قومی کرکٹرز نے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کا ارادہ کرلیا
سینٹرل کنٹریکٹ میں تبدیلیوں کیلیے پی سی بی چیف سے ملاقات کی جائے گی
قومی کرکٹرز نے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کا ارادہ کرلیا جب کہ سینٹرل کنٹریکٹ میں تبدیلیوں کیلیے چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف سے ملاقات کی جائے گی۔
قومی کرکٹرز کا سینٹرل کنٹریکٹ 30 جون کو ختم ہو گیا تھا، اس وقت ایک ماہ توسیع کی باتیں سامنے آئیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ سائن ہی نہیں ہوا، کھلاڑیوں کو بعض امور پر تحفظات ہیں اور وہ اس حوالے سے مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، کولمبو میں ایک آفیشل نے انھیں قائل کرنے کیلیے ملاقات بھی کی مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
سابقہ مینجمنٹ کمیٹی نے معاوضوں میں 45 فیصد اضافے کی تجویز دی تھی مگر کھلاڑی کنٹریکٹ میں مکمل تبدیلی چاہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ دنیا بھر کے مقابلے میں انھیں بہت کم معاوضہ مل رہا ہے، کچھ فیصد اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سینٹرل کنٹریکٹ؛ کھلاڑیوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا، مگر کتنا؟
گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک ریسرچ کے مطابق جو روٹ سالانہ 31 کروڑروپے سے زائد کماتے ہیں، بابر اعظم رینکنگ میں تو نمبر ون ہیں مگر آمدنی کے لحاظ سے ٹاپ 10 کرکٹرز میں بھی شامل نہیں ہوتے۔
کھلاڑی چاہتے ہیں کہ بورڈ خود ریسرچ کرائے اور پھر ایسا سسٹم بنایا جائے جس سے وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بے فکر ہو جائیں، انھوں نے والدین سمیت فیملی ہیلتھ انشورنس، ایجوکیشن پالیسی، آئی سی سی ریونیو میں شیئر کا بھی مطالبہ کیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اسپانسر شپ معاہدوں میں سے حصہ دیا جائے، ہر سال کنٹریکٹ کے ساتھ بورڈ اپنے اسپانسرز کی فہرست بھی دے۔
لیگز کیلیے این او سی دینے کے معاملے میں بھی شفافیت لانے کا کہا جائے گا، موجودہ طریقہ کار کے تحت کرکٹرز کی درخواست شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ کے پاس جاتی ہے، وہ ہیڈ کوچ سے رائے لیتا ہے، پھرڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ این او سی کا فیصلہ کرتے ہیں، بظاہر یہ پراسس 2،3 دن کا لگتا ہے مگر کھلاڑی اکثر غیرضروری تاخیر کی شکایت کرتے ہیں، ان کے مطابق ہفتوں کوئی جواب نہیں ملتا، فون کالز تک وصول نہیں کی جاتیں، اس حوالے سے ایک وقت طے کر لیا جائے کہ اتنے دنوں میں جواب دے دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سینٹرل کنٹریکٹ؛ بھاری جرمانوں اور پابندی کی تلوار پلیئرز پر لٹکنے لگی
معاہدوں کے ساتھ ایک شیڈول بھی دینا چاہیے جس میں فارغ دنوں کا لکھا جائے تاکہ ان میں لیگز سے معاہدے کیے جا سکیں،اگر بورڈ خود کسی کرکٹر کو لیگ میں شرکت سے روکے تو زرتلافی دی جائے، حال ہی میں کینیڈا اور امریکا کی لیگز کے این او سی کیلیے بورڈ نے منتظمین سے 25ہزار ڈالر فی کرکٹر طلب کیے تھے، کھلاڑیوں نے اسے غیرمنصفانہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ جس کا معاوضہ ہی 5 ہزار ڈالر ہو اسے این او سی دینے کیلیے کون25ہزار ڈالر دیگا۔
یاد رہے کہ امریکی لیگ کیلیے پی سی بی نے پہلے این او سی دینے سے منع کیا پھر چند کرکٹرز کو جانے کی اجازت دے دی،اس سے وہ کھلاڑی جنھیں پہلے آفرز تھیں اور وہ نہ جا سکے سخت مایوس ہوئے،اب یکساں پالیسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے،ماضی میں انگریزی زبان میں کئی سو صفحات پر مشتمل سینٹرل کنٹریکٹ پہلے کھلاڑیوں کو صرف چند منٹ کیلیے دیا جاتا تھا اور دستخط کر کے واپس کرنا پڑتا،البتہ گذشتہ برس سے اصرار پر کاپی دے دی گئی تھی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ سابقہ حکام نے کرکٹرز کی رائے کو اہمیت نہیں دی مگر انھیں مینجمنٹ کمیٹی کے نئے سربراہ ذکا اشرف سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ان کی بات سن کر کوئی مثبت قدم اٹھائیں گے، وطن واپسی کے بعد بعض سینئر کھلاڑی چیئرمین سے ملاقات بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
قومی کرکٹرز کا سینٹرل کنٹریکٹ 30 جون کو ختم ہو گیا تھا، اس وقت ایک ماہ توسیع کی باتیں سامنے آئیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ سائن ہی نہیں ہوا، کھلاڑیوں کو بعض امور پر تحفظات ہیں اور وہ اس حوالے سے مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، کولمبو میں ایک آفیشل نے انھیں قائل کرنے کیلیے ملاقات بھی کی مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
سابقہ مینجمنٹ کمیٹی نے معاوضوں میں 45 فیصد اضافے کی تجویز دی تھی مگر کھلاڑی کنٹریکٹ میں مکمل تبدیلی چاہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ دنیا بھر کے مقابلے میں انھیں بہت کم معاوضہ مل رہا ہے، کچھ فیصد اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سینٹرل کنٹریکٹ؛ کھلاڑیوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا، مگر کتنا؟
گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک ریسرچ کے مطابق جو روٹ سالانہ 31 کروڑروپے سے زائد کماتے ہیں، بابر اعظم رینکنگ میں تو نمبر ون ہیں مگر آمدنی کے لحاظ سے ٹاپ 10 کرکٹرز میں بھی شامل نہیں ہوتے۔
کھلاڑی چاہتے ہیں کہ بورڈ خود ریسرچ کرائے اور پھر ایسا سسٹم بنایا جائے جس سے وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بے فکر ہو جائیں، انھوں نے والدین سمیت فیملی ہیلتھ انشورنس، ایجوکیشن پالیسی، آئی سی سی ریونیو میں شیئر کا بھی مطالبہ کیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اسپانسر شپ معاہدوں میں سے حصہ دیا جائے، ہر سال کنٹریکٹ کے ساتھ بورڈ اپنے اسپانسرز کی فہرست بھی دے۔
لیگز کیلیے این او سی دینے کے معاملے میں بھی شفافیت لانے کا کہا جائے گا، موجودہ طریقہ کار کے تحت کرکٹرز کی درخواست شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ کے پاس جاتی ہے، وہ ہیڈ کوچ سے رائے لیتا ہے، پھرڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ این او سی کا فیصلہ کرتے ہیں، بظاہر یہ پراسس 2،3 دن کا لگتا ہے مگر کھلاڑی اکثر غیرضروری تاخیر کی شکایت کرتے ہیں، ان کے مطابق ہفتوں کوئی جواب نہیں ملتا، فون کالز تک وصول نہیں کی جاتیں، اس حوالے سے ایک وقت طے کر لیا جائے کہ اتنے دنوں میں جواب دے دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سینٹرل کنٹریکٹ؛ بھاری جرمانوں اور پابندی کی تلوار پلیئرز پر لٹکنے لگی
معاہدوں کے ساتھ ایک شیڈول بھی دینا چاہیے جس میں فارغ دنوں کا لکھا جائے تاکہ ان میں لیگز سے معاہدے کیے جا سکیں،اگر بورڈ خود کسی کرکٹر کو لیگ میں شرکت سے روکے تو زرتلافی دی جائے، حال ہی میں کینیڈا اور امریکا کی لیگز کے این او سی کیلیے بورڈ نے منتظمین سے 25ہزار ڈالر فی کرکٹر طلب کیے تھے، کھلاڑیوں نے اسے غیرمنصفانہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ جس کا معاوضہ ہی 5 ہزار ڈالر ہو اسے این او سی دینے کیلیے کون25ہزار ڈالر دیگا۔
یاد رہے کہ امریکی لیگ کیلیے پی سی بی نے پہلے این او سی دینے سے منع کیا پھر چند کرکٹرز کو جانے کی اجازت دے دی،اس سے وہ کھلاڑی جنھیں پہلے آفرز تھیں اور وہ نہ جا سکے سخت مایوس ہوئے،اب یکساں پالیسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے،ماضی میں انگریزی زبان میں کئی سو صفحات پر مشتمل سینٹرل کنٹریکٹ پہلے کھلاڑیوں کو صرف چند منٹ کیلیے دیا جاتا تھا اور دستخط کر کے واپس کرنا پڑتا،البتہ گذشتہ برس سے اصرار پر کاپی دے دی گئی تھی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ سابقہ حکام نے کرکٹرز کی رائے کو اہمیت نہیں دی مگر انھیں مینجمنٹ کمیٹی کے نئے سربراہ ذکا اشرف سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ان کی بات سن کر کوئی مثبت قدم اٹھائیں گے، وطن واپسی کے بعد بعض سینئر کھلاڑی چیئرمین سے ملاقات بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔