلسل کے ساتھ انسان تحقیق سے جُڑا رہا اور اپنی ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ مختصر یہ ہے کہ انسان کے ارتقائی سفرکو تقویت بخشنے میں تحقیق کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔

حیات عبد اللہ کا شمار موجودہ عہد کے ایسے ہی تخلیق کاروں میں ہوتا ہیں جنھوں نے '' اشعار کی صحت'' جیسا منفرد تخلیقی کارنامہ سر انجام دیا، یقینا یہ بہت محنت طلب اور باریک بینی کا کام تھا،حیات عبد اللہ ایک وسیع المطالعہ، گہرا مشاہدہ اور تنقیدی شعور کا حامل قلم کار ہے۔

انھوں نے درست شعر کی تحقیق کے لیے غلط اشعار کی غلطیوں کی نشان دہی کے لیے ملک بھر کے قومی اخبارات میں شایع ہونے والی تحریروں میں لکھے گئے اشعار کی درستی اور ان کا تحقیقی جائزہ لینے، شعر کے اصلی خالق کے نام و نسب کا ایک سلسلہ '' اشعار کی صحت'' کے عنوان سے شروع کیا، جس کی ایک دو قسطوں کے بعد قارئین نے اس سلسلے کو بہت پسند کیا۔ اس کام کے دوران کچھ احباب کی طرف سے ہر قسم کی رکاوٹیں درپیش آنے پر یہ سلسلہ کئی بار تعطل کا شکار بھی ہُوا۔

بعض کالم نگاروں کی طرف سے کئی بار انھیں یہ سننے کو ملا کہ '' جن اخبارات میں غلط اشعار لکھے ہوتے ہیں، اُن کے نام مت لکھا کریں توکبھی حکم دیا گیا کہ کالم نگاروں کے نام لکھنے سے گریز کریں۔'' ایسی تمام رکاوٹوں کے زیر کرتے ہوئے جن کالم نگاروں کو اپنی غلطیوں پر توہین محسوس ہورہی تھی اُنھیں حیات عبد اللہ نے اپنے قسط وار کالم '' اشعار کی صحت'' کو '' کھوج'' کا نام دیتے ہوئے کتابی صورت میں پیش کر دیا ہے۔ کیونکہ '' کھوج'' میں شامل سبھی تحریروں میں تلخ و شیریں تجربات اور عمیق مشاہدات ذاتی نوعیت کے ہیں، اس اعتبار سے ان کا یہ تحقیقی کام بہت گہری نظر سے مشاہدہ کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں شامل تمام کالموں میں بڑے ہی عمدہ انداز اور مستند حوالوں سے بزرگ کالم نگاروں کے اشعار، محاورات اور فقرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ '' کھوج'' میں بہت کم اشعار ایسے ہیں جو متعلقہ شاعرکی کتاب کی عدم دستیابی کے باعث یا کسی محقق کی کتاب کے حوالے کے ساتھ پڑھنے کو ملتے ہو، جب کہ دیگر اشعار میں کہیں علمِ عروض کا خیال نہیں رکھا گیا، کہیں کالم نگار نے شاعر کا نام غلط لکھ دیا ہے، کہیں اشعار کے اوزان اور الفاظ کی ترتیب بگاڑ دی ہے، کہیں اُوپر اور نیچے والے دونوں مصرعوں کے ربط کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے، کہیں صحیح اشعار کے ردیف، قافیے کو بدل دیا گیا ہے، کہیں زیر، زبر، پیش، شد اور مد سے اشعار کو بے وزن کر دیا ہے۔

ہمارے بہت سے کالم نگاروں کا المیہ یہ ہے کہ جو شعر اُنھیں جس طرح یاد ہوتا ہے اُسے بنا کسی تحقیق کے اُسی طرح اپنے کالموں میں لکھ دیتے ہیں۔ میرے خیال میں غلط اشعار کالم میں لکھنے سے بہتر ہے کہ شعر لکھا ہی نہ جائے۔

اسی طرح بہت سے شعرا، اشعار تو کہتے ہیں مگر انھیں اوزان کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہ اکثر محافل میں بے وزن اشعار بھی پڑھ دیتے ہیں، کچھ شعرا ایسے بھی ہیں جن کے کلام کا دال دلیا کرکے اپنے نام سے چھپوا کر جھوٹی شہرت کی نمائش سجا لیتے ہیں۔ ایسے شعرا کو حیات عبداللہ کی کتاب ''کھوج'' کے مطالعے کی اشد ضرورت ہے۔

حیات عبداللہ لکھتے ہیں کہ '' کلاسیکل شعراء کے کلام پر جس طرح ستم ڈھایا جا رہا ہے، اس سے ادب کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے وہ اشعار بھی غلط لکھ دیے جاتے ہیں، جو زبان زدِ عام ہیں۔'' اس بات کے کچھ نمونے ان کے '' اشعار کی صحت'' سے ملاحظہ کیجیے:

عزیز ظفر آزاد نے اپنے مضمون میں حضرت علامہ اقبالؒ کے شعر کا ایک اور مصرع یوں لکھا ہے:

نظر کو خیرہ کرتی ہے تہذیب حاضر کی

مصرع صرف بے وزن ہی نہیں کیا ہے بلکہ معنی و مفہوم سے عاری بھی کر دیا گیا ہے۔ مَیں اسے کتابت کی غلطی تصور کر لیتا اگر باقی اشعار درست لکھے گئے ہوتے۔'' بانگِ درا '' میں موجود نظم '' طلوعِ اسلام'' کا یہ شعر دراصل اس طرح ہے۔

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

''کھوج'' میں شامل اشعار کی صحت میں ایسے بے وزن مصرعے اور اشعار، اقبالؒ کے علاوہ دیگر شعرا کے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں، جنھیں ہمارے کالم نگاروں نے اپنے کالموں میں اشعار کے ذریعے ندرت پیدا کرنے کے لیے اس حقیقت کو بھی مدِنظر نہ رکھا کہ غلط اور بے وزن اشعار کسی بھی عمدہ تحریر کا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں۔ میرے خیال میں جن کالموں میں غلطیوں کی گنجائش زیادہ ہو وہ کالم عجلت میں لکھے جاتے ہیں، ایسے قلمی چہرے کالم نگاری نہیں بلکہ سالم نگاری کی طرف راغب ہیں۔

ایسے کالم نگاروں کے لیے حیات عبد اللہ کا نقطہ نظر کچھ یوں ہے کہ '' قلم و قرطاس سے منسلک ہر شخص سے میری استدعا فقط اتنی ہے کہ تحقیق کرنا تھوڑا مشکل کام ضرور ہے مگر یاد رکھیں کہ تحقیق اور کھوج کے بعد ہمیشہ گوہرِ گراں مایہ ہی ہاتھ آتے ہیں۔ ایسی ہی طویل شناوری کے بعد جو سیپ میرے ہاتھ لگی ہیں، ان سے نکلے موتی اور مروارید آپ کے ہاتھوں میں ہیں۔''

حیات عبداللہ سے قبل اشعار میں سقم کی نشان دہی کا فریضہ مرحوم ناصر زیدی ادا کرتے رہے جن سے اُن کے ہم عصر اکثر خفا نظر آتے۔ حیات عبداللہ نے اشعار کی صحت کے بعد '' غلطی ہائے مضامین '' جیسے سلسلے کا آغاز کر دیا ہے ان کے اکثر الفاظ دھکتے ہوئے '' انگارے'' کی طرح لگتے ہیں۔ یہی انگارے غور و فکر کرنے پر ستاروں کی مانند ہماری سوچ میں جگمگانے لگتے ہیں۔

حیات عبداللہ ایک روشن فکر اور صاحبِ نظر آدمی ہے۔ '' کھوج '' سے قبل انھوں نے منتخب سیاسی، سماجی، علمی، ادبی اور معاشرتی موضوعات پر مبنی کالموں کا مجموعہ '' اندھیروں کا تعاقب'' منظرِ عام پر آ چکا ہے جو ان کی زندگی کے جیتے جاگتے مسائل کو اُجاگر کرتا ہے، اس کے بعد '' سلام کشمیر'' کے نام سے ایک کالموں کا مجموعہ شایع ہُوا جس میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کی داستان کو اس وثوق سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ کتاب پڑھنے والوں کے دلوں کو جھنجوڑ کر رکھ دے گی۔

زیرِ نظر کالموں کا مجموعہ '' کھوج '' یقینی طور پر دنیائے ادب میں ایک قابلِ قدر علمی و تخلیقی کاوش ہے جس کے لیے حیات عبد اللہ کو جس قدر داد و تحسین اور خراج عقیدت پیش کیا جائے، کم ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں